ڈاکٹر کا نسخہ ہاتھ میں لیے میڈیکل اسٹور پر کھڑے دکان
دار نے ایک گہری نظر ادویات کی فہرست پر ڈالی، اور اگلے ہی لمحے اپنے قلم
سے دوا موجود ہونے یا ہونے کے نشان لگانے لگا۔ فہرست میں شامل پہلی چار
ادویات، جو اس کے پاس نہیں تھی، کی بابت پوچھنے پر معلوم ہوا کہ یہ دوائیں
کل ہی متعلقہ کمپنیوں نے مارکیٹ سے اٹھالیں، جب کہ پانچویں دوا کی جگہ وہ
ہمیں ایک اور دوا تھمانے لگا۔ اس کا کہنا تھا’’صرف نام مختلف ہے، فارمولا
ایک ہی ہے‘‘ ہم نے کہا، بھئی اگر فارمولا ایک ہی ہے تو دونوں کی قیمت میں
یہ فرق کیوں؟ جس پر جواب دیا گیا،’’دیکھیے بی بی! جس نام کی دوا آپ لینا
چاہتی ہیں، اس کی مالیت 14روپے ہے، جب کہ میں جو دوا آپ کو دے رہا ہوں وہ
60 روپے کی ہے، یعنی مجھ سے آپ زیادہ اچھی دوا لے کر جائیں۔‘‘ ذہن اس کے
جواز کو تسلیم نہیں کر رہا تھا۔ لہٰذا میں نے اسی وقت اس حوالے سے تحقیق
شروع کردی۔
مارکیٹ سروے کیا گیا اور اپنی ایک لیڈی ڈاکٹر دوست سے ملاقات کی۔ میرے
سامنے حیران کن حقائق آئے، جنھیں پاکستانی عوام سے مجرمانہ طور پر مخفی
رکھا جا رہا ہے۔
14اور60 روپے کی دوا کے فارمولے میں قطعاً کوئی فرق نہیں۔ فرق ہے تو بس
اتنا کہ سستی دوا مقامی ادویہ ساز ادارے کی تیار کردہ ہے اور مہنگی دوا ایک
ملٹی نیشنل کمپنی نے تیار کی ہے۔ دونوں دوائیں بنانے میں جوخام مال استعمال
ہوا ہے وہ بھی یکساں معیارکاہے۔ قیمتوں میں یہ نمایاں اور بلاجواز فرق اس
وجہ سے ہے کہ حکومت کی طرف سے قوانین کے اطلاق کے لیے قوت نافذہ کہیں نظر
نہیں آتی۔ ساتھ ہی دوسرا مسئلہ ادویات کی عدم دستیابی کا ہے، جو کہ دواؤں
کی قیمتوں میں فرق سے بھی بڑھ کر ہے۔
اس تحقیق کے دوران انکشاف ہوا کہ ملٹی نیشنل کمپنیوں نے کئی ادویات مارکیٹ
سے غائب کردی ہیں۔ ساتھ ہی خبروں کے ذریعے دھمکایا جار ہا ہے کہ غیرملکی
فارماسیوٹیکل کمپنیاں پاکستان میں اپنا کاروبار بند کر رہی ہیں،’’جس کی وجہ
حکومت کی طرف سے ادویات کی قیمتیں نہ بڑھانے کے ضمن میں مجرمانہ غفلت ہے۔‘‘
اپنی مظلومیت کا رونا رونے والی یہ فارموسیوٹیکل کمپنیاں پاکستان میں اربوں
کھربوں کا کاروبار کرچکی ہیں۔ مجھے نہیں یاد پڑتا کہ چھے ماہ پہلے لی جانے
والی کسی دوا کی قیمت چھے مہینے کے بعد وہی رہی ہو، جب کہ مختلف اخبارات
میں اس بابت جو خبریں شائع ہورہی ہیں ان کے مطابق 2001 سے ادویات کی قیمتوں
میں اضافے کی منظوری نہیں دی گئی۔ سوال یہ ہے کہ اگر حکومت نے منظوری نہیں
دی تو پھر قیمتوں میں اضافہ کیسے ہوتا ہے، کون کرتا ہے؟ اور مارکیٹ میں جو
نئی دوائیں آتی ہیں ان کے نرخ کون طے کرتا ہے؟ مثال کے طور پر کینسر کی بعض
ادویہ جو کچھ عرصہ قبل ہی مارکیٹ میں آئی ہیں، ان کی قیمت ہزاروں میں ہے،
ان کی یہ قیمتیں اگر حکومت نے مقرر نہیں کی تو کس نے مقرر کی؟ اور اس قیمت
کا تعین کس بنیاد پر کیا گیا؟
یہ ہے ان ادویات ساز کمپنیوں کی چال بازی اور استحصال، جو وہ بڑے دھڑلے سے
کر رہی ہیں۔ اس پر وہ گھاٹے کا واویلا کرتے ہوئے فریاد بھی کر رہی ہیں کہ
حکومت ان کے مسئلے پر توجہ نہیں دے رہی۔ چلیے مان لیا کہ آپ کا کاروبار
خسارے کا شکار ہے، حکومت نے بھی ان کے ’’درد‘‘ کا مداوا کرنے کی ٹھان لی
ہے، لیکن مارکیٹ سے جان بچانے والی اور دیگر ادویات غائب کرکے مریضوں کا جو
قتل عمد کیا اور انھیں اذیت سے دوچار رکھا جارہا ہے، اس پر حکومت ان سے
جواب طلب کیوں نہیں کرتی؟ جس حکومت تک ان کمپنیوں کے بین پہنچ گئے اس تک
مرتے اور کرب جھیلتے مریضوں کی آہیں اور کراہیں کیوں نہیں پہنچ پارہیں؟
دواؤں کی قیمت بڑھانے کے لیے ایک جواز یہ بنایا جارہا ہے کہ لاگت میں اضافہ
ہوگیا ہے۔ مگر حقیقت کچھ اور ہے۔ یہ بین الاقوامی دواساز ادارے اپنی دواؤں
کی مارکیٹ بنانے اور ان کی زیادہ سے زیادہ فروخت کے لیے ڈاکٹروں کو رجھانے
کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں۔ کسی ڈاکٹر کی ’’مارکیٹ ویلیو‘‘ دیکھتے ہوئے اسے
نوازا جاتا ہے۔ کمپنیاں اس مقصد کے لیے بھاری تن خواہوں پر بیسیوں کی تعداد
میں میڈیکل ریپریزینٹیٹیوز بھرتی کرتی ہیں۔ خوش نما ڈائریوں اور کیلینڈروں
کے تحفے، بین الاقوامی دورے اور فائیواسٹارز ہوٹلوں میں قیام وطعام جیسی
نعمتوں کے عوض ڈاکٹر کو صرف یہ عنایتیں کرنے والی کمپنی کا نسخہ مریضوں کو
تجویز کرنا ہوتا ہے، چاہے چالیس روپے لاگت والی اس دوا کی قیمت چار ہزار
روپے ہی کیوں نہ ہو، چاہے اس کے سائیڈ افیکٹس مریض کو کسی اور مرض میں
مبتلا کردیں، یہاں تک کہ وہ دوا مریض کے لیے غیرضروری ہو تب بھی اس کے سر
تھوپ دی جاتی ہے، اس عیش وعشرت کے بدلے میں جو کمپنیاں ان ڈاکٹروں کو فراہم
کرتی ہیں۔ یہ استحصال کا پورا جال ہے، جس میں غریب پاکستانی عوام جکڑے ہوئے
ہیں۔ دواؤں کی مارکیٹنگ کی مد میں ڈاکٹروں کو نوازنے کے اخراجات دواؤں کی
لاگت سے کہیں زیادہ قیمت کی صورت میں عوام سے وصول کیے جاتے ہیں۔ اگر یہ
اخراجات نہ ہوں تو عوام کو کہیں سستی ادویات میسر آسکتی ہیں، البتہ کمپنیوں
کی منافع خور گھٹ کر صرف جائز منافع میں تبدیل ہوجائے گی۔
ادویہ ساز کمپنیاں حکومت کی ایسی ہر کوشش میں روڑے اٹکاتی ہیں جو عوام کو
دوائیں سستے نرخوں میں فراہم کرنے کے لیے کی جائیں۔ مثلاً خطے کے ممالک
بھارت اور بنگلادیش، پاکستان کو ادویات سستے داموں میں فروخت کرنے کے خواہش
مند ہیں، جس سے ان کمپنیوں کی اجارہ داری ختم ہوسکتی ہے۔ چناں چہ شور مچایا
جارہا ہے کہ ان ممالک سے دوائیں درآمد نہ کی جائیں۔
یعنی ایک طرف خود دوائیں غائب کرکے عوام کو اذیت دی جارہی اور حکومت کو
بلیک میل کیا جارہا ہے، دوسری طرف سستی ادویہ کی فراہمی کی راہ میں رکاوٹیں
ڈالی جارہی ہیں۔ پاکستان فارماسیوٹیکل مینوفیکچررز ایسوسی ایشن (PPMA) نے
حکومت پر زور دیا ہے کہ ادویہ سازی کی صنعت کے تحفظ کے لیے اس صنعت کو
درپیش خدشات اور تحفظات مدنظر رکھتے ہوئے بھارت سے ادویات درآمد نہ کی
جائیں۔ گویا عوام کو سستی دوائیں نہ ملیں، کیوں کہ یہ کمپنیوں کے مفاد میں
نہیں، واہ صاحب واہ۔
ایک طرف دواؤں کی قیمتوں نے عوام کی زندگی اجیرن کی ہوئی ہے، دوسری طرف
مارکیٹ میں تیس سے چالیس فی صد جعلی دوائیں فروخت ہورہی ہیں اور ڈرگ
انسپکٹر اپنی جیبیں بھر کر موت کے اس کاروبار سے چشم پوشی کیے ہوئے ہیں۔
جعلی دوائیں نسبتاً سستی ہوتی ہیں، ان کے مقابلے میں ملٹی نیشنل کمپنیوں کے
دوائیں غریب کی دسترس سے باہر ہیں، چناں چہ لوگ سستی دوا سمجھ کر زہر خرید
لیتے ہیں۔ معیاری اور سستی دوائیں درآمد کرنے کی صورت میں عوام تک سستی
ادویہ کی رسائی ممکن ہوگی اور جعلی ادویات خود بہ خود بِکنا بند ہوجائیں
گی، لیکن لگ یہ رہا ہے کہ اس کے برعکس حکومت عوام نہیں کمپنیوں کے مفاد کو
مقدم جانے گی۔
حقیقت تو یہ ہے کہ ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی، قومی ڈرگ پالیسی بنانے کے قابل
ہی نہیں۔ یہ صحیح ہے کہ بین الاقوامی سطح پر ادویات کی قیمتوں میں اضافہ
ہوا ہے، لیکن ترقی یافتہ دنیا کے بیشتر ممالک بیماری کی صورت میں اپنے
شہریوں کے انشورنس کی سہولت دیتے ہیں، جس سے عوام کو ریلیف ملتا ہے اور
دواؤں کے نرخوں میں اضافہ ان پر اثرانداز نہیں ہوتا، لیکن پاکستان میں
دواؤں کی قیمتیں مزید بڑھانا مہنگائی کا بوجھ ڈھوتے پاکستانی عوام پر ظلم
ہوگا۔ خبروں کے مطابق حکومت ادویہ کی قیمتیں اٹھارہ فی صد تک بڑھانے پر
آمادہ ہوگئی ہے مگر کمپنیاں پچاس فی صد اضافے پر بضد ہیں۔ ادویہ ساز اداروں
کا پروپیگنڈا اور مارکیٹ سے دوائیں غائب ہونا بتا رہے ہیں کہ کمپنیوں نے
اپنا مقصد پورا ہونے کے لیے حالات سازگار بنالیے ہیں، اب یہ حکم رانوں پر
ہے کہ ثابت کریں کہ وہ عوام کے منتخب نمایندے ہیں یا ان کا راج ’’کمپنیوں
کی حکومت‘‘ ہے۔
پاکستانی عوام کسی صورت دواؤں کی قیمتوں میں اضافہ برداشت نہیں کرسکتے۔
تاہم اگر حکومت تمام حقائق نظرانداز کرکے ادویہ ساز غیرملکی کمپنیوں کو خوش
کرنے پر تُل ہی گئی ہے تو قیمتیں بڑھانے کے بہ جائے انھیں سبسڈی دی جائے۔
مگر سبسڈی دینے سے پہلے حکومت ان سوالوں کا جواب تلاش کرکے عوام کو آگاہ
کرے کہ دواؤں کی لاگت بڑھنے کہ پروپیگنڈے میں کتنی حقیقت ہے؟ مارکیٹنگ کی
مد میں بھاری اخراجات کا کیا جواز ہے اور اس مد میں خرچ ہونے والی رقم عوام
سے کیوں وصول کی جاتی ہے؟ اور اگر دواؤں کی قیمتیں گُذشتہ دس بارہ سال سے
نہیں بڑھیں تو آخر ہر کچھ عرصے بعد ہر دوا مارکیٹ میں مہنگی کیوں ہوجاتی
ہے؟ |