اسلام نے شروع ہی سے علم حاصل کرنے پر زور دیا ہے۔کیوں کہ
علم ہی انسان کو زندگی کے مقصد سے آگاہ کرتا ہے اور نیکی و بدی کی تمیز
سکھاتا ہے اور حیوانوں سے ممتاز بناتا ہے۔اس کی اہمیت کا اندازہ ہم اس بات
سے لگا سکتے ہیں کہ اللہ تعالی نے قرآن کریم کی پہلی آیت جو نبی کریمﷺ پر
نازل کی ،اس کی شروعات علم سے ہوتی ہے:
”پڑھو(اے نبی )اپنے رب کے نام کے ساتھ جس نے پیدا کیا،جمے ہوئے خون کے ایک
لوتھڑے سے انسان کی تخلیق کی۔پڑھو،اور تمہارا رب بڑا کریم ہے جس نے قلم کے
ذریعہ سے علم سکھایا،انسان کو وہ علم دیا جسے وہ نہ جانتا تھا“(العلق:۱،۵)
مختلف احادیث میں بھی علم حاصل کرنے اور اس کو پھیلانے کی تاکید کی گئی
ہے۔حضرت انسؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: علم حاصل کرنا ہر
مسلمان مر داور عورت پر فرض ہے(ابن ماجہ:۴۲۲)
اتنی تاکید کے باوجود بھی مسلم قوم نے علم حاصل کرنے کو برسہا برس سے جتنا
نظر اندازکیا ہے اتنا کسی قوم نے نہیں کیا ۔ پہلے تو علم کو دینی اور دنیوی
علوم میں تقسیم کیا گیا اور پھر دونوں ہی میں پیچھے ہوتے چلے گئے۔ایسا نہیں
ہے کہ مسلمان دینی علوم میں غیر معمولی طور پر مشغول ہیں اس وجہ سے دنیوی
علوم پر توجہ نہیں دے پا رہے ہیں،بلکہ جب سے دنیوی علوم کی طرف سے غفلت
برتی گئی ہے تبھی سے دینی علوم میں زوال آیا ہے۔اسی وجہ سے مسلمان نہ صرف
پسماندگی کا شکار ہے بلکہ غیروں پر مکمل طور سے منحصر ہو چکے ہیں اور
تعلیمی میدان میں دوسروں کے نظرِ کرم کے محتاج ہیں ۔ کبھی ریزرویشن کا
مطالبہ کرتے ہیں تو کبھی عصبیت کو الزام دیتے ہیں۔
سچر کمیٹی کی رپورٹ کے مطابق مسلمانوں کے 4% لڑکے لڑکیاں مدرسہ میں، سرکاری
اسکولوں میں66% ،پرائیوٹ اسکولوں میں 30%تعلیم حاصل کرتے ہیں اور 6-14سال
کی عمر کے 25% لڑکے لڑکیاں یا تو اسکول ہی نہیں گئے یا بیچ ہی میں تعلیم کو
خیرآباد کہہ دیا ہے۔مجموعی طور سے مردوں کی شرح خواندگی 66%اور عورتوں کی
50% ہے ۔
اس رپورٹ سے ثابت ہوتا ہے کہ ہم لوگ تعلیمِ نسواں کی طرف سے غافل ہیںجب کہ
لڑکیوں کی تعلیم اس وجہ سے زیادہ ضروری ہے کہ ان کی گود میں نئی نسل پروان
چڑھتی ہے اور اگر مائیں ہی تعلیم و تربیت سے محروم ہوں گی تو وہ اپنے بچوں
کی صحیح تربیت کس طرح سے کر سکیں گی؟اسی لیے کہا جاتا ہے کہ اگر ایک مرد کو
تعلیم دی تو ایک فرد کو تعلیم دی لیکن اگر ایک عورت کو تعلیم دی تو ایک
پورے خاندان کو تعلیم دی۔ہمارے معاشرے میں لڑکیوں میں تعلیمی بیداری آئی ہے
لیکن مخلوط تعلیمی نظام نے اعلیٰ انسانی و سماجی اقدار کا نمونہ بنانے کے
بجائے مجموعی طور پر لڑکیوں کو فیشن پرست اور نمود و نمائش کا شوقین بنا
دیا ہے۔
مخلوط تعلیمی نظام ہر مسلم خاندان کا مسئلہ ہے لیکن عجیب بات ہے کہ
مسلمانوں کی اکثریت نے اس کو مکمل طور سے اپنا لیا ہے اور نہ تو اس کے خلاف
آواز اٹھاتے ہیں اور نہ کوئی عملی اقدام کرتے ہیں ۔ غالباً اس بات کے منتظر
ہیں کہ خود مغرب عاجز آکر مخلوط تعلیمی نظام کو ترک کر ے توپھر اس کی اتباع
میں ہم بھی اس کو ترک کر دیں ۔
بر صغیر میں انگریزوں نے اپنی حکومت کو مستحکم کرنے کے لیے جو نظام تعلیم
نافذ کیا تھا وہ مکمل طور سے مغربی تہذیب کا آئینہ تھا اور اس کا خاص مقصد
مسلمانوں کی نئی نسل کو مغربی تہذیب و تمدن کا نمونہ بنانا تھا اور وہ اس
میں بہت حد تک کامیاب بھی رہے۔ہماری اکثریت ان کی اندھی تقلید کر رہی ہے
جیسے انگریز تو خیر مادری لہجے میں انگریزی بولنے پر مجبور ہیں لیکن
جاپانی،جرمن،اطالوی اور چینی اپنے فطری لہجے کو انگلستانی سانچے میں ڈھالنے
کی کوشش نہیں کرتے ۔غلامی کے دور نے یہ احساسِ کمتری کی وراثت صرف ہمیں عطا
کی ہے لہذا انگریزوں کے لہجے میں انگریزی بولنا ہمارے یہاں آدھی دنیا فتح
کرنے کے مشابہ سمجھا جاتا ہے۔یہ تو چاول کا ایک نمونہ ہے ورنہ زندگی کے
مختلف میدانوں میں ایسی بہت سی مثالیں ہیں۔
ایک مدت سے ہمارے یہاں مخلوط تعلیمی نظام رائج ہے لیکن اس کے مضر پہلو سے
اکثریت غافل ہے اور اس کو ناپسند کرنے والوں کو” قدامت پسند،دقیانوسی،رجعت
پسند اور ملا“ کاخطاب دیا جاتا ہے۔
خرد کا نام جنوں رکھ لیا،جنوں کا خرد
جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے
روس نے انقلاب کے بعد بیس سال تک مخلوط تعلیمی نظام کا تجربہ کرنے کے بعد
یکسر اس کو مسترد کر دیا۔اسرائیل نے بعض درجے پر اس کو ترک کیا ہوا ہے اور
مغربی ممالک میں بھی اچھی یونیورسٹیوں ،کالجوں اور اسکولوں میں مخلوط
تعلیمی نظام نہیں ہے تو کیا یہ لوگ بھی تنگ نظر ’ملا‘ہیں؟؟
ترقی یافتہ ممالک میں بھی کئی ایسے ممالک ہیں جنہوں نے مخلوط تعلیمی نظام
کو ہر منزل پر رائج نہیں کیا ہے،خاص کر ثانوی کلاسوں میںکیوں کہ اس وقت
طلبہ وطالبات اپنی نشونما میں نفسیاتی لحاظ سے ایسے مرحلے میں ہوتے ہیں
جہاں ذہنی و جذباتی پختگی کے بجائے ہیجانی کیفیت کا غلبہ ہوتا ہے ۔ابتدائی
تعلیم میں بچے بچیاں اس سے لا علم ہوتے ہیں مگر اب تو ٹی وی،انٹرنیٹ اور
موبائل نے ان کا بھی بیڑا غرق کر دیا ہے۔
مخلوط تعلیم کی تعریف: انسائیکلوپیڈیا آف برٹینیکا میں اس کی تعریف کچھ یوں
ہے:
”ایک ہی مضمون کی تعلیم ،ایک ہی وقت میں ،ایک ہی جگہ پر ،ایک ہی نظام کے
تحت“
اس کا بنیادی تصور یہ ہے کہ مرد عورتیں ایک ساتھ تعلیم حاصل کریں ،کسی کی
فوقیت اور کسی کی کم تری کا سوال نہ ہو،مکمل طور سے مساوات ہو،اساتذہ اور
منتظمین کی جانب سے کوئی خصوصی رعایت نہ ہو،نہ ہی علیحدہ کلاس،نشست،کامن
روم،ہاسٹل وغیرہ ہوں اور نہ ہی ساتھ کھیلنے کودنے بیٹھنے پر کوئی پابندی
ہو۔
ہمارے یہاں جو مخلوط تعلیم کا نظام رائج ہے وہ اس کی ایک ادنیٰ سی شکل ہے
اور یہ اس لیے کہ بہرحال ابھی ہم لوگ اس’بلندی‘ تک نہیں پہنچ سکے ہیں جہاں
مغرب ہمیں دیکھنا چاہتا ہے کیوں کہ ہم میں مذہبی روایات و اقدار ابھی باقی
ہیں،جس کو یہودی ختم کرنا چاہتے ہیں۔ ان کے پروٹوکول میں صاف لکھا ہو ا ہے
کہ مسلمانوں کے خاندانی نظام کو ختم کیا جائے اور ان کی عورتوںکو گھروں سے
نکالا جائے ۔مخلوط تعلیمی نظام کو بڑھاوا دینا بھی اسی کا حصہ ہے۔
مخلوط تعلیم کی تاریخ:اگر اس کی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو ہمیں معلوم ہو
گا کہ اس کا آغاز اٹھارہویں صدی کے آخر میں ہوا۔ اس سے پہلے کسی قوم میں یہ
بیماری نہیں تھی۔یونانی جو کہ بہت ’ترقی یافتہ‘ تھے لیکن ان کے یہاں بھی اس
کا کوئی تصور نہ تھا۔اہلِ روم آزادیِ نسواں کے زبردست علمبردار تھے مگر ان
کو بھی مخلوط تعلیمی نظام کی نہ سوجھی۔چین کی تاریخ میں بھی اس کی مثال
نہیں ملتی ہے۔
مخلوط تعلیم کا آغاز:اٹھارہویں صدی کے آخر میں مغربی معاشرے میں صنعتی
انقلاب آیاتو اس سے متاثر ہو کر عورت بھی معاشی میدان میں اتر آئی لیکن اس
میں اپنا مقام بنانے کے لیے ضروری تھا کہ وہ بھی مردوں کی طرح وہی تعلیم
حاصل کرے۔حقیقت میں یہ سرمایہ داروں کی ایک پرفریب چال تھی جس کا عورت شکار
ہوئی ۔سرمایہ دار یہی چاہتے بھی تھے ع ©!
مکر کی چالوں سے بازی لے گیا سرمایہ دار
اس نظام کو رواج دینے میںایک اہم کردار وسائل کی کمی نے ادا کیا۔تعلیم کا
رجحان بڑھتا جا رہا تھا اور حکومت کے لیے الگ الگ اسکول کھولنے کے بجائے
ایک ہی اسکول دونوں کے قائم کرنا زیادہ آسان تھا۔پھر جب نئی تہذیب اس کی
دلدادہ ہو تو حکومت کو کیا پڑی ہے کہ معاشرے کے چند ’دقیانوسی لوگوں‘ کی
آواز پر کان دھرے اور لڑکیوں کے لیے علاحدہ اسکول کھولے؟
مخلوط تعلیمی نظام کے حامیوں کی پہلی دلیل یہ ہوتی ہے کہ زمانہ بہت ترقی کر
چکا ہے اور ممکن نہیں کہ عورتوں کو ترقی کی دوڑ سے علیحدہ کر دیا جائے۔جو
قومیں ترقی کر رہی ہیں وہاں مرد اور عورت شانہ بشانہ کام کر رہے ہیں ۔ہم
اپنی نصف آبادی کو گھروں میں قید کر کے’ ترقی‘ کی راہ میں رکاوٹ کھڑی کر
رہے ہیں۔اب وہ زمانہ گیا کہ عورتیں محض بچے پیدا کریں اور گھروں میں قید
رہیںبلکہ انہیں معاشرے کی ترقی میں بھرپور حصہ لینا ہے۔ساتھ ہی ساتھ
جمہوریت نے بھی مساوات مرد وزن کا نعرہ بلند کیا کہ عورت کا بنیادی حق ہے
کہ انہیں مردوں کی طرح تعلیم میں بھی یکساں مواقع ملیں تا کہ وہ ہر میدان
میں اپنے کو مردوںکے برابر ثابت کر سکیںاور اس کے لیے مخلوط تعلیم کا ہونا
ضروری ہے۔
لیکن مخلوط تعلیم کے پیچھے مساوات مردوزن کا یہ نظریہ بالکل بے بنیاد اور
بکواس ہے۔مساوات کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ صلاحیتوں اور ذمہ داریوں سے قطعِ
نظر سب کو برابر اور ہر طرح سے مساوی قرار دیا جائے۔ایک جھاڑو لگانے والے
اور ایک پروفیسر کی تنخواہ برابر نہیں ہو سکتی باوجود اس کے کہ دونوں ہی
انسان ہیں ۔مساوات کا حقیقی مفہوم یہ ہے کہ سب کو اپنی اپنی صلاحیت کے
مطابق کوشش کرنے اور معاشرے میں اپنا مقام بنانے کے لیے برابری کے مواقع
حاصل ہوں او ر ہر ایک کو وہ مقام ملے جس کا وہ مستحق ہے۔اس کے علاوہ مرد
اور عورت انسان ہونے میںتو مشترک ہیں مگر جسمانی ساخت،مزاج،نفسیات اور
فرائض و ذمہ داریوں کے لحاظ سے ایک دوسرے سے مختلف ہیں تو آخر کس طرح دونوں
ایک جیسی تعلیم کے مستحق ہو سکتے ہیں؟
ان کی دوسری دلیل یہ ہوتی ہے کہ تعلیم صرف مختلف کتابوں کو پڑھ کرامتحان
پاس کر لینے ہی کا نام نہیں ہے بلکہ افراد کے کردار کی نشونما اور زندگی کے
مسائل کو حل کرنے کے لیے تجربات حاصل کرنے کا نام ہے ۔اس لیے تعلیمی اداروں
میں ’ گھر جیسا‘ یا ’بھائی بہن ‘ کی طرح کا ماحول ضروری ہے جو مخلوط تعلیم
ہی فراہم کرتی ہے۔پستالوزی کے مطابق تعلیم زندگی کی تیاری ہے اس لیے اس کا
ماحول زیادہ سے زیادہ قدرتی اور گھریلو ہونا چاہیے اور لڑکے لڑکیوں کو
علاحدہ رکھنا ان کو چوری چھپے ملنے اور گمراہی کی طرف لے جانے کا ذریعہ
ہوتا ہے۔
لیکن یہ بھی ایک عجیب وغریب نظریہ ہے۔پہلے تو عورتوں کو گھر سے نکال باہر
کر کے گھر کا ماحول ختم کرو اور پھر یہ امید رکھو کہ یونیورسٹیوں،کالجوں
اور اسکولوں میں گھر کا ماحول فراہم ہوگا۔گھر میں والدین ،بھائی بہن اور
دیگر رشتے داروں میں حرمت اور پاکیزگی کے رشتے ہوتے ہیں جب کہ اسکولوں میں
ایسا نہیں ہوتا ہے ۔عمر کے ساتھ ساتھ جنسی امتیازات،جذبات اور مختلف طبعی و
نفسیاتی ردعمل پیدا ہوتے ہیں ۔ جس کے نتیجے میں وہاں گھر کا ماحول پیدا ہو
ہی نہیں سکتا ہے۔
دوسری بات یہ کہ عورتوں کو مردوں کی طرح پڑھانے اور تعلیم یافتہ بنانے کا
لازمی تقاضا یہ ہے کہ ان سے بھی مردوں کی طرح ملازمت کرائی جا ئے تاکہ فی
الواقع وہ ترقی ہو سکے جس کا نعرہ بلند کیا جاتا ہے۔اگر ایسا نہیں کیا تو
پھر مخلوط تعلیم کا مقصد ہی فوت ہو گیا ۔لیکن اس صورت میں گھر کا پورا نظام
بگڑ جائے گا اور ایسا ہو بھی رہا ہے اور جو بچے ماں کے بجائے نوکرانی اور
آیا کی گود میں پرورش پائیں گے وہ کس طرح کے ہوں گے اس کا اندازہ بخوبی
لگایا جا سکتا ہے۔افلاطون نے مخلوط تعلیم کی حمایت کی تھی مگر اس نے ایسی
سوسائیٹی کا نقشہ پیش کیا تھا جس میں خاندانی نظام کا سرے سے کوئی وجود ہی
نہ تھا۔
ان کی تیسری دلیل یہ ہوتی ہے کہ ہمارا ملک غریب ہے اور ہم تعلیم پر بہت
زیادہ خرچ نہیں کر سکتے۔مخلوط تعلیم میں یہ فائدہ ہوتا ہے کہ دونوں کے لیے
ایک ہی اسکول کھولنا کافی ہوتاہے۔لیکن سوال یہ ہے کہ عورتوں کی تعداد مردوں
سے کم نہیں ہے اور سب ان کی تعلیمی ضرورت کے قائل ہیں تو کیوں وسائل کی کمی
کا رونا روتے ہیں؟جب مرد عورت کو مساوی قرار دی جارہا ہے تو عورتوں کی
تعلیم پر روپیے خرچ کرنے میں کیوں پریشانی ہو رہی ہے؟آخر لڑکیوں کا کیا
گناہ ہے کہ ان کی تعلیم کو کفایت کے نام پر قربان کر دیا جائے اور ایک ایسے
ماحول میں ان کو تعلیم دی جائے جہاں ان کی اپنی شخصیت ختم ہو جاتی ہے۔یہ
بھی حقیقت ہے کہ بہت ساری لڑکیوں کا تعلیمی سلسلہ اس لیے منقطع ہو گیا کہ
ان کو مخلوط تعلیمی نظام میں نہیں پڑھنا تھا۔
سب سے اہم اور آخری دلیل مخلوط تعلیمی نظام کے چاہنے والوں کی ،جس کو کہنے
سے وہ اجتناب کرتے ہیں وہ یہ ہے کہ اس کی وجہ سے تعلیمی اداروں میں
’ہریالی‘رہتی ہے اور تقریبات بھی’ رنگین‘ رہتی ہیں۔اساتذہ اور طلبہ کا
پڑھنے پڑھانے میں دل لگتا ہے ۔واقعی اگر اس کو ختم کر دیں تو ان تعلیم
گاہوں میں رہ ہی کیا جائے گا؟؟ع
وجودِ زن سے ہے کالج کی کائنات میں رنگ
مخلوط تعلیمی نظام میں خواہشاتِ نفس کی تسکین ،آنکھیں سینکنا،ملاقات کے
مواقع،پیار کی کہانیاں اور شادی کے عہد و پیمان اہم ترین حصہ ہیں۔غور کیا
جائے تو اس کو رواج دینے میں یہی سب سے اہم دلیل ہے۔
مخلوط تعلیمی نظام کے نقصانات:اخلاقی طور پراس نظام کے مضر اثرات نمایاں
طور پر لڑکے لڑکیوں پر پڑ رہے ہیں۔ابھی معاملہ زیادہ نہیں بگڑا ہے کیوں کہ
ہمارے درمیان ہمارے بزرگ موجود ہیں جنہوں نے ہمیں دینی اقدار سے جوڑے رکھا
ہے لیکن جب یہ موجودہ نسل بزرگ ہو جائے گی اوران کی اولاداس تعلیمی نظام
میں جائے گی تو اس وقت جو اخلاقی بگاڑ اور جنسی انارکی کا طوفان آئے گا اس
کا ہم ابھی اندازہ نہیں لگا سکتے۔یہ نظامِ تعلیم معاشرے میں بگاڑ پیدا کرنے
کا سب سے مسحور کن ہتھیار ہے۔اس کے نقصانات درج ذیل ہیں۔
(۱) جنسی کشمکش:لڑکے لڑکیوں میں جسمانی اور ذہنی فرق روزِ روشن کی طرح واضح
ہے۔اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اللہ تعالی نے دونوں کو مختلف مشاغل کے لیے
پیدا کیا ہے اور مختلف انداز میں خدمات لینا چاہا ہے۔اب اگردونوں چھ سے آٹھ
گھنٹے اکٹھا بیٹھے رہیں تو اس کا مطلب صاف ہے کہ ان کو جنسی اشتعال دلایا
جا رہا ہے۔جس سے نفسیاتی انحراف ،جنسی اضطراب اور بے راہ روی پیدا ہوتی ہے
اور لڑکے کا لڑکی بننا،لڑکی کا لڑکا بننے کا جذبہ پیدا ہوتا ہے ۔
(۲) خاندانی نظام کا خاتمہ:تعلیم کے دوران لڑکے لڑکیوں کے تعلقات میں سارا
معاملہ وقتی لذت کے حصول کا ہوتا ہے۔عیاشی زندگی کا مقصد بن جاتی ہے پھر
ایک ہاتھ آگے بڑھ کر ہم جنسی کی بیماری پھیلتی ہے،ناجائز اولاد اور اسقطِ
حمل جیسے گناہ ہوتے ہیں۔ شادی کو غیر ضروری سمجھا جاتا ہے جس سے خاندان کے
تصور کا خاتمہ ہوتا ہے۔
(۳)نظم و ضبط اور معیارِ تعلیم کا گرنا: یہ نظامِ تعلیم اداروں کے نظم و
ضبط اور تعلیم کے معیار پر بھی اثر انداز ہوتا ہے۔علم پر توجہ کے بجائے زیب
و زینت اور خودنمائی پر توجہ دی جاتی ہے ،طلبہ وطالبات خود ایک دوسرے میں
اتنی دلچسپی لیتے ہیں کہ پھر پڑھائی میں کوئی دلچسپی نہیں لیتے،طلبہ کے لیے
سب سے غیر اہم تعلیم اور سب سے اہم صنفِ مخالف کی توجہ کا مرکز بنا رہنا
ہوتا ہے ،اسی کی وجہ سے آپسی لڑائی اور گروپ بندی ہوتی ہے،کلاس کے باہر بھی
گفتگو اور بحث کا موضوع تعلیمی نہ ہو کر صنفِ مخالف سے متعلق ہوا کرتا ہے
اور ساری سرگرمی ،مذاق اور سوچ ”کچھ اور“ ہی ہوا کرتی ہے۔لڑکیوں کا حال بھی
کچھ کم نہیں ہے ،گھر میں چاہے کیسی بنی رہیں لیکن یونیورسٹی آتے وقت میک اپ
تھوپ کر اور تنگ ٹائٹ کپڑے پہن کر آتی ہیں ۔گویا تعلیم حاصل کرنے نہیں بلکہ
ماڈلنگ کرنے یا فیشن شو میں حصہ لینے آئی ہوں۔البتہ لڑکیاں اگر لڑکوں سے
تعلیم میں آگے ہیں تو اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ان کے پیچھے دو ذہن کام
کرتا ہے۔ایک تو خودان کا اور دوسرا ان کے دوست کا ،جو اپنا نہ پڑھ کر ان کو
پڑھاتا رہتا ہے یا مواد مہیا کراتا ہے(الاماشاءاللہ)
(۴) تدریس میں مشکلات:کلاس میں استاد کا پڑھانا ہی تعلیم کی بنیاد ہے
۔استاد لاتعلقی سے نہیں پڑھا سکتا بلکہ وہ شاگردوں سے براہ راست ذہنی رابطہ
قائم کرتا ہے۔اس میں صنفِ مخالف کو مشکل پیش آتی ہے اسی لیے لڑکیاں ایک
لیڈی ٹیچر کو اور لڑکے ایک استاد کو ہی اپنا حقیقی مشیر یا مربی سمجھتے
ہیں۔جو مخلوط تعلیمی نظام میں ممکن نہیں ہے ۔اسی لیے آج کے دور میں ایسی
بہت سی مثالیں مل جائیں گی جس میں استاد اور شاگرد کا مقدس رشتہ داغدار ہوا
ہے۔ریسرچ اسکالروں کا ذہنی و جسمانی استحصال عام بات ہے۔
اسلامی نظریہ:اسلام نے پردے اور خاندانی نظام پر خاص توجہ دی ہے ۔ارشادِ
ربانی ہے:
”اپنے گھروں میں ٹک کر رہو اورسابق دورِ جاہلیت کی سی سج دھج نہ دکھاتی
پھرو“ (الاحزاب:۳۳)
نبی کریمﷺ نے مرد اور عورت دونوں کی تعلیم کو ضروری قرار ددیا لیکن آج کے
دور کی مخلوط تعلیم حاصل کرنے کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔اسلام نے دونوں کے
علاحدہ علاحدہ وجود کو تسلیم کیا ہے تو بھلا مخلوط تعلیم کا کہاں گذر ہو
سکتا ہے؟ ہر ایک کی ذمہ داری اپنے اپنے دائرے میں متعین کر دی ہے ۔دونوں کا
اسی میں امتحان ہے اور اسی پر جزا و سزا ہے۔ارشادِ ربانی ہے:
”میں تم میں سے کسی کا عمل ضائع کرنے والا نہیں ہوں۔خواہ مرد ہو یا عورت“
(اٰل عمران:۵۹۱)
اور ایک جگہ فرمایا!
”جو کچھ مردوں نے کمایا ہے اس کے مطابق ان کا حصہ ہے اور جو کچھ عورتوں نے
کمایا ہے اس کے مطابق ان کا حصہ“(النسائ:۲۳)
اس کے ساتھ ہی ساتھ مردوں کو عورتوں کی اور عورتوں کو مردوں کی مشابہت
اختیار کرنے سے روک دیا گیا۔ حدیثِ نبوی ہے!
آپ ﷺ نے عورتوں کی مشابہت کرنے والے مردوں اور مردوں کی مشابہت کرنے والی
عورتوں پر لعنت فرمائی ہے (صحیح بخاری:۵۸۸۵)
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ عورتوں کے لیے تعلیم ضروری ہے لیکن خالص اسلامی
نقطہ نظر سے اور اولاد کی تربیت ،کردار سازی ہی عورتوں کا اصل فریضہ ہے۔
ماضی کی تاریخ گواہ ہے کہ مسلم خواتین نے اسلامی دائرہ کار میں رہ کر
نمایاں کارنامے انجام دیے ہیںاور علم وفضل میں اپنا مقام پیدا کرنے کے ساتھ
ساتھ اولاد کی تعلیم وتربیت میں بھی روشن مثالیں قائم کی ہیں۔امام
ابوحنیفہؒ ،امام شافعیؒ،امام مالکؒ،امام احمد بن حنبلؒ،سلطان صلاح الدین
ایوبیؒ،شاہ ولی اللہؒ،سید ابولاعلی مودودیؒ،علامہ اقبالؒ،مولانا ابواللیث
اصلاحیؒ وغیرہ اس کی نمایاں دلیل ہیں۔یہ مخلوط تعلیمی نظام ہی کا نتیجہ ہے
کہ آج اس پائے کے لوگ پیدا نہیں ہو رہے ہیںاور اس مروجہ تعلیمی نظام سے اس
کی امید بھی نہیں کی جا سکتی ہے۔
مسئلہ کا حل:مسلم دانشوروں اور علماءکرام نے ہمیشہ مخلوط تعلیمی نظام کی
مخالفت کی ہے لیکن جب آپ کسی چیز کو ختم کرنا چاہتے ہیں تو پہلے اس کا بدل
تیار کرنا ضروری ہے۔صرف مخالفت میں باتیں بنانے اور تقریریں کرنے سے بات
نہیں بنے گی۔اگر مروجہ تعلیمی نظام میں جانے سے طلبہ و طالبات کو روک دیا
جائے تو کیا وہ گھر بیٹھیں؟؟ضرورت اس بات کی ہے کہ الگ الگ تعلیمی ادارے
کھولے جائیں اور یہ کوئی ناممکن کام نہیں ہے۔جہاں تک اس کام کے لیے روپئے
اور وسائل کی بات ہے تواللہ تعالی کے فضل سے مسلمانوں کے پاس دونوں کی کوئی
کمی نہیں ہے۔روز بروز نئی نئی مختلف مسلم تنظیموں اور سیاسی پارٹیوں کا
وجود میں آنا اس بات کی قوی دلیل ہے۔ بس جنون ،لگن ،صحیح رہنمائی اور
منصوبہ بندی کی ضرورت ہے اور جب تک اس کا بدل نہ تیار ہو تو جتنا ممکن ہو
سکے اسلامی حدود میں رہتے ہوئے تعلیم حاصل کریں ۔لڑکیاںپردے کا مکمل خیال
رکھیں ،اساتذہ اور طلبہ سے غیر ضروری اختلاط سے اجتناب کریں،جہاں تک ممکن
ہو سکے پرائیوٹ اورفاصلاتی تعلیم حاصل کریںاور سب سے اہم بات یہ کہ مخلوط
تعلیمی نظام کوغلط سمجھیں ،ایسا نہ ہو کہ ہم اسی کو بہتر اور مفید مان لیں
اور ہمارے دلوں میں اس کے خلاف کوئی ناپسندیدگی،کراہیت اور کھٹک نہ ہوکیوں
کہ تمام اعمال کا دارومدار نیت پر ہے ۔اللہ تعالی نیتوں کو جانتا ہے اور
اسی کی بنیاد پر جزا و سزا دے گا۔ |