جنگِ بدر مین اپنے سے کئی گنا زیادہ فوجی طاقت کو
مسلمانوں نے جب شکست دی تو جنگی قیدیوں کو دو دو٬ چار چار کی تعداد میں صحابہ کو
تقسیم کردیئے گئے(کیونکہ باقاعدہ جیلوں کا انتظام اس وقت نہ تھا)٬ اور ارشادِ نبوی
صلی اﷲ علیہ وسلم ہوا کہ ان جنگی قیدیوں کو آرام سے رکھا جائے- انتہائی غربت کے
باوجود صحابہ کرام نے اُن قیدیوں کے ساتھ ایسا زبردست حسنِ سلوک کیا کہ ان اسیران
کو تو کھانا کھلاتے اور خود صرف کجھوریں کھا کر گزارا کرلیتے-ان قیدیوں میں حضرت
معصب بن عمیر کے بھائی ابو عزیز بھی تھے- ان کا بیان ہے کہ مجھے جس انصاری صحابی نے
اپنے گھر میں قید رکھا٬ وہ جب صبح یا شام کو کھانا لاتے تو روٹی میرے سامنے رکھ
دیتے اور خود کجھوریں اٹھا لیتے مجھے شرم آتی اور میں روٹی ان کے ہاتھ میں دے دیتا
٬ لیکن وہ ہاتھ بھی نہ لگاتے اور مجھے واپس کردیتے اور یہ اس بنا پر تھا کہ آنحضرت
صلیٰ اﷲ علیہ وسلم نے تاکید کی تھی کہ قیدیوں کے ساتھ اچھا سلوک کیا جائے
یہ تصویر تو اُس حسنِ سلوک کی ہے جو آج سے چودہ سو سال پہلے مسلمانوں کو محسنِ
انسانیت حضرت محمد صلیٰ اﷲ علی وسلم نے سکھائی- آج کی جدید ترین اور انتہائی تہذیب
یافتہ کہلانے والی قوم کیا تصویر پیش کر رہی ہے وہ
آج کی
جنگی قیدیوں کے ساتھ پیش آنے والے انسانیت سوز حسنِ
سلوک کی دیکھی جاسکتی ہے-
جب میں ان دو مختلف ادوار کے قیدیوں کے ساتھ ہونے والے سلوک کو اُن کی اپنی زبان
میں تحریر کردہ تجربہ کے ساتھ پڑھتا ہوں تو یہ سوال ابھرتا ہے کہ حقیقی معاشرتی و
انسانی ترقی کا درس وہ ہے جو آج کی تہذیب یافتہ کہلانے والی اقوام ہمیں سمجھا رہی
ہیں یا وہ جو آج سے چودہ سو سال پہلے محسنِ انسانیت حضرت محمد صلیٰ اﷲ علیہ وسلم نے
تمام انسانیت کو پیغامِ احترام انسانیت بتلا اور سکھا دیا-یہ اغیار کی نہیں
مسلمانوں کی اپنی ذمہ داری ہے کہ وہ اسلام کا ترقی پسند اور معراجِ انسانیت پر مبنی
نظامِ زندگی اور تعلیم دنیا کو بتائیں کہ حقیقی جمہوریت٬ عدل٬ مساوات٬ اخلاقیات٬
معاشرت و معاشیات کا اسلام کیا درس دیتا ہے
|