پنڈی سانحہ ،میڈیا اور سوشل میڈیا
(Malik Abdul Rehman Jami, Abbotabad)
دکھ ہے اور ایسا کہ سینہ فگار ہے۔ ایک شخص
کے جہل،کچھ لوگوں کی عدم برداشت ، حکومتی اور انتظامی حلقوں کی نا اہلی نے
پنڈی کو خاک و خون میں نہلا دیا۔ طالبان کے ہاتھوں یر غمال اس قوم نے شام
تک یوم عاشور کے خیریت سے گذر جانے پہ ابھی سکھ کا سانس بھی نہ لیا تھا کہ
راولپنڈی کے فوارہ چوک میں دو گروہوں میں تصادم کی خبر آ گئی۔پنڈی سے دور
بیٹھ کے بھی یہ سمجھنے میں چند ہی لمحے لگے کہ کیا ہوا ہو گا۔ بعد کی
معلومات نے ان سارے خدشات کی سو فیصد تصدیق کر دی۔حیرت ہے ہم جانتے بوجھتے
کتمانِ حق کرتے ہیں۔ سچ کو چھپاتے اور صرف اپنے حصے اور اپنے تعصب کے زیر
اثر واویلا کرتے ہیں۔ ہمارے اپنے اپنے شہید ہیں اور ان شہیدوں کا اس شہادت
سے قطعاََ کوئی تعلق نہیں جس کا ذکر قرآن میں ہے کہ وہ زندہ ہیں اور تمہیں
اس کا شعورنہیں۔
تلخ نوائی کی معافی چاہتا ہوں لیکن عوام کو حقائق کا علم ہونا چاہئیے ۔ کون
کتنا قصور وار ہے اور کس نے اﷲ کی زمین پہ فساد کو ترویج دی۔اس کی تحقیقات
ہو اور ایسی کہ کسی کا لحاظ نہ کیا جائے۔ ایک پاگل شخص کسی چوک میں کھڑا ہو
کے کسی معزز شخص کو گالیاں دینا شروع کر دے تو وہ تو قصور وار ہے ہی لیکن
وہ معزز شخص اگر جواب میں اس کی ٹانگ ہی چپا ڈالے تو اسے معزز کہتے ہوئے
کافی لوگوں کو سوچنا پڑے گا۔اس پہ طرہ یہ کہ جوآگ بجھانے پہ مامور تھے ان
کا آگ لگتے سمے دور دور تک کہیں نام و نشان بھی نہ تھا۔اب کچھ لوگ اسے
بیرونی ہاتھ اور بیرونی طاقت کا نام دے کے ملبہ اپنے سر سے اتارنے کی کوشش
کررہے ہیں۔ پہلی بات تو یہ کہ ایسا کچھ ہے ہی نہیں۔ یہ سب ہمارا اپنا کیا
دھرا ہے۔ ثانیاََ یہ کہ اگر کوئی نادیدہ یا بیرونی ہاتھ تھا بھی تو اسے
روکنا کیا عوام کا کام تھا؟
آگ لگ گئی اب اسے بجھانا پہلا کام ہے۔ اﷲ کریم کا احسان کہ الیکٹرانک میڈیا
نے انسان دوستی اور وطن پرستی کا مظاہرہ کیا۔ کہیں پہ بھی جلتی پہ تیل نہیں
ڈالا۔ اپنی عادت کے بر عکس انہوں نے اپنی ریٹنگ کی بھی پروا نہیں کی۔ یہ ان
کا اپنا فیصلہ تھا یا کسی سرکاری ادارے نے ان سے درخواست کی ۔میڈیا کا
کردار اس معاملے میں قابلِ ستائش رہا اور اس پہ ان کی تحسین نہ کرنا زیادتی
ہو گی۔ معاملے کی تحقیق کے لئے البتہ ان لوگوں کی رائے صائب ہو گی کہ یہ
واقعے کے چشم دید گواہ تو ہیں اور چونکہ نسبتاََ کم متعصب ہیں اس لئے ان کی
گواہی کسی نتیجے پہ پہنچنے کے لئے مدد گار ثابت ہو سکتی ہے۔تحقیق اگر غیر
جانبدارانہ اور منصفانہ ہو تو وہ مر جانے والوں کو واپس تو نہیں لائے گی
لیکن اس سے آئندہ اس طرح کے واقعات سے بچنے کی امید پیدا ہو جائے گی۔
اس دفعہ الیکٹرانک میڈیا نے مہربانی کی تو جلتی پہ تیل ڈالنے والے اپنے
سارے ہتھیار اٹھا کے سوشل میڈیا پہ چلے آئے۔ فوٹو شاپ پہ تصویروں کو ایڈیٹ
کر کے بچوں کے کٹے ہوئے گلے دکھائے گئے۔ ڈاکٹر ز کہتے ہیں کہ جتنی بھی
اموات ہوئیں سبھی گولی لگنے سے ہوئیں۔ انسان میں تخریب کا عنصر بہت طاقتور
ہے۔اسے جلاؤ گھیراؤ اچھا لگتا ہے سوائے اس کے وہ اﷲ کی رحمت اور اس کے عطا
کردہ علم سے اس پہ قابو پا لے۔ یہی معاملہ تعصب کا ہے جو اکثر اوقات آنکھوں
کو اندھا کر دیتا اور سوچنے سمجھنے کی صلا حیتیں سلب کر لیتا ہے۔ واقعہ کی
خبر ہوتے ہی چھپا ہوا تعصب یوں باہر نکلا جیسے آتش فشاں سے لاوا پھوٹ بہتا
ہے۔لوگ اپنے اپنے تعصب کے ٹوکرے اٹھائے سوشل میڈیا پہ یوں حملہ آور ہوئے کہ
جیسے یہ کفر اور اسلام کی جنگ ہے اور اگر کوئی اس میں شریک نہ ہو پایا تو
گویا اس کی بخشش مشکوک ہو جائے گی۔
وہ تو بھلا ہو کچھ ایسے لوگوں کا جنہوں نے سوشل میڈیا پہ بھی اپنا مثبت
کردار ادا کیا اور لوگوں کو نفرت پھیلانے سے روکا۔ صالح روحیں نصیحت قبول
کرتی ہیں اور بدبختوں کے حق میں دعائیں بھی قبول نہیں ہوتیں۔کچھ بد بخت
ابھی تک اپنے اپنے تعصب کے کنستر اٹھائے فضاء میں نفرت پھیلانے اور تعصب کی
آگ بھڑکانے میں مصروف عمل ہیں۔ یہ سارے دشمن کے ایجنٹ نہیں دشمن تو صرف
تیلی لگاتا ہے اس کے بعد جو کرتے ہیں قوال کرتے ہیں۔اﷲ ان قوالوں کو ایمان
سمجھ اور عقل عطاء فرمائے۔اﷲ کے ہاں فساد اور تفرقہ مٹانا پسندیدہ ہے فتنہ
پھیلانا ہر گز نہیں۔
مسجد کو جلایا گیا ۔لوگوں کو بے رحمی سے مارا گیا۔ سینکڑوں زخمی ہوئے۔
مارکیٹ کو آگ لگائی گئی۔ لوگوں کا کروڑوں کا نقصان ہو گیااور پوری قوم جس
طرح غم اور دکھ میں ڈوبی رہی۔اس پہ جتنے دکھ کا اظہار کیا جائے،اس کی جتنی
بھی مذمت کی جائے کم ہے۔لیکن کیا مذمت ان بچوں اور بڑوں کی زندگی دوبارہ
لوٹا سکتی ہے۔ کیا ان ماؤں کو جن کی گود اجڑ گئی کوئی حرف تسلی سہارا دے
سکتا ہے۔وہ جو زخمی ہیں کیا ہمارے نفاق بھرے ہمدردی کے الفاظ ان کے زخموں
پہ مرہم رکھ سکتے ہیں اور جو ان میں معذور ہوئے کیا ان کی معذوری کا ان
متعصب فسادیوں میں سے کوئی سہارا بنے گا۔ہونا تو یہ چاہئیے تھا کہ ہم ان
ماؤں کے لئے کوئی حرف تسلی تلاشتے۔ان معذوروں کی بیساکھیاں بنتے ان کے
مستقبل کی فکر کرتے۔ہم مزید لاشیں گرانے کی کوشش کر رہے ہیں اور کچھ اور
ماؤں کی گود اجاڑنے کی اور کچھ اور سہاگنوں کے سہاگ اجاڑنے کی۔ کچھ اور
لوگوں کو اپاہج بنانے کی۔کچھ اور لوگوں کو ان کے روزگار سے محروم کرنے کی۔
یہ کیسا دین ہے اور یہ کس دین کے علماء و ذاکرین ہیں جو انسانیت کی دھجیاں
اڑانے کے درپے ہیں۔یارو کچھ خدا کا خوف کرو۔ہمارے اوپر بھلے رحم کرو یا
نہیں لیکن یاد رکھو تم نے بھی کل اﷲ کے سامنے پیش ہونا ہے جو دلوں کے ہاتھ
خوب جانتا ہے۔ |
|