پاکستان کے ایک انتہائی محفوظ
تصور کیئے جانے والے شہر ،راولپنڈی میں شیعہ مکتب فکر کے ایک جلوس نے راجہ
بازار کے علاقے میں مدرسہ جامعہ تعلیم القرآن و مسجد میں جس بے رحمی کے
ساتھ ظلم و ستم کا بازار گرم کیئں رکھا ،اسکی مثال پاکستانی تاریخ میں کہیں
نہیں ملتی۔ ظلم و بربریت سے بھرپور اس واقعے کے بعض پہلووں اگرچہ سامنے
آگئے ہیں۔ لیکن متاثرہ فریق اور انتہائی باوثوق ذرائع کے مطابق جو تفصیلات
سامنے آئی ہیں ۔یہ اصل حقائق کے عشرعشیر بھی نہیں ۔ جو تفصیلات اب تک سامنے
آئی ہیں ان کے مطابق ماتمی جلوس کے دہشت گردوں نے نہ صرف نماز جمعہ کے لیئے
آئے نمازیوں کو شہید کرڈالا ،بلکہ وہ مدرسے کے اندر جاکر وہاں پر موجود
معصوم طلباء کواس بے رحمی سے شہید کرتے رہے۔کہ کسی کو زیجیریں مار مار کر
تو کسی کو خنجروں کے وار کرکے موت کے گھاٹ اتاردیا گیا ۔واقفان حال کے
مطابق ماتمی جلوس کے ان دہشت گردوں کے دل جب اس ظلم سے بھی نہیں بھرے تو
انہوں نے بعض معصوم طلبہ کو ذبح بھی کرڈالا۔
دہشت گردوں کو کوسنے اور انکی مذمت کرنے کا میرے خیال میں کوئی فائدہ نہیں
۔ کیونکہ وہ تو باقاعدہ منصوبہ بندی کے ساتھ آئے اور اپنی ’’مشن‘‘ کو پورا
کرکے بخیریت و عافیت چلے بھی گئے۔ وہ آئندہ بھی جب چاہیں گے اسی طرح کی ایک
اور کارروائی کرکے باحفاظت چلے جایئنگے۔ لیکن آفسوس اور صد آفسوس کہ جنکا
کام معصوم عوام کی حفاظت کرنا تھا ۔اور جنکا کام عوام کو حقائق سے باخبر
رکھنا تھا ۔وہ دونوں اپنے فرائض ادا کرنے میں ناکام رہے۔ نہ صرف ناکام رہے
بلکہ وہ اپنے فرائض منصبی سے غداری کے مرتکب قرار پائے ہیں ۔ قارئین سمجھ
گئے ہونگے ۔کہ میرا اشارہ کس طرف ہے ۔میرا پہلا اشارہ متعلقہ حکومتی ذمہ
داران کی طرف ہے ، جو نہ صرف مذکورہ بالا حملہ روکنے میں ناکام رہے ہیں ،بلکہ
عالمی میڈیا کے مطابق دہشت گردی کے اس واقعے میں سرکاری اسلحے کا استعمال
بھی ہوا ہیں۔ ایک اور سوالیہ نشان پنجاب بالخصوص راولپنڈی انتظامیہ کے
کارکردگی کے اوپر یہ بھی ہے ۔کہ جب ماتمی جلوس ہر طرف سے سیکیورٹی کے حصار
میں تھا تو ان پاس خطرناک ہتھیاراور آتش گیر مادہ کہاں سے آیا ؟ میرا دوسرا
اشارہ پاکستان کے الیکٹرونک میڈیا کی طرف ہے۔یہ وہ میڈیا ہے ۔اور انکی ذمہ
داری کا حال یہ ہے ۔کہ ماضی میں کراچی کے ایک علاقے میں کسی گاڑی کا ٹائر
پٹھا ۔تو اسی میڈیا کے بم دھماکے کی بریکنگ نیوز چلائی ۔ نہ صرف دھماکے کی
نیوز چلائی ،بلکہ اپنی ذرائع سے ناظرین کو یہ بھی بتادیا، کہ دھماکے کی
نتیجے میں جو افراد زخمی ہوئے ہیں ۔ان میں بعض کی حالت تشویش ناک ہے۔ اسی
لیئے ہلاکتوں کا خدشہ بھی ہیں۔ حالانکہ ٹائر پٹھنے کی نتیجے میں ایک چیونٹی
بھی نہیں ہلاک نہیں ہوئی تھی۔ یہ میڈیا اتنا باخبر ہے کہ جب کترینہ کیف
اپنے لیئے نئی ساڑہی خریدتی ہے تو سب سے پہلے خبر اس میڈیا کو ہوجاتا
ہے۔اور یہ فی الفور وہ خبر عوام تک پہنچادیتی ہے۔پاکستان کا یہ میڈیا اس
قدر مستعد اور ’’ذمہ دار‘‘ ہے کہ جب انڈیا میں ممبئی حملہ ہوا ۔اور انڈین
اہلکاروں نے اس کے بعد کئی بے گناہ مسلمانوں کو پکڑلیا ۔تو یہی پاکستانی
میڈیا تھی جنہوں نے ایک ملزم اجمل قصاب کا پورا ریکارڈ پتہ نہیں کہاں سے
نکلوادیا ۔جن میں تمام تر تفصیلات موجود تھیں ۔ کہ قصاب کب ،کہاں ، کیسے
پیدا ہوا ۔اور انہوں نے ممبئی میں حملے کا منصوبہ کیوں بنایا۔گویا اس میڈیا
نے اپنی طرف سے ہندوستان کا ایک مشکل آسان کردیا ، کہ اصل مجرم قصاب ہی ہے
جو پاکستان سے گیا ہے ۔ لہذا عین ممکن ہے کہ اسے ائی․ایس․ائی کا معاونت بھی
حاصل ہو۔ لیکن اﷲ پاک کا شان دیکھیں ۔کہ جس وقت ہندوستان کے اعلی عدلیہ کے
جج اجمل قصاب کو سزائے موت سنارہے تھے ،تو ساتھ میں ان کے منہ سے یہ الفاظ
بھی ادا ہورہے تھے۔ کہ: ہمیں اجمل قصاب کے خلاف کوئی ثبوت نہیں ملے ، لیکن
ان کو سزائے موت اس لیئے سنا رہے ہیں ۔تاکہ ہندوستانی رائے عامہ کو مطمئن
کیا جاسکے۔اجمل قصاب کو تو انڈیا نے پھانسی دے دی ، لیکن اس کے بعد اعلی
ہندوستانی حکام نے تسلیم کیا کہ بمبئی حملے سمیت کئی دیگر حملے جو
ہندوستانی مفادات پر ہوئے ،ان میں ہندوستان خود ملوث تھا ۔ اور اس کا مقصد
خود کو مظلوم جبکہ پاکستان کو دہشت گرد ملک ثابت کرنا تھا۔ یہ تو مقام شکر
ہے کہ سب کچھ عیاں ہوگیا ۔ ورنہ پاکستانی میڈیا نے تو ’’اپنی ذمہ داری‘‘
احسن طریقے سے نبھائی تھی۔اس کے علاوہ ملالہ یوسفزئی کو پاکستانی میڈیا نے
جس انداز سے سر چڑھایا ۔وہ سب کے سامنے ہے۔ حال ہی میں امیر جماعت اسلامی
پاکستان جناب سید منور حسن کے ایک بات کو جس طریقے سے اس میڈیا بتنگڑ بنایا
۔اس پر بندہ اس میڈیا کو ’’داد‘‘ دیئں بغیر رہ ہی نہیں سکتا۔یہ تو صرف چند
کارنامے ہیں ورنہ اس میڈیا نے جس طرح زیادتی کی شکار لڑکی کے خاندان کو
پوری دنیا میں رسوا کیا ۔وہ اور اس کے علاوہ کئی اور کارنامے اگر قلم بند
کیئں جائے ۔تو کئی کتابیں تیار ہوسکتی ہیں۔ لیکن کمال ہے کہ اس میڈیا کو
راولپنڈی کے اس عظیم سانحے کی کوئی خبر ہی نہ ہوئی۔ جبھی تو دوپہر کو اہل
مدرسہ و مسجد پر جو ظلم کے پہاڑٹوٹے تھے ۔ میڈیا نے اس خبر کو دبائے رکھا۔
لیکن جب دیکھاکہ اب خبر کو چھپانا ممکن نہیں رہا،تو شام کو جاکر یہ خبر دے
دی کہ راولپنڈی میں دو مذہبی گروہوں کے مابین تصادم ہوگیاہے۔سوال یہ ہے کہ
کیا اتنے بڑے سانحے کودو مذہبی گروہوں کا تصادم قرار دینا اپنے پیشے سے
خیانت نہیں؟اگر یہ دو گروہوں کا تصادم تھا تو کیا کسی بھی تصادم میں ایسا
کبھی ہوا ہے کہ ایک گروہ کو تو خراش بھی نہ آئے ۔ جبکہ دوسرے گروہ کے گلے
تک کٹ جائے؟ نہیں ہرگز نہیں یہ دو گروہوں کے مابین تصادم نہیں بلکہ یہ کھلی
دہشت گردی تھیں۔ جن میں جاں بحق افراد کی اصل تعداد اب تک معمہ بنی ہوئی ہے۔
کیونکہ مدرسہ انتظامیہ کا کہنا ہے کہ انکے لگ بھگ تین سو طالب علم ابھی تک
لاپتہ ہیں۔
ہمارے بعض نادان دوست خود بھی اس خوش فہمی میں مبتلاء ہیں ۔اور اہل وطن کی
آنکھوں بھی دھول جھونکنے کی کوشش کررہے ہیں ۔کہ میٖڈیا نے حقائق سے پردہ نہ
اٹھا کر ایک اہ کارنامہ انجام دیا ۔کیونکہ ان کے خیا ل میں اگر میڈیا اصل
حقائق عوام کے سامنے لاتی تو حالات بہت خراب بھی ہوسکتے تھے۔میرے خیال میں
یہ سوچ دیوانے کی خواب سے کم نہیں ۔ کیونکہ میں سجھتا ہوں کہ اگر میڈیا
تمام صورتحال سے عوام کو اگاہ کردیتی ۔تو وقتی اشتعال اگر چہ ضرور پیدا
ہوتا ۔لیکن حالات بہت زیادہ خرابی کی طرف نہ جاتے۔ کیونکہ متاثرہ فریق کے
علماء کرام اور دیگر بزرگ اپنے لوگوں کو سمجھانے کی پوزیشن میں ہوتے۔دوسری
بات یہ کہ حقائق اگر میڈیا کے ذریعے سامنے لائے جاتے تو لوگ متاثرہ فریق سے
ہمدردی کا اظہار بھی کرتے ۔ نتیجتا ان میں احساس محرومی جنم نہ لیتی۔ اور
حالات چند دنوں میں معمول پر آجاتے۔لیکن مقام آفسوس ہے کہ نتائج کے پرواہ
کیئں بغیرحکومت و میڈیا نے اس سانحے میں بھی جامعہ حفصہ ؓ والی تاریخ
دہرانے کی کوشش کی ہے۔ایک اور سوال یہاں یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ اگر میڈیا
کے اس طرزعمل کو ذمہ داری کا نام دیا جائے ،تو کیا کل کو اﷲ نہ کرے کسی جگہ
خودکش حملہ ہوجائے تو کیا یہ میڈیا اسی ذمہ داری کا مظاہرہ کرے گی ؟ میں
سمجھتا ہوں کہ ہرگز نہیں بلکہ وہاں یہی میڈیا گلا پاڑ کر چیخ رہا ہوگا۔اگر
کسی کو یقین نہیں آرہا تو حالات پر نظر رکھیں ۔خود ہی معلوم ہوجاے گا ۔کہ
اس میڈیا کو قومی وحدت کتنا عزیز ہے۔ بہرحال جو ہونا تھا وہ ہوچکا ۔اب
میڈیا کو بھی چاہیں کہ وہ اپنے اس مکروہ فعل پر پردہ ڈالنے کی بجائے اپنے
اس عمل سے رجوع کریں۔اور حکومت وقت کو بھی چاہیں کہ آگے بڑھیئں زحموں پر
نمک پاشی کے جائے اس پر مرہم رکھیں ۔ تیسرے ،چوتھے ہاتھ کو بھی ضرور
ڈھونڈیئں ۔ لیکن جن قاتلوں کے چہرے صاف ظاہر ہیں۔ ان قانون کی گرفت میں
لائیں۔متاثرین کی داد رسی کیجئیں،اور شہداء کے اصل تعداد سامنے لائی جائے،
متاثرہ دکانداروں کے نقصانات کا ازالہ کریں،نہ کہ لاشوں کو چھپایاجائے۔تمام
مکاتب فکر کے علماء کرام اور مشائخ عظام کو ساتھ بٹھائیں ،اور قرآن و سنت
کے روشنی میں تمام اختلافی امور کا جائزہ لیجئے۔اور جو جو کام جس جس فرقے
کے اندر بھی قرآن وسنت کے خلاف پائے جائے۔ان تمام کاموں پر پابندی لگائی
جائے۔اور اگر پھر بھی دلیل کی زبان کوئی نہ مانے تو ان سے ریاست کی زبان
میں بات کی جائے۔ایران سمیت تمام پڑوسی ممالک کو سختی سے یہ پیغا م دیا
جائے ، کہ وہ ہمارے معاملات میں مداخلت بند کردے۔اگر تو حکومت وقت ان تمام
امور پر توجہ دیتی ہیں ۔تو امید ہے کہ انشاء اﷲ تعالی پاکستان میں امن لوٹ
آئے گا ۔لیکن اگر حکومت موجودہ روش کو ترک نہیں کرتی ۔تو پھر چاہے وہ کچھ
بھی کرے حالات کا معمول پہ آنا کسی معجزے سے کم نہیں ہوگا۔ |