خوف میں ڈوبے شہر
(Muhammad Jawaid Iqbal Siddiqui, Karachi)
یہ ایک شہرِ پُر آشوب ہے، خوف کے ماروں کے
شہر کا، اگر یہ شہر یا ایسا شہر آپ کا بھی ہے تو آگے بڑھیں اور تسلیم کریں
اور اگر نہیں تو اس دن سے ڈریں جب آپ کا شہر بھی کہیں خدا نخواستہ ایسا بن
جائے گا۔اس شہرِ پُر آشوب میں خوف ہی خوف کا وجود ہے، کیونکہ شریفوں کا شہر
ہے اور ہر شریف النفس انسان اس طرح کے خوف سے ضرور ڈرتا ہے ۔ اس خوف کے شہر
میں بہت سی ہیبتناک باتیں ہوتی رہتی ہیں، لیکن ان سے سے زیادہ خوفناک آدھی
رات کی دستک ہوتی ہے۔یہ آدھی رات کی دستک شہر میں بسنے والے شریفوں کے دلوں
میں خوف جگا دیتی ہے۔ خون خشک اور ذہن معاؤف کر دیتی ہے۔ خدا آپ ایسے خوف
سے محفوظ رکھے، لیکن اگر خدانخواستہ آپ خوف کے اس شہر میں رہتے ہیں تو آپ
ان سب سے بچ نہیں سکتے۔ویسے تو میں ایسے شہر کو کوئی نام نہیں دیتا یا شاید
اس کے بہت سے نام ہوں۔ پوری دنیا میں موجود شینکڑوں شہروں میں سے کس کا بھی
نام آپ لیں، جہاں ایسی صورتحال ہو اسے آپ خوف کے شہر کا نام دے سکتے ہیں۔
خوف کے اس شہر میں سردیوں کی خاموش راتوں کو شایدشیطان سوئے ہوئے لوگوں کے
دل نکال کر لے جاتا ہے اور اس کے بعد ایک اندھی نفرت کی آندھی سڑکوں پر راج
کرتی ہے۔ یہ نفرت سمجھ سے بالاتر ہے۔ ایسے لوگ آتشی اسلحوں سے گولی نکلتی
ہے۔ جو انسانی خون چوستی ہے اور انسانی گوشت کو چبا چبا کر ٹھنڈا کر ڈالتی
ہے۔یہ تمام کاروائی ویسے تو دن کے اوقات میں بھی جاری رہتی ہے مگر راتوں
کواس کا ستم زیادہ زور پکڑ لیتا ہے۔ اور پھر یہ کچھ ایسی مکاری کے ساتھ
حکومت کرتی ہے کہ جب آپ ایک دوسرے کی آنکھوں میں دیکھتے ہیں تو آپ کا خون
آپ کو خود یقینا پتلا ہوتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔یہ آپ کے دلوں میں ایک دوسرے
کے خلاف خوف بٹھا دیتی ہے کیونکہ مرنے والا جس بھی گروپ کا ہو دوسرا گروپ
اس کے خوف سے رات جاگنے پر مجبور ہوتا ہے۔
خوف کے اس شہر میں اور عفریت ’’غربت ‘‘ کا ہے ، بے انتہا غربت۔ ایسی زمین
پر محبت اور اتفاق رائے مشکل سے ہی پنپتی ہے جہاں غربت کا راج ہو، جسے
صدیوں کے استحصال نے بنجر کر چھوڑا ہے۔ غلط فہمیاں اس مٹی میں جنگلی پورے
کی طرح اگتی چلی جا رہی ہے۔ اور آہستہ آہستہ بڑھ کر نفرت میں بدل چکی ہے۔
خالص اندھی نفرت۔اسی لئے ایسے شہروں میں جو قتل ہوتے ہیں وہ کوئی باہر والے
آکر نہیں کرتے بلکہ یہیں کے رہنے والے ہو سکتے ہیں۔ یا پھر تفرکہ اور تفریق
پھیلانے والے باہر کے لوگ ۔ ایسی صورتحال ہو چکی ہے کہ بھائی بھائی کے خلاف
لگتا ہے، دوست ‘دوست کے خلاف اور پڑوسی ‘ پڑوسی کے خلاف نظر آتا ہے۔وہ ایسے
ایک دوسرے کے خلاف ہو گئے ہیں کہ محسوس یہ ہوتا ہے کہ شاید وہ ایک دوسرے کے
خون کے پیاسے ہو گئے ہیں۔خوف کے اس شہر میں قاتل کبھی مذہب کا چوغہ پہن
لیتا ہے اور کبھی نسلی لباس اور کبھی وردی پہن رکھی ہوتی ہے۔کبھی کبھار تو
وہ بغیر کسی پردے کے سامنے آ جاتے ہیں ٹھیک اُسی طرح جیسے خوف ننگا ہوتا ہے۔
خوف کے ایسے شہروں میں ایک عنصر تقسیم کا بھی ہے۔ اس شہر میں کئی نسلی اور
مذہبی گروہ موجود ہوتے ہیں لیکن اصل تقسیم ’’ وہ ‘‘ اور ’’ ہم ‘‘ کے بیچ
ہوتی ہے۔وہ اور ہم کی پہچان مختلف جگہوں میں مختلف ہوتی ہے۔ ایک محلے میں
آپ ’’ ہم ‘‘ میں سے ہونگے جبکہ دوسرے محلے میں جاتے ہی ’’ ان ‘‘کے ساتھی بن
جائیں گے حالانکہ آپ وہی مخلص شخص ہیں۔ایک عبادت گاہ میں ’’ ہم ‘‘ میں سے
ایک ہونگے جبکہ دوسری میں آپ ’’ ان ‘‘ میں سے ایک۔ یہ سب اتنا الجھا ہوا ہے
کہ آپ چاہے لاکھ کوشش کریں آپ کئی بار خود کو غلط جگہ پائیں گے۔کچھ ایسے
بھی ہیں جو اس تقسیم کو نہیں مانتے ہونگے۔آج خوف کے اس شہر میں لوگ ایک
دوسرے کے علاقوں میں جاتے ہوئے ڈرتے ہیں اور بہت نے تو جانا ہی ترک کر دیا
ہے۔اس نفرت کے ساتھیوں میں غربت اور شہری سہولیات کی کمی بھی شامل ہے۔ خوف
کے ان شہروں میں لاکھوں رہتے ہیں مگر یہاں ٹرانسپورٹ کی مناسب سہولت موجود
نہیں ہے۔ بسیں کم ہیں اور تکلیف دہ ہیں۔ ٹرینیں اتنی پرانی اور سست ہیں کہ
لوگ ان پر سفر کرتے ہوئے ڈرتے ہیں، اور یہ ٹرینیں گھنٹوں تاخیر کا شکار
رہتی ہیں ، انگریزوں کے دور کی بچھائی ہوئی پٹریاں آج تک چلی آ رہی ہیں اور
ہم اسی پر قناعت کررہے ہیں۔سڑکوں کا حال خراب ہے، بعض جگہ اتنا خراب ہے کہ
ان کی مرمت ممکن نہیں۔ سڑکیں تنگ اور اندھیرے میں ڈوبی ہوئی رہتی ہیں۔ ایسے
شہر میں نکاسی آب کا بھی مناسب انتظام نہیں ہوتا، چنانچہ جب بارش آتی ہے
چاہے وہ کبھی کبھار آئے یا باقاعدگی کے ساتھ پورا شہر پانی میں ڈوب جاتا ہے
اور ہلاکتوں کا پھر سے ہونا معمول ہو جاتا ہے۔ بارش کے بعد گٹر کا ابلنا
اور پھر اس کی صفائی کو خاکروب کا نہ پہنچنا بیماریوں کی جڑ ہو جاتی
ہیں۔شہر می معیشت یہاں کے باسیوں کو ملازمت نہیں دے سکتی اور نہ ہی ان
لوگوں کو جو دوسرے علاقوں سے یہاں ملازمت کی تلاش میں آتے ہیں۔چنانچہ یہاں
کے گلی کوچوں میں تعلیم یافتہ اور غیر تعلیم یافتہ دونوں قسم کے بے
روزگاروں کی بھرمار موجود ہے۔ایسے لوگ اس خوف کے شہر میں چڑچڑے پن کا
مظاہرہ بھی کرتے ہیں۔ وہ ہر اس شخص کے ساتھ مرنے کو تیار رہتے ہیں جو انہیں
موقع فراہم کر دے۔ بوڑھے ، جوان، مرد و عورت، شریف و مکار، فرشتے و شیطان،
یہ سب انہی اندھیری، گنجان مفلس گلی کوچوں میں رہتے ہیں، جو انہیں مفلسی
اور بیماریوں کے سوا کچھ نہیں دیتا۔ ان بیماریوں میں سب سے عام بیماری پیٹ
کی ہوتی ہے جس کی وجہ گندا پانی، ملاوٹی خوراک اور غزائیت کی کمی ہے۔ لیکن
ان سے بھی زیادہ عام بیماری، غیر یقینیت اور ھدحالی سے پھوٹنے والا غصہ اور
رواداری کا نہ ہونا ہوتا ہے۔ان خوف کے شہروں میں پیدا ہونے والے بچے بڑے
ہوکر مایوس بالغ بن جاتے ہیں۔ بالغ ناامیدوار محروم بوڑھوں میں۔ اور بوڑھے
رفتہ رفتہ اس شہر کے اطراف میں منٹ منٹ کھودے جانے والے گڑھوں میں غائب
ہوتے چلے جاتے ہیں اور پھر قبرستان کی آبادی بڑھتی چلی جاتی ہے۔
خوف کے ان شہروں میں سب کچھ ہے ۔ نفرت، بغاوت، خواہشات، بے روزگاری اور نہ
جانے کیا کیا؟ جیسے جیسے لوگ بڑے ہوتے جاتے ہیں ان کے ساتھ ان کی خواہشات
بھی بڑھتی جاتی ہیں، ان خواہشات کو پورا کرنے کے لئے ایک صحت مند آؤٹ لیٹ
کی غیر موجودگی ان کے جسم اور دماغ کو تباہ و برباد کر دیتی ہے۔ ان میں سے
زیادہ تر دیکھنے میں جنم سے بوڑھے لگتے ہیں۔ حتیٰ کے یہاں نو عمر بھی ایک
جان لیوا سنجیدگی خود پر طاری رکھتے ہیں۔ (خدا خیر کرے)ایسے شہروں میں
پرورش پانا آسان کام نہیں ، جب میں جوان تھا تو خود رات کے کسی پہر سڑکوں
پر گھوما کرتا تھا لیکن یہ پہلے کی بات ہے، آج شہر پر پاگل پن کا راج ہے جس
نے کچھ لوگوں کو حیوان بنا دیا ہے جس کی وجہ سے لوگ گھروں میں رہنے کو ہی
ترجیح دیتے ہیں۔اُن دنوں ہم آدھی رات کو سڑکوں پر گھوما کرتے تھے اور صبح
صحیح سلامت گھر واپس آ جاتے تھے۔ ہمیں گولیاں کی گونج کے بجائے اپنے قدموں
کی چاپ سنائی دیتی تھی۔ تب آدھی رات کو دروازوں پر دستک نہیں ہوتی تھی اور
نا ہی خون کے پیاسے حیوان سڑکوں پر گھوما کرتے تھے۔تو آپ میں سے وہ لوگ جو
غریب مگر پُر امن شہروں میں پلے بڑھے ہوں انہیں اچھی طرح معلوم ہوگا کہ
آدھی رات کے بعد اندھیری سنسان سڑکوں پر اپنے قدموں کی بازگشت سننے میں
کیسا محسوس ہوتا تھا۔ مجھے وہ گونج ہی اچھی لگتی تھی ، مجھے ان چاپوں کو
سننا اچھا لگتا تھا، مجھے اُس وقت سڑکوں پر گھومنا اچھا لگتا تھا مگر شاید
آج کے ان حالات میں کسی کو یہ سب اچھا نہیں لگتا ہوگا۔کتے بھوک اور تھکن سے
اتنے نڈھال ہوتے تھے کہ ان کی بھونکنے کی کوشش میں نکلنے والی نحیف سی آواز
سے کسی کو کوئی خطرہ محسوس نہیں ہوتا تھا۔ حتیٰ کے مجھ جیسے کمزور شخص کو
بھی نہیں۔رات کے سناٹے میں مجھے دور کسی ٹرین کی آواز یا کسی بس کے چلنے کی
آواز سننا اچھا لگتا تھا، یہ آوازیں دن کی شور شرابے میں دب کر رہ جاتی
تھیں۔مجھے دور کہیں اپنے بوجھ کے نیچے کراہتے ٹرکوں کے تھکے ماندے انجنوں
کی آواز کا سننا بھی اچھا لگتا تھا۔ ایسا لگتا تھا جیسے وہ رات دیر تلک کام
کرنے پر احتجاج کر رہے ہوں۔ سچ تو یہ ہے کہ اگر میں ان گاڑیوں کو محض مشین
کہوں تو ان کے مالکان بُرا ضرور منائیں گے کیونکہ ان کے نزدیک یہ بھی
جاندار ہوتے ہیں جن کا اپنا روح اور جسم ہے۔ وہ انہیں پلاسٹک کے پھولوں ،
رنگین لائٹوں اور رنگین جھنڈیوں کے علاوہ مذہبی علامتوں سے بھی سجاتے ہیں۔
جب میں زنگ آلود پرانی پٹریوں پر رینگتی ہوئی ٹرین کی چھک چھک سنتا تھا تو
میں اپنے دماغ کے پردے پر ان تھکے ماندے مسافروں کو دیکھ سکتا تھا جو پرانے
گندے کمپارٹمنٹ میں پڑے لگڑی کے تختوں پر سوانے کی کوشش کر رہے ہوتے جن سے
ان کی ہڈی پسلی ایک ہو جاتی ہوگی۔
آج نجانے وہ تمام خوشی کی ساعتیں ، پُر رونق بازاریں، پُر باش لوگ ، کہاں
گھو گئے ہیں۔ آج تو یہ حال ہے کہ ہر کوئی اپنے آپ کو گھر کی چار دیواری میں
قید رکھنے کی کوشش کرتا ہے کہ پتہ نہیں کب ، کہاں کیا ہو جائے۔ آج محبتیں
ناپید ہو چکی ہیں، بھائی چارگی کا فقدان پایا جاتا ہے، پڑوسی ‘ پڑوسی کا
خیال نہیں رکھتا، دوست ‘ دوست کا نہیں ہے، غرض کہ ہر طرف نفرت کا راج ہے۔
اور اسی لئے میں نے ایسے شہروں میں سے کسی کا نام منتخب نہیں کیا، بلکہ
جہاں جہاں یہ حالات ہیں وہ لوگ خود ہی سمجھ جائیں گے کہ اس کا ذکر کہاں سے
جڑتا ہے۔ خداشہرِ خوف کے تمام باسیوں کو اپنے حفظ و امان میں رکھے۔ (آمین) |
|