مظفر گڑھ پاور پلانٹ اور راشی ذمہ دار

چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے کہا ہے مظفر گڑھ اور گڈو بیراج پلانٹس کی بھی نجکاری جاری ہے۔ نجکاری سے بجلی مزید مہنگی ہوگی۔ یہ بات انہوں نے بجلی کی قیمتوں سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران اپنے ریمارکس دیتے ہوئے کہی۔ ان کی اس بات پر وزارت پانی و بجلی حکام نے عدالت میں بیان دیا کہ مظفر گڑھ پاور پلانٹ لگانے کے وقت کارکردگی 36 فیصد تھی اب کارکردگی 31 فیصد تک رہ گئی ہے۔ مظفر گڑھ کی پیداواری صلاحیت 1150 میگاواٹ تھی اب 750 میگاواٹ ہے۔ بعد ازاں عدالتی استفسار پر بتایا گیا کہ مظفر گڑھ پاور پلانٹ 4 سو میگا واٹ صلاحیت سے کم بجلی پیدا کر رہا ہے۔ مظفر گڑھ پلانٹ 11 سو میں سے 7 سو میگاواٹ بجلی پیدا کر رہا ہے۔

ایک اور بات پر چیف جسٹس نے کہا جہاں چوری زیادہ ہوتی ہے، وہاں سبسڈی زیادہ دی جاتی ہے یہ کوئی سیاسی معاملہ لگتا ہے۔ جس پر اٹارنی جنرل منیر اے ملک نے کہا ٹیرف کے تعین کا تعلق چوری سے نہیں، سرکلرڈیٹ سے ہے۔

سپریم کو رٹ میں بجلی کے نرخوں اور لوڈ شیڈنگ کے حوالے سے سماعت کا سلسلہ شروع ہوہے۔ جس میں بجلی کے حوالے سے کافی اہم بحث چل رہی ہے۔ شاید ملکی سطح پر بجلی کا بحران ایک الگ بحث کی شکل اختیار کرچکا ہے۔ بجلی کی پیدوار اور اس کا استعمال نہ صرف حکومت کے لئے مستقل مسئلہ کی صورت اختیار کرچکا ہے بلکہ عوامی سطح پر بھی بہت سے مسائل نے جنم لیا ہے۔عوام کو بجلی کی سہولت نہیں ملی تو ان کی انڈسٹریاں بند ہوگئیں، انڈسٹریاں بند ہوئیں تو ہزاروں کی تعداد میں مزدور روڈ پر آگئے۔اور پھر ایک احتجاج کا الگ سلسلہ شروع ہوگیا۔ جس نے بچے کھچے معاملات کا بیڑا غرق کردیا۔

ایک لطیفہ بہت مشہور ہے۔ کہ ایک گھروالے کی بجلی چلی گئی تو اس نے کسی کو فون کر کے پوچھا کہ کیا آپ کی طرف بجلی آرہی ہے، جب آگے سے جواب نفی میں ملا تو اس نے خوش ہوتے ہوئے کہا، ’’غم اس بات کا نہیں کہ میری بجلی نہیں ہے، بلکہ خوشی اس بات کی ہے کسی کی بھی نہیں ہے‘‘ ۔

یہ اس لطیفے کے مترادف آج کی صورتحال بن چکی ہے۔ بجلی پاور پلانٹ سے نہیں آتی لڑائی جھگڑے محلوں، بستیوں اور شہروں کی سطح پر نظر آتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ بجلی کا مسئلہ شاید پاکستان میں دہشت گردی کے مسئلے سے بھی بڑا مسئلہ ہے۔ خود بجلی پر سیاست کرنے والے آج کیے گئے وعدوں کی پاسداری کے لئے پریشان نظر آتے ہیں۔

غیر ملکی سطح پر بات کرنے کی بجائے صرف ایک ضلع پر بات کی جائے تو شاید وسیع ترین موضوع کو کچھ سمیٹنے میں آسانی آجائے۔ جنوبی پنجاب کے علاقے ضلع مظفر گڑھ کی اہمیت بجلی کے حوالے سے پاور پلانٹ کی بدولت کچھ زیادہ ہے۔ مگر اس اہمیت کا شہریوں اور اہل علاقہ کو شاید کچھ خاص فائدہ حاصل نہیں ہورہا۔ بجلی تو ان کو ملتی ہے مگر بجلی کی مد میں دیگر چیزیں بھی ساتھ میں ملتی ہیں۔ مظفرگڑھ کا علاقہ مالی طور اتنا مستحکم نہیں ہے۔ یہاں پر زیادہ تر افراد کا تعلق ذراعت سے ہے۔ یہ لوگ اپنے گھر کے اخراجات چھ ماہ کے حساب سے کرتے ہیں۔ ایک فصل سے دوسری فصل تک ان کا بجٹ محدود ہوتا ہے جو کہ اگلے چھ مہینے سے پہلے ہی ختم ہونے لگتا ہے۔ ماہانہ آمدنی تو نہیں ہے مگر ماہانہ بلنگ ان کے لئے ایک مسئلہ ضرور ہے۔ ہر ماہ بجلی کے بل کی آدائیگی کرنا ان کے لئے کافی مشکل ثابت ہوتا ہے۔

اس ساری بحث کا مقصد صرف اتنا تھا کہ گزشتہ کئی روز سے سپریم کورٹ میں بجلی کے نرخوں اور لوڈشیڈنگ کے حوالے جاری سماعت میں ایک موضوع یہ بھی زیر بحث آیا تھا کہ بجلی کی چوری ․․․․․․․․․ یہ موضوع بھی قابل بحث ہے اور یہاں اسی موضوع پر بات کی جاری ہے۔

بجلی کی چوری کے حوالے سے مظفرگڑھ میں واپڈا کی جانب سے کافی سخت اقدامات کیے گئے ہیں۔ جس کی وجہ سے اس تصور میں کافی حد تک کمی آئی ہے۔ وہاں پر بجلی چوری ہوتی ضرور ہے مگر نچلی سطح پر نہیں ہوتی البتہ اعلیٰ سطح پر واپڈا افسران کی ملتی بھگت سے تو بہت کچھ ہورہا ہے اور اعلیٰ افسران کی ملی بھگت سے جو کچھ ہوتا ہے اس پر کوئی ہاتھ بھی نہیں ڈال سکتا۔ تاہم اس بجلی چوری کی بلنگ کرنی پڑتی ہے اسی غریب کسان کو جو اپنے میٹر کی نہ چلائی ہوئی بجلی کے بل کی ادائیگی کے لئے پریشان ہوتا ہے۔ مہنگی بجلی ، ماہانہ آمدن نہ ہونے اور اوپر سے لوگوں کی چوری کی گئی بجلی کی ادائیگی بھی کرنا شاید اتنا کچھ بھلا کون ادا کرتے ہیں۔

چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے بھی دوران سماعت ان جملوں کا تبادلہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ بجلی کے معاملے میں ’’ جہاں چوری زیادہ ہوتی ہے، وہاں سبسڈی زیادہ دی جاتی ہے ‘‘ یہ جملے ایسے ہیں جن پر حقیقت کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔

ٓجنوبی پنجاب کی تحصیل جتوئی کے باسی بھی کچھ ایسے حالات سے دوچار ہے۔ وہاں پر کچھ راشی اور سیاسی پناہ میں بیٹھے افسران اپنی من مانیاں کرتے ہوئے جس کا چاہیں میٹر کاٹ دیں اور جس پر چاہیے اضافی بلنگ ڈال دیں۔ میڈیا کی نظروں سے دور ایک ایسے علاقے میں ان کی اجارداری پر کوئی آواز اٹھانے کی بات کرے تو اسے دھمکی دی جاتی ہے کہ ان کا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ وہ جو مرضی چاہیے کر سکتے ہیں۔ یہ الفاظ ایک وہاں کے ایک شہری نے مجھے بتائے۔ اس کا میٹر اس بنیاد پر کاٹ دیا گیا اس نے بجلی چوری کی ہے۔ حالانکہ ان شریف النفس بندے کو میں اچھی طرح جانتا ہوں کہ وہ ایسا کبھی نہیں کرسکتا۔ مگر واپڈا کے عتاب کا شکار ہے۔ چھوٹے بچے گھر میں کوئی خاص کمائی کا ذریعہ نہیں اوپر سے یہ عذاب کہ راشی افسران اس پر جرمانے کی مد میں پیسوں کا مطالبہ کررہے ہیں ۔

شہری کا کہنا تھا کہ ریڈنگ آپریٹر محمد امین نامی نے شخص وہاں پر کبھی نہیں آئے اور اپنے گھر بیٹھ کر ریڈنگ لگادیتے ہیں اور اپنی مرضی سے لوگوں کو ریڈنگ کرتے ہیں۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ جب بھی کوئی ان کو پیسے دے وہ اس کا فوری کام کردیتے ہیں ،جبکہ رشوت لینے کے چکر میں خواہ مخواہ میں لوگوں کے میٹر کاٹ لیتے ہیں اور بعد میں سے پیسے لے کر انہیں میٹر واپس کیا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جتوئی کے ایس ڈی سی خادم حسین نے انہیں ایک امید پر رکھا اور بعد میں ہری جھنڈی دیکھا دی۔

اس حوالے سے جب جتوئی کے ایس ڈی او مہر مسعود سے میری بات ہوئی تو انہوں نے اس معاملے سے لاتعلقی کا اظہار کیا اور دھمکی آمیز لہجے میں کہا کہ ہم جو کچھ کر رہے ہیں کرتے رہیں گے، میڈیا بھی ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ میرے بار بار اسرار پر انہوں نے ایک اور افسر کا نمبر دیا جس کا نام شیخ فہیم تھا۔ جب ان سے بات کی تو انہوں نے بھی الزام عائد کیا اور کہا کہ معاملے کو حل کرلیا جائے گا تاہم میڈیا پر بات کو پھیلانے سے انکار کیا گیا۔

میں آج سوچتا ہوں کہ ایک طرف گورنمنٹ بجلی کے معاملے پر اس قدر سنجیدہ ہے کہ صبح و شام اس حوالے سے پروجیکٹ پر کام کیا جارہا ہے۔
Arif Jatoi
About the Author: Arif Jatoi Read More Articles by Arif Jatoi: 81 Articles with 69750 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.