جب تک ہمارے شاعر اور ادیب یہ
نہیں سمجھیں گے کہ ہمیں وہ چیز تخلیق کرنی ہے جو ہر خاص و عام کو سمجھ آئے
تب تک ہماری قوم کتاب سے مزید دور ہوتی رہے گی۔ یہ 100 سال پرانہ زمانہ
نہیں ہے جب مشاغل محدود تھے۔ اب تو ادب بھی دوسرے مشاغل کے ساتھ مقابلے میں
ہے اور بد قسمتی سے ہار رہا ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ وہ ادب تخلیق
ہو رہا ہے جس کی زیادہ لوگوں کو زبان ہی سمجھ نہیں آتی۔ زبان سمجھ آتی ہے
تو پیغام 7 پردوں میں چھپا ہوتا ہے۔ اب نہ لوگوں میں صبر ہے اور نہ ہی
لوگوں کے پاس وقت ہے۔ لوگ نظم ہو یا نثر اس کا عنوان اور پہلی چند سطور پڑھ
کے فیصلہ کر لیتے ہیں کہ ہم نے آگے پڑھنا ہے یا نہیں۔ ہمارے ہاں جن لوگوں
کے ذمے لوگوں کو کتابوں کی طرف راغب کرنا ہے وہ فضول کی بحثوں میں الجھے
ہوئے ہیں جن کا عام قاری سے تعلق ہی نہیں۔
پھر شکوہ یہ کرتے ہیں کہ لوگ ڈائجسٹ پڑھتے ہیں کتابیں نہیں پڑھتے۔ پھر شکوہ
یہ کہ آجکل وہ شاعر مشہور ہو رہے ہیں جن کو ہم شاعر ہی نہیں سمجھتے۔ یہ
ڈائجسٹ یہ شاعر وہ لکھتے ہیں جو لوگوں کو اپیل کرتے ہیں اس لیے پڑھے جاتے
ہیں۔ آپ لوگ جس چیز کو ادب سمجھتے ہو وہ 30 سال پہلے تو چل سکتی تھی آج اس
میں کوئی کشش نہیں ہے۔ نتیجہ یہ ہے کی اب ادیب اور شاعر ہی لکھتے ہیں اور
ادیب اور شاعر ہی پڑھتے ہیں۔ ہمارا ادب ہمارے معاشرے میں تقریباً کوئی مثبت
کردار ادا نہیں کر رہا۔ جو لوگ مثبت لکھ رہے ہیں جن کو لوگ پڑھنا پسند کرتے
ہیں ان کو تو سو کالڈ ادیب لوگ اپنا حصہ ہی نہیں سمجھتے۔ |