آٹھ محرم الحرام کے دن شام کے وقت میں اور میرا دوست غلام
نبی جعفری یوٹیوب پر مولانا اسحٰق کی ایک وڈیو دیکھ رہے تھے،مولانا اسحٰق
یونیٹی آف مُسلمز کے حوالے سے ایک اچھے مکرر ہیں،آپ حضرات بھی جب آپ کو وقت
ملے اُنہیں ضرور سُنیئے گا۔
وہ وڈیو دیکھنے کے بعد میں اور جعفری صاحب ہمارے مُلک میں محرم الحرام کی
سیکیورٹی کے حوالے سے باتیں کرنے لگے، اور ہم دُعا کر رہے تھے کہ اﷲ تعالیٰ
رحم کرے ،نو اوردس محرم خیر خیریت سے گُزر جائیں۔
اِن دنوں میں عام طور پر یہی دھڑکالگا رہتا ہے کہ کہیں کچھ ہو نہ جائے،اور
صرف اِنہی دنوں میں کیا،بلکہ ہر فرقے ہر مسلک کی طرف سے کوئی بھی دن
منانے،کسی بھی حوالے سے کوئی محفل ،سیمینار ،اجتماع یاکانفرنس ارینج کیئے
جانے پر بھی یہی ڈھڑکا لگا رہتا ہے کہ کہیں کچھ ہو نہ جائے۔اور ڈھڑکا کیوں
نہ لگے؟
جس مُلک میں اسلام اور مُلک کے دُشمن ہروقت صرف اِس انتظار میں رہتے ہوں کہ
جونہی ہمیں کوئی موقع فراہم ہو، اور ہم اِنہیں نقصان پہنچائیں،جس مُلک میں
قیدی سرِعام جیلوں سے فرار کروالیئے جاتے ہوں،جس مُلک میں جی۔ایچ۔کیو پر
حملہ کِیا جا سکتا ہو،جس مُلک میں مسجد ،امام بارگاہ،چرچ اور اسکول تک
محفوظ نہ ہوں۔،تو پھر میرا خیال ہے کے اِس مُلک کے کسی بھی شخص کے اندر اگر
اِس حوالے سے کوئی ڈر ہے ،تو وہ جائز ہے۔
مسئلہ یہ ہے کے اِس قسم کے دنوں میں جو ڈر عوام کے دِلوں میں رہتا ہے ،وہ
ختم کیسے کِیا جاسکتا ہے،یا پھر اُس میں کمی کیسے لائی جاسکتی ہے۔
میں جعفری صاحب سے یہ عرض کر رہا تھا کہ اگر ہمارے ملک کے مُفتیانِ دین اور
عالم حضرات ایک دوسرے پر کُفر کے فتوے لگانے سے اجتناب کریں،اور صحیح طریقے
سے دین کی صحیح روح اور مُلک کے زمینی حقائق سمجھتے ہوئے اورایک دوسرے کے
عقائد کا احترام کرتے ہوئے اتحادِاجتماعی کے نظریئے کو مدِنظر رکھ کے اگر
کچھ کوشش کریں تو یہ مسئلا کافی حد تک حل ہو سکتا ہے۔
میں سمجھتا ہوں کہ اتحادِاعتقادی ہونا ایک ناممکن سی بات ہے،اور اِس ہی
لیئے میں نے اتحادِاجتماعی کے نظریئے کو مدِنظر رکھنے کا لفظ استعمال کِیا
ہے۔اور یہ کوئی نرالی بات یا نرالا نظریا نہیں ہے،پوری دُنیا میں جہاں بھی
الگ الگ عقائد ،مذاہب اور الگ الگ نظریئے کے لوگ رہ رہے ہیں ،وہ اِسی
اتحادِاجتماعی کے تحت ہی زندگی گُزار رہے ہیں،آپ زیادہ دُور نہ جائیں،آپ
کرسچنز اورہندوؤں کوہی لے لیں،اِن میں بھی الگ الگ مسلک یا فرقے موجود ہیں،
لیکن یہ لوگ دُنیا کے جس خطے میں بھی جہاں بھی رہ رہے ہیں،اِسی اتحادِ
اجتماعی کے تحت زندگی گُزار رہے ہیں،اورمیرے خیال میں یہ لوگ کم سے کم اِس
مسئلے پرہم سے اچھی زندگی گُزار رہے ہیں۔اور ہم مُسلمان جو کہ الحمداﷲ
کائنات کے سب سے سچے اور جدید مذہب کے پیروکارہیں،وہ اِنہی مسئلوں میں
اُلجھ کراپنے آپ اپنے مُلک اور اپنے دین کو دن بہ دن نقصان پہنچائے جا رہے
ہیں۔ہم آج تک یہ طے ہی نہیں کر پا رہے ہیں کے ہمارا اَصلی دُشمن کون ہے۔
میں یہ بات دعوے سے کہہ سکتا ہوں کہ اگر آج حکمران تمام عقائد سے تعلق
رکھنے والوں کی معززشخصیات کو ایک جگہ بِٹھا کر اتحادِ اجتماعی پر لے
آئیں۔اور ہر ایک شخص پر کسی کے بھی خلاف کوئی غلط بات کہنے لکھنے اور
بانٹنے پر پابندی لگا دی جائے،سب کو کچھ خاص قسم کے دائروں میں رہ کر اپنے
اپنے عقیدے کے مطابق عبادت کرنے کا حق دے دیا جائے ،اور ایک دوسرے کے عقائد
کا احترام کرنے کی تلقین کی جائے۔(کیوں کہ شاید ہی دُنیا کا کوئی ایسا
عقیدہ ہو جو دوزخ میں جانے کی تیاری کر رہا ہو ، ہر ایک اپنے اپنے انداز سے
جنت کی ہی تیاری کر رہا ہے)۔
مُلکی مسائل پر بھی سب کو ساتھ بِٹھا کر باتیں شیئر کی جائیں، اور اُنکا حل
نِکالا جائے ،اس قسم کا باہمی ربط قائم کرنے سے مُلک اور اسلام کے دُشمنوں
کو بھی ہمیں نقصان پُہنچانے کا موقع کم سے کم فراہم ہوگا،اور پھر ہم اپنی
سیکیورٹی پر دھیان دے کر اپنے سیکیورٹی سسٹم کوبہتر سے بہتر بنا لیں، تو
میں سمجھتا ہوں کہ ہم آہستہ آہستہ اِس مسئلے کو حل کر جائیں گے۔ یہی وہ
واحد طریقہ ہے جس پہ عمل کر کے ہم رفتہ رفتہ اپنی قوم کے دِلوں سے یہ خوف
نکال سکتے ہیں،اور یہ ناممکن نہیں ہے۔
پھر بات دو دن کیلئے موبائل فون سروس بند کی جانے کی طرف چل نکلی،تو اُس پر
بھی میں نے عرض کِیاکہ ہمارے مُلک کے جو دانشور اور عام عوام طنزیہ دوسرے
ممالک کی مثالیں دے کر یہ کہہ رہے ہیں کہ وہاں تو ایسا نہیں ہوتا۔،تو اُن
سے میری درخواست ہے کہ مہربانی فرما کرپہلے اپنے مُلکی حالات کو گہری نظرسے
دیکھیں اور پھر بات کریں۔اوراِس میں میں گورنمنٹ یا حُکمرانوں کواِس سارے
بگاڑیا مُلکی حالات کو ڈیل کرنے کی ناکام کوششوں کو یا ٹھیک طریقے سے ڈیل
نہ کرنے کی کوئی سپورٹ نہیں کر رہا،ہمارے حُکمران اور ایوانوں میں بیٹھے
ہوئے لوگوں کے کام اور کردار سے ہم سب واقف ہیں،لیکن میں صرف یہ عرض کر رہا
ہوں کہ یہ سوئے ہوئے اور اپنے مفادات کی خاطر پولیٹکس میں آکر ایوانوں میں
بٹھائے جانے والے پپِٹس اگراَمن و امان اور سیکیورٹی کے ایشو کو لے کے یہ
قدم اُٹھا رہے ہیں تواِ س میں ہمارا اور ہمارے مُلک کا ہی فائدہ ہے،کیوں کہ
ہمارے مُلک کے حالات اِس وقت ایسے ہیں کہ اِس ہی قسم کے قدم اُٹھا کر ہی
نقصانات سے بچنے کی کوشش کی جاسکتی ہے۔ اور اگر اِس قسم کے اِقدامات سے ایک
بھی شخص کی جان بچتی ہے،تو پھر میرے خیال میں یہ کوئی غلط اقدام نہیں ہے
،کیوں کہ کسی کی جان سے بڑھ کر کچھ نہیں ہوتا۔ویسے بھی جب آج سے پندرہ سال
پہلے موبائل فون سسٹم ہمارے مُلک میں ٹھیک طریقے سے رائج نہیں ہُوا تھاتو
کیا ہم زندگی نہیں گُزار رہے تھے۔؟
میرا خیال ہے ہم پندرہ سال پہلے آج سے اچھی اور آسان زندگی گُزار رہے
تھے۔اور وہ ایسی زندگی تھی کے جس کیلئے ہم اب عُمربھرترسیں گے ،لیکن وہ اب
کبھی ہمارے ہاتھ نہیں آئے گی۔
اِ س کے بعد ہم بُہت دیر تک دینِ اسلام کے حوالے سے باتیں کرتے رہے،اور ایک
لمحے کو تو ایسا گُمان ہُواکہ ہم صرف نام کے نہیں بلکہ واقعئی ایک اسلامی
مُلک اسلامی جمہوریہ ء پاکستان میں رہتے ہوں۔
سچ پوچھیئے تو اندر ہی اندر ایک خوشی کا سماں بھی محسوس ہونے لگا تھا ،یوں
لگ رہا تھا کہ ہم اﷲ اور اُس کے رسولؐ کے سچے چاہنے والے اورواقعئی اسلام
سے محبت کرنے والے ہوں۔
لیکن جونہی میری نظر ایک چینل کی بریکنگ نیوز پر پڑی تو ایسا لگا کہ جیسے
ہماری خوشی کو نظر لگ گئی ہو۔اور میں ایک عجیب کیفیت میں مُبتلا ہو
گیا۔بریکنگ نیوز یہ تھی کہ ’’اسٹیٹ بینک نے شرح سود میں 0.5 اضافہ کر
دیاہے‘‘۔
اُس ہی لمحے مجھے شرمندگی بھی ہونے لگی،اور مجھے قرآن میں موجود کچھ سورتوں
کی آیتیں یاد آنے لگیں،جن میں سے ایک آیت یہ تھی کہ
’’جو لوگ سودکھاتے ہیں وہ(قبروں سے)اس طرح(حواس باختہ)اُٹھیں گے جیسے کسی
جن نے لپٹ کر دیوانہ بنا دیاہو‘‘۔(سورۃالبقرہ (274۔
اُس کے بعد مجھے اس ہی سورت کی ایک اور آیت یاد آئی کہ جس میں اﷲ تعالیٰ
سود کے حوالے سے آگے چل کے ارشاد فرماتے ہیں کہ
ـ ’’اگر ایسا نہ کرو گے تو خبردار ہوجاؤ(کہ تم)خُدا اور اُس کے رسول ؐ سے
جنگ کرنے کو(تیار ہوتے ہو)۔(سورۃالبقرہ 278)۔
اورپھر میں دیر تک یہی سوچتا رہاکہ ہم دینِ اسلام پر لمبی لمبی باتیں کرنے
والے ،اِس سودی سسٹم میں سود کے خلاف کسی بھی قسم کا احتجاج ریکارڈکروائے
بغیر زندگیاں گُزارنے والے،اﷲ اور اُس کے رسولؐسے جنگ کرنے والوں میں سے
ہونے کے باوجود بھی اپنے آپ کو اﷲ اور اُس کے رسولؐکا سچا عاشق سمجھتے ہیں
اور ایک سچّامسلمان بھی۔
کیا اﷲ اور اُس کے رسولؐسے جنگ کرنے والامسلمان ہو سکتا ہے۔؟اوراب ہمیں سب
سے پہلے تو یہ طے کرنا ہوگا کہ کیا ہم واقعئی مسلمان ہیں ؟ |