دسویں محرم الحرام کو میرے آبائی شہر راولپنڈی میں جو کچھ
ہوا اس پر میں اپنا قلم اٹھانے سے گریز کررہا تھا میں خاموشی پر اس لیے
اکتفا کرنا چاہتا تھا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ میرے قلم سے اس موضوع پر کوئی
ایسے لفظ عریاں نہ ہوجائیں کہ جو قابل گرفت اور جارحانہ حقیقت کے زمرے میں
آتے ہوں، مگر کیا کروں کہ میرے اندر کا شخص خاموش نہیں ہورہا۔اس دن سے آج
تک میں خود کلامی میں مصروف ہوں اپنے آپ سے باتیں کیئے جارہاہوں ہاتف مجھے
بار بار مخاطب ہوکر کہہ رہا ہے کہ افسوس ہم شیعہ، سنی، وہابی، دیوبندی اور
سلفی تو کٹر بن گئے، لیکن اسلام سے کٹ گئے۔ کربلا کی یاد میں ہم نے کربلا
ثانی برپا کردی۔ نواسے کو ماننے والے نانا کے پیغام کو بھول گئے اور نواسے
نے جو لازوال قربانی دے کر اسلام کو زندہ کیا تھا ہم نے اسی نواسے کو یاد
کرتے ہوئے اپنے ہاتھوں سے اسلام کو ذبح کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔لیکن
میں ہاتف کی اس بات سے بھی متفق نہیں کہ معاملہ صرف ایک جانب سے ہی ہوا ہو
گا دوسری جانب سے بھی کوئی پتھر پھینکا گیا ہوگا اور پھر ایسے موقعوں کی
تلاش میں تو بہت سی دشمن قوتیں بھی ہوتی ہیں جو اپنا کام کرجاتی ہیں۔ میرے
خیال میں سانحہ راولپنڈی میں کسی تیسری قوت کا ہاتھ بھی ہوگا اور پھر شیطان
بھی تو موجود ہے ورغلانے کے لیے۔ ہاتف نے میری یہ دلیل مکمل طور
پر تسلیم نہیں کی۔تاہم اس نے بعض جزیات پر اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ
دشمن بھی اسی تاک میں مدت سے ہے لیکن
یہ گھر میرے اپنوں کی وساطت سے گرے گا۔
اور پھر شیطان کے حوالے سے ایک قصہ بھی بیان کر ڈالا کہ ایک بزرگ کی کسی
بازار میں شیطان سے ملاقات ہو گئی،بزرگ نے کہا کہ آج کل تم مخلوقِ خدا کو
بہت ورغلا رہے ہو شیطان بولا کہ میں تو جناب ایسے ہی بدنام ہوگیا ہوں ورنہ
میں پہلے ہی بہت گناہگار ہوں اس لیئے کم سے کم گناہ پر اکتفاکرتا ہوں بزرگ
نے حیرت سے پوچھا تو پھر یہ شیطانی دھندے تیز تر کیوں ہوگئے ہیں اور یہ کس
نے پھیلائے ہیں؟ شیطان نے کہا میں آپ کو مثال سے سمجھاتا ہوں شیطان نے
بازار میں ایک حلوائی کی دوکان پرچولہے پر رکھے اُبلتے ہوئے شیرے میں انگلی
ڈبوئی اور اسے دیوار پر مل دیا تھوڑی ہی دیر میں اُس مٹھاس پر بہت سی
مکھیاں جا بیٹھیں جن کو دیکھ کر ایک چھپکلی لپکی اُسے دیکھ کر حلوائی کی
بلی نے چھلانگ لگا دی نشانہ خطا گیا وہ اُبلتے ہوئے شیرے میں جا گری حلوائی
نے بلی کو بچانے کے لیئے شیرے کی کڑھائی الٹ دی بلی تو بچ گئی لیکن نیچے
بیٹھا ہوا کتا فرائی ہو گیا کتے کے مالک نے جب یہ دیکھا تو اس نے تلوار
نکال کر حلوائی کا کام تمام کر دیا حلوائی کی موت پر تمام دوکاندار اکھٹے
ہوئے اور انہوں نے کتے کے مالک کو مار دیا ۔ کتے کا مالک ایک فوجی تھا اور
اُس کی فوج شہر کے باہر پڑاؤ کیئے ہوئے تھی ان تک جب اپنے فوجی کی ہلاکت کی
خبر پہنچی تو وہ طیش میں آگئے اور انہوں نے سارے شہر کو تہس نہس کر دیا ۔
تب شیطان نے بزرگ سے کہا کہ باباجی اب بولو میرا کتنا حصہ ہے ان واقعات میں؟۔
ہاتف کی یہ بات بھی اپنی جگہ پر درست ہے کہ ہم اپنے گناہوں کا کلی طور پر
زمہ دار شیطان کو ہی ٹہراتے ہیں اور لاحول پڑھنے کی زحمت تک گوارا نہیں
کرتے اور جہاں تک ان جیسے واقعات میں کسی اور قوت کے ملوث ہونے کی بات ہے
تو یہ کام 1710 سے جاری ہے ۔انگلستان کے ایک جاسوس ''ہمفرے'' نے ایک ڈائری
کی صورت میں مسلمانوں کو تقسیم کرنے کے برطانیوی ایجنڈے کے بارے میں اپنے
اعترافات لکھے تھے جو ایک کتابی شکل میں بھی موجود ہیں ہمفرے نے اس ڈائری
میں نہ صرف اپنی سرگرمیوں پر روشنی ڈالی ہے بلکہ اس وقت کی برطانیہ کی
وزارتِ نوآبادیات کے مقاصد منصوبوں اور منشور کو بھی بے نقاب کیا ہے۔ تین
صدیاں قبل برطانیہ ایک عالمی قوت تھا جو معاشرتی نفاق، سازشوں اور اپنی
فوجی طاقت کے بل پر اپنی کالونیاں بنا رہا تھا، تاکہ ان کے وسائل پر قابص
ہوکر اپنی معیشت کو ترقی دے سکے۔ 1710ء میں انگلستان کی وزارت نوآبادیات نے
ہمفرے کو دیگر جاسوسوں کے ساتھ مصر، عراق، ایران، حجاز اور سلطنت عثمانیہ
میں جاسوسی پر مامور کیا گیا تھا اس کے ذمے مسلمانوں کو درہم برہم کرکے
مسلم ممالک میں سامراجی نظام رائج کرنے کے راستے تلاش کرنا تھا۔ ہمفرے نے
اپنی ڈائری میں ایک جگہ لکھا ہے کہ عراق جانے سے پہلے وزارت کے سیکرٹری نے
ایک ملاقات میں مجھے کہا تھا کہ ہمفرے تم جانتے ہو کہ جنگ اور جھگڑے انسان
کے لیے ایک فطری امر ہیں جب سے خدا نے آدم کو پیدا کیا اور لابیل اور کابیل
پیدا ہوئے اختلاف نے سر اٹھایا اور اب اس کو حضرت عیسیٰؑ کی بازگشت تک اسی
طرح جاری رہنا ہے۔ ہم انسانی اختلافات کو پانچ موضوعات پر تقسیم کرتے ہیں۔
1۔ نسلی اختلاف 2۔ قبائلی اختلافات، 3۔ ارضی اختلافات، 4 قومی اختلافات، 5
مذہبی اختلافات، اس سفر میں تمہارا اہم ترین مشن مسلمانوں کے درمیان
اختلافات کے مختلف پہلوئوں کو سمجھنا اور انہیں ہوا دینے کے طریقوں کو
سیکھنا ہے۔ اس حوالے سے جتنی بھی معلومات مہیا ہوسکیں انہیں لندن پہنچانا
ہے۔ اگر تم اسلامی ممالک کے بعض حصوں میں شیعہ، سنی فساد برپا کرسکو تو
گویا تم نے حکومت برطانیہ کی عظیم خدمت کی جب تک ہم نوآبادیاتی علاقوں (کالونیز)
میں تفرقہ اور اختلافات کی آگ کو ہوا نہیں دیں گے ہم عثمانی سلطنت کو شکست
نہیں دے سکتے۔ ہمفرے ایک اور جگہ لکھتا ہے کہ جب وہ عراق سے واپس چھٹی پہ
لندن گیا تو وزارت کی جانب سے اسے ایک کتاب پڑھنے کے لیے دی گئی جو
مسلمانوں کی حالت زار پر سیر حاصل بحث کرتی تھی۔ جس میں چند ایک بڑی
کمزوریوں کا ذکر یوں تھا۔ 1۔ شیعہ، سنی اختلافات، 2۔ حکمرانوں کے ساتھ
قوموں کے اختلافات، 3۔ قبائلی اختلافات، 4۔ علما اور حکمرانوں کے درمیان
غلط فہمیاں، 5۔ جہالت اور نادانی کی فروانی، 6۔ فکری جمود اور تعصب۔ محنت
سے جی چرانا، 7 مادی زندگی سے بے توجہی اور جنت کے خواب، 8 حکمرانوں کے
مظالم، 9۔ امن و امان، سڑکوں، علاج معالجے وغیرہ کا فقدان، 10۔ حکومتی
دفاتر میں بدنظمی، قائدے قانون کا فقدان، 11۔ اسلحہ دفاعی سامان کی کمی، 2
1۔عورتوں کی تحقیر، 13۔ گندگی کے انبار، اشیاء کے فروخت کے بے ہنگم ڈھیر۔
مسلمانوں کے ان کمزور پہلوئوں پر روشنی ڈالنے کے بعد لکھا گیا تھا کہ
مسلمانوں کا طرز زندگی شریعت اور اسلامی قوانین سے رتی برابر بھی میل نہیں
کھاتا۔ تین صدیاں قبل جو تلخ حقائق مسلمانوں کے بارے میں بیان کئے گئے تھے
اور جن کمزوریوں کا ذکر کیا گیا تھا وہ تو آج بھی بدستور موجود ہیں اور ان
کمزوریوں سے فائدہ اٹھانے والے بھی…! میرے اندر کے آدمی (ہاتف) کا کہنا تھا
کہ ان حقائق سے بھی پہلوتہی نہیں کی جاسکتی ہم مسلمان آج ان کمزوریوں کا
شکار ہیں۔ 17 ویں صدی سے لے کر انیسویں صدی تک برطانیہ تقسیم کرو اور حکومت
کرو کی پالیسی پر عمل پیرا ہوکر جو کام کررہا تھا وہی کام گزشتہ ایک صدی سے
آج کی سپر پاور کررہی ہے۔ فرق صرف مارڈرن ٹیکنالوجی اور جدید سوچ کا ہے۔ (فول
پروف) انتظامات کرنے کے بعد بھی جب راولپنڈی جیسے سانحے جنم لیتے ہیں تو
جہاں ان میں بیرونی ہاتھ ملوث ہوتا ہے وہاں شیطان کے ساتھ ساتھ ہماری اپنی
کمزوریاں بھی ہوتی ہیں، کیونکہ نفرت کاشت کرنے سے محبت نہیں اگتی۔
دشمن بھی اسی تاک میں مدت سے ہے لیکن
یہ گھر میرے اپنوں کی وساطت سے گرے گا |