ہم پردیسی بھی عجیب لوگ ہوتے ہیں ۔ رہتے پردیس میں ہیں
کھاتے یہاں پہ ہیں کماتے یہاں پہ ہیں مگر پھر بھی دل اپنے وطن کے لئے ہی
دھڑکتا ہے۔ وہ میدان وہ گلیاں وہ چوبارے وہ بازار یاد آتے ہیں جہاں بچپن
گزرا ہوتا ہے۔ ہم پردیسی تو مٹی کی محبت میں وہ قرض بھی اتارنے کے لئے تیار
ہوجاتے ہیں جوکہ ہم پرواجب بھی نہیں ہوتے، ہر وقت پیچھے کا دھیان۔۔۔ وہاں
کیا ہورہا ہے اور کیوں ہورہا ہے؟۔۔۔ یہ دہشت گردی، یہ مافیا کلچر، یہ
بدامنی، یہ ڈکتیاں، یہ قتل و غارت گری، یہ کرپشن، یہ افراتفری آخر ہمارے ہی
ملک میں کیوں؟ اور اب تو میڈیا اور خصوصاً سوشل میڈیا نے تو دنیا کو سمیٹ
کر آپ کی انگلیوں کی حرکت میں رکھ دیا ہے۔ ہر گلی محلے کی خبر محض چند
لمحوں میں دنیا کے کونے کونے تک پھیل جاتی ہے۔ اچھی اور بری ہر طرح کی
خبریں بہت تیزی سے آپ تک پہنچ رہی ہوتی ہیں۔گزشتہ دنوں ایک ایسی ہی خبر نے
مجھے نہ صرف غم زدہ کردیا بلکہ ایک طرح سے جنھجوڑ ڈالا۔ اگرچہ ایسے حالات
سے پورا ملک متاثر ہے لیکن یہ خبر وہاں سے آئی تھی جہاں میرا بچپن اور
جوانی گزری تھی اور اس علاقے کے امن کی کبھی مثال دی جاتی تھی۔راولپنڈی کے
علاقے سیٹلائٹ ٹاوٴن ایف بلاک میں ڈاکووٴں نے مزاحمت کرنے پر علی نامی
نوجوان کو گولیاں مار کر قتل کر ڈالا۔ حافظ قرآن یہ نوجوان جس کی چند ماہ
قبل شادی ہوئی تھی پورے علاقے میں ہر دل عزیز تھا۔ گزشتہ رمضان المبارک میں
نماز تراویح پڑھانے والا علی جماعت اسلامی آزاد کشمیر کے نائب امیر
نورالباری کا بھانجا اور ماہر تعلیم اور ریڈفاوٴنڈیشن آزاد کشمیر کے سربراہ
پروفیسر مصطفٰی کا جگر گوشہ تھا۔یقیناً یہ واقعہ اپنی جگہ پر انتہائی
افسوسناک اور باعث دکھ ہے لیکن میرے لئے اس سے زیادہ افسوسناک بات یہ ہے کہ
یہ واقعہ اور اس جیسے اور واقعات اس علاقے میں ہورہے ہیں جہاں ایک وقت وہ
تھا کہ علاقے کے مکینوں خصوصاً نوجوانوں کی اجازت کے بغیر چڑیا پر نہیں
مارسکتی تھی۔ وہاں کے نوجوانوں نے اپنے بزرگوں کے تعاون سے اپنی مدد آپ کے
تحت ایک خود حفاظتی حصار بنارکھا تھا اور شہر کے جرائم پیشہ افراد بھی اس
سے بخوبی آگاہ تھے۔ ایف بلاک وہ علاقہ ہے جہاں کشمیریوں کی اکثریت آباد ہے
اور یہاں آزاد کشمیر کے غالباً پہلے وزیرقانون ثناء اللہ شمیم مرحوم، معروف
کشمیری صحافی عبدالصمد وانی مرحوم، ریڈیو آزاد کشمیر کے مشہور پروگرام
”میرے وطن“ کے ”میر صاحب“ جناب میر نورالدین اختر مرحوم، سیاسی و سماجی
رہنما خواجہ محی الدین، غلام رسول بیگ، جناب غلام سرور اعوان، معروف کشمیری
کالم نگار شفقت پونچھی (شیخ نذیر حسین مرحوم) جیسی شخصیات رہائش رکھتی تھیں۔
جبکہ 10سال تک پاکستان کے 6وزراء اعظم ظفر اللہ خان جمالی، چوہدری شجاعت
حسین، شوکت عزیز، محمد میاں سومرو، سید یوسف رضا گیلانی اور راجہ پرویز
اشرف کے ڈپٹی ملٹری سیکرٹری کے فرائض انجام دینے والے ائرکموڈور وقار احمد
کا بچپن بھی اس علاقے کی گلیوں میں گزرا ان کے والد ونگ کمانڈر نعیم اللہ
قریشی بھی ایف بلاک کے روح رواں تھے جبکہ جماعت اسلامی آزاد کشمیر کے پہلے
امیر مولانا عبدلباری مرحوم بھی اس علاقے کے مکینوں میں شامل تھے۔
1980ء کی دہائی میں جب پاکستان میں ”ہتھوڑا گروپ“ کے نام سے دہشت گردی کی
ایک لہر اٹھی تھی تو اسی علاقے کو ایک خاص اہمیت حاصل رہی۔ اسی ہتھوڑا گروپ
نے راولپنڈی کے ایک علاقے کمیٹی چوک میں ایک ہی خاندان کے بہت سے افراد کو
نشانہ بنایا اس واقعہ میں ایک بچہ زندہ بچ گیا تھا۔ اس علاقے کے نوجوان
کیپٹن علیم ڈار (جو بعدازاں سیاچن میں شہید ہوگئے تھے) چونکہ اس بچے کے
قریبی عزیز تھے اس لئے اے ایف بلاک میں منتقل کیا گیا تھا جس کی وجہ سے یہ
علاقہ زیادہ حساس ہوگیا تھا اس وقت بھی علاقے کے نوجوانوں نے راتوں کو جاگ
کر اپنے لوگوں کی حفاظت کی اور اس طرح کا نظام اپنایا کہ راولپنڈی کی مقامی
انتظامیہ ان کی مثال دینے لگی لیکن آج ملک کے دیگر حصوں کی طرح یہ علاقہ
بھی نہ بچ سک۔ غالباً اس علاقے کی بدامنی کا آغاز توچنار پارک پر قبضے سے
ہوگیا تھا۔
ملک کے یہ حالات کسی کے بھی پیداکردہ ہو جنگ کسی کی بھی ہو لیکن بتاہی
ہمارے ملک میں آرہی ہے۔ مالی اور جانی تباہی کے ساتھ ساتھ ذہنی تباہی بہت
خوفناک عمل ہوتا ہے۔ اگرچہ نئی آنے والی حکومت کچھ کرنا چاہتی ہے مگر حالات
دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ حکومت اور ریاست ایک دوسرے سے بہت دورہیں۔ آپس میں
کوئی تعلق نظر نہیں آتا۔ موجودہ حالات میں لوگ صرف مررہے ہیں کوئی دہشت
گردی کے نتیجے میں کوئی ڈاکووٴں کے ہاتھوں اور کوئی بھتہ خوروں کے ہاتھوں
اپنی جان گنوا رہا ہے لیکن قومی سطح پر بے حسی موجود ہے۔ حکومت اور ریاست
دور کھڑے ہیں اور لوگ بھی خود اٹھنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ ایک وقت وہ تھا
کہ جب تھانے اس قدر متحرک تھے کہ ان کی حدود میں ہونے والے ہر کام کی انہیں
خبر ہوتی تھی یہ سب معلومات ایک ایس ایچ او کو ہوتی تھیں لیکن پھر پولیس کے
اندر ایک سپیشل برانچ نے جنم لیا جس کے بعد تھانے اپنی جاسوسی کے لیئے اس
کے مرہون منت ہو گئے۔ آج ہتھوڑا گروپ کے دور کی طرح قوم کو ایک ہونے کی
ضرورت ہے لیکن ایسا ہو نہیں رہا۔ افسوس صد افسوس کہ ہمارا کوئی قومی ایجنڈا
یا پالیسی نہیں۔ مٹھی کھلی ہوئی ہے اور ہر انگلی اپنا اپنا زور لگا رہی ہے
لیکن نتائج مثبت نہیں آرہے اس کھلی مٹھی کو بند کرنا ہوگا ایک مکے کی صورت
میں لیکن یہ سب کون کرے گا۔۔۔۔۔ میری یہ آواز کون سنے گا میں ہوں تو فقط
ایک پردیسی اور وہ بھی برطانیہ میں رہنے والا جہاں مجھے دوہری شہریت رکھنے
کی اجازت ہے لیکن میں اپنے ملک میں الیکشن نہیں لڑ سکتا۔ مجھے ووٹ دینے کی
اجازت ہے لیکن ووٹ لینے کی نہیں۔۔۔ یعنی دے سکتا ہوں مگر کچھ لے نہیں
سکتا،ہم پردیسی بھی عجیب لوگ ہیں کھاتے یہاں ہیں، کماتے یہاں ہیں، رہتے
یہاں ہیں لیکن پھر بھی دل اپنے وطن کے لئے ہی دھڑکتا ہے جب کبھی وطن پر
مشکل گھڑی آتی ہے تو سب سے پہلے ہم پردیسی ہی کھڑے ہوتے ہیں۔
مٹی کی محبت میں ہم آشفتہ سروں نے
وہ قرض اتارے ہیں کہ واجب بھی نہیں تھے |