خدارا! ہوش کے ناخن لیجیئے

کبھی کبھی میں سوچتا ہوں کہ حساس ہونا بھی کس قدر بڑا جرم ہے۔ایک صاحب درد اور حساس بندہ کس کس شے کا رونا روئے۔غیروں کے ڈرون کا نشانہ بننے والے سینکڑوں بے گناہوں کی شہادت کا یا اپنوں کی ہوس کا نشانہ بننے والی معصوم کلی کے ٓانسوؤں کا۔جنازوں پر کئے گئے خود کش حملوں پر یا غیر مسلموں کی عبادت گاہوں پر کئے گئے بم دھماکوں پر۔مہنگائی کے مارے غریب باپ کی خودکشی پر یابے روزگاری کے ہاتھوں پریشان نوجوانوں کے جرائم کی دلدل میں دھنس جانے پر۔کیا یہ ضمیر زندہ ہونے کی ہی سزا ہے کہ بندہ حالات کو دیکھ دیکھ دن میں کئی کئی بار مرے۔
بقول قانتہ تحریمؔ
نظر نظر فریب کیوں،نگر نگر ہیں وحشتیں
وبال ہی وبال ہے، زوال ہی زوال ہے

اتوار کے روز الیکٹرانک میڈیا میں ایک ایسا واقعہ رپورٹ ہوا جسے دیکھنے اور سننے کے بعد کوئی بھی ذی شعور نارمل نہیں رہ سکتا۔ واقعہ تو دلخراش تھا ہی مگر اس پر ہمارے حکمرانوں کا ردعمل زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف تھا۔ لاہور میں سبزہ زار کے علاقے کا ایک رہائشی اپنے تین سالہ بیٹے اور دو سالہ بیٹی کے ہمراہ موٹر سائیکل پر جا رہا تھا کہ گلے پر پتنگ کی ڈور پھرنے سے دو سالہ نور فاطمہ موقع پر ہی دم توڑ گئی اور تین سالہ بیٹے کے بھی زخمی ہونے کی اطلاعات ہیں۔ان والدین پر کیا گرزی ہو گی جن کی دنیا کسی کے شوق نے اجاڑ ڈالی۔وہ کس کے ہاتھوں پہ اپنی معصوم بیٹی کا لہو تلاش کریں ، کس سے انصاف مانگیں۔نور فاطمہ کے والدین کی دلجوئی کرنے کی بجائے کمشنر لاہور شاہد محمود فرماتے ہیں کہ ایک کروڑ آبادی والے شہر میں اس طرح کا واقعہ کوئی بڑی بات نہیں۔ موصوف مزید فرماتے ہیں کہ تیز ہوا ہو تو شہریوں کا دل چاہتا ہے کہ وہ پتنگ اڑائیں اور یہ کہ پتنگ بازی پر پابندی پر عمل درآمد کروانے کے لئے اقدامات کر رہے ہیں۔کوئی جناب سے پوچھے کہ کیا اگر نور فاطمہ کی جگہ خدانخواستہ ان کی اپنی بیٹی ہوتی تو کیا پھر بھی موصوف کا یہی ردعمل ہوتا، کیا پھر بھی یہ کوئی بڑا واقعہ نہ ہوتا ۔خدا کی قسم ہر گز نہیں۔سچ کہتے ہیں خود پہ بیتی ہو تبھی دوسرے کے درد کا احساس ہوتا ہے۔

پتنگ بازی کو اپنی ثقافت کا حصہ کہنے والو! کب تک اپنی اذہان کو غیروں کا غلام کئے رکھو گے۔اغیار کے تہواروں کو اپنی ثقافت بتا کر کب تک اپنے مستقبل کو اپنے ہاتھوں سے موت کے منہ میں دھکیلتے رہو گے۔

اقتدار کے نشے میں دھت یہ لوگ کیا بھول گئے ہیں کہ پاکستان کے قیام کا کیا مقصد تھا۔ کیا انہوں نے پاکستان کو اسلامی فلاحی ریاست سمجھا ہے۔ کیا اسی پاکستان کا خواب دیکھا تھا اقبال نے، کیا اسی پاکستان کی خاطر محمد علی جناح نے اپنی ساری زندگی صرف کر دی تھی، کیا اسی پاکستان کے لئے لاکھوں لوگوں نے اپنی جانیں، عصمتیں، جاگیریں لٹا دیں تھیں، کیا یہی ہے وہ پاکستان جس کی بنیاد لاالہ اﷲ پہ رکھی گئی تھی۔خدارا! ہوش کے ناخن لیجیئے....!! اس سے پہلے کے ہمارے دلوں پر مہریں ثبت کر دی جائیں اور ہمارے لئے پلٹنے کی کوئی راہ نہ رہے...... !!
Tajammal Mahmood Janjua
About the Author: Tajammal Mahmood Janjua Read More Articles by Tajammal Mahmood Janjua: 43 Articles with 38762 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.