اخلاقی اقدار سے مراد اچھے وبُرے کی تمیز ، نیکی و بدی کی
پہچان ، ذمہ داری کا احساس ، رحم و ظلم کا علم وغیرہ ہیں ۔
اخلاقی اقدار کا تعلق براہِ راست عقلی معیار سے ہے۔ عقل ِحیوانی میں معیار
کی پستی کی وجہ سے اخلاقی اقدار کا تصور نہیں ہوتا۔تمام حیوانات فطرتی اور
جبلی طورپر ذات کے خول میں بند ہوتے ہیں۔اُن کی تمام جسمانی اور عقلی اعمال
اور حرکات کا محور اُن کی ذات ہوتی ہے۔لیکن جب عقل بنی نوع انسان میں جلو ہ
گرہوتی ہے تو اُس میں اخلاقی اقدار مثلاََ خیر و شر ، نیکی و بدی ، جائز و
ناجائز ، حرام و حلال، ایمانداری و بے ایمانی ، رحم و ظلم ، وعدہ کی پابندی
، محب الوطنی ، قوم پرستی اور انسانیت وغیرہ پیدا ہوتے ہیں۔مگر قابلِ ذکر
بات یہ ہے کہ انسانی عقل کے ابتدائی معیاروں کے حامل انسانوں میں بھی
اخلاقی اقدار کا تصور تو موجود ہوتا ہے مگر واضح نہیں ہوتاجس کی وجہ سے وُہ
بڑی حد تک اپنی ذات کے خول میں بند ہوتے ہیں۔ لہٰذا روز مرہ زندگی میں جب
اُن کے سامنے ذاتی مفادات اور اخلاقی اقدار میں کسی ایک کو منتخب اور
اختیار کرنے کا مرحلہ آتا ہے تو اُن کی عقل میں ایک جنگ ہو تی ہے جس میں
عموماََذاتی مفادات کو فتح اور اخلاقی اقدار کو شکست ہوتی ہے اور انسان
اپنی ذات کے فائدہ کی خاطر جھوٹ بولنا ، وعدہ خلافی کرنا ، چوری کر نا،
رشوت لینا ، کرپشن کرنا ، معاشرے ، قوم اور ملک کے مفادات کو نقصان پہنچانا
وغیرہ کو معیوب نہیں سمجھتے۔لیکن جب انسان عقل کے اعلیٰ ا و ربلند معیاروں
اور مقامات پر پہنچتا ہے تو ذاتی مفادات اور اخلاقی اقدار کی جنگ میں ا
خلاقی اقدار کو کامیابی ملتی ہے جس کی وجہ سے انسان ا خلاقی اقدارکو ذاتی
مفادات پر ترجیح دینے کے قابل ہوتاہے۔ |