اسلام میں علماءو ائمہ کرام کو
رہبر و رہنما کا درجہ حاصل ہے مگر آج کے دورمیں دینی درس گاہوں اورمساجد کو
آباد رکھنے والوں کی حیثیت بندھوا مزدوروں کے مشابہ ہو کر رہ گئی ہے۔ جب تک
کوئی منتظمہ ارکان و کمیٹی کی چاپلوسی، غلامی نہ کرے، اہلِ محلہ کی ہر جائز
ناجائز بات نہ مانے، ان کی مرضی ہی کے مطابق درس یا خطبہ دے اور اپنی
روزمرہ زندگی کے معمولی کاموں کے لیے مقتدی حضرات کا دستِ نگر بن کر نہ رہے،
وہ امامت کے عہدے پر فائز ہو نہیں سکتا۔
مساجد مذہب و ملت کے ایسے عظیم الشان قلعے ہیں جن کے ذریعہ ہمیشہ سے اسلام
اور مسلمان دونوں کی حفاظت کی جاتی رہی ہے۔ان کی اہمیت و افادیت سے موجودہ
دور میں انکار کرناناممکن ہے، کیونکہ یہ ایک ایسا پلیٹ فارم ہے جہاں مسلمان
دن میں پانچ بار اکٹھا ہوتے ہیں اور جمعہ کے دن تو ایک بڑا اجتماع ہوتا ہے
،جس میں عوام الناس کی خطبہ جمعہ کے ذریعہ رہنمائی کی جاتی ہے ۔یہی وجہ ہے
کہ امریکہ کے ’تھنک ٹینک‘ نے مدارس و مساجد کو جن میں بظاہر قال اللہ و قال
الرسول ہوتا رہتا ہے ،بطور’ خطرہ‘ دوسرے نمبر پر رکھا ہے۔
بدقسمتی یہ ہے کہ ہم لوگ مساجد کی اہمیت و افادیت سے واقف نہیں ہیں ،
کیونکہ ہم نے بھی ہندﺅں کی طرح اللہ تعالی کو ایک طرح سے مسجد میں بند کر
رکھا ہے اور دن پانچ بار آتے ہیں ،تالا کھولتے ہیں ، سر ٹیکتے ہیں اور پھر
چل دیتے ہیں۔اسی لیے ہمیں نہ تو مسجدوں کی پرواہ ہے اور نہ ہی ان کے اماموں
کی۔
ہم اپنے امام کے پیچھے صرف نماز پڑھنا جانتے ہیں ، اس کے علاوہ ان سے کوئی
مطلب نہیں ہوتا یا دوسرے لفظوں میں رکھنا ہی نہیںچاہتے۔ہم اپنے اور اپنے
اہل وعیال کے لیے عید، بقرعید اور دوسری خوشیوں کے موقع پر اچھے سے اچھے
کپڑے بنواتے ہیں یا گھروں میں ہر طرح کے آرام و آسائش کی چیزیں فریج،کولر،
ٹی وی،کمپیوٹر اور انٹرنیٹ اور نہ جانے کیا کیا رکھتے ہیں ، ہر مہینہ
ہزاروں کے بجلی،کیبل اور انٹرنیٹ وغیرہ کے بل بھرتے ہیں مگر ہمیں یہ معلوم
کرنے کی توفیق نہیں ہوتی کہ اپنے محلے کے جس امام کے پیچھے نماز پڑھ رہے
ہیں ،اس کی زندگی کن مسائل اور پریشانیوں میں الجھی ہوئی ہے؟ ان کے بیوی
بچے کیا کھا پہن رہے ہیں ؟ان کی ضرورتوں کی تکمیل کس طرح سے ہو رہی ہے؟عید
و بقرعید میں انہیں تحفے دینا تو دور، کھانا کھلانے میں بھی جان جاتی ہے۔
ہاں اگر کچھ کرتے ہیں تو تنقیدیں کہ امام صاحب مسجد میں نہیں رہتے، مسجد کی
صفائی ستھرائی نہیں کرتے ،ٹیوشن پڑھانے چلے جاتے ہیں، فرضی رسیدیں چھاپ کر
چندہ کرنے نکل جاتے ہیں،’غیر قانونی‘ پیسہ کماتے ہیں، جھاڑ پھونک یا تعویز
کا پیسہ لیتے ہیں، سیاسی اسٹیج پر چلے جاتے ہیں امام صاحب یہ کرتے ہیں امام
صاحب وہ کرتے ہیںلیکن یاد رہے کہ سب ایسا نہیں کرتے ہیں۔ہاں کچھ ضرور ایسے
ہیں جو ھل من مزید کا نعرہ بلند کرتے ہوئے ذخیرہ اندوزی کرتے ہیں ، یقینا
وہ لوگ گناہ گار ہیں۔
سوال یہ ہے کہ امام حضرات ایسا کرنے پر کیوں مجبورہوئے؟؟کبھی اس پرغور کیا
گیا ہے؟اگر ایمانداری سے تجزیہ کر اجائے تو واضح ہو جائے گا کہ اصل مجرم
کون ہے؟اگر وہ کچھ غلط کرتے ہیں تو اللہ تعالی کے یہاں ان کی پکڑ ہوگی مگر
ہم اور آپ بھی نہیں بچ سکیں گے ، کیوں کہ ہم نے ہی ان کو اس حال میں
پہنچایا ہے۔
موجودہ دور میں مہنگائی آسمان کو چھو رہی ہے لیکن مساجد کے امام و موذن کی
تنخواہ آج بھی عمومی طور سے تین سے سات ہزار ہی تک ہوا کرتی ہے(الا
ماشاءاللہ) اتنی کم تنخواہ میں وہ کیسے اپنی اور اپنے بیوی بچوں کی خواہشات
و ضروریات کی تکمیل کر سکتا ہے؟؟ بلا شبہ ہمارے یہاں امام صاحب کو عزت کی
نگاہ سے دیکھا جاتا ہے مگرسماجی عزت و عظمت پیٹ کی آگ تو نہیں بجھا سکتی ۔ہم
ان کو جتنا چاہیں سر آنکھوں پر بٹھا لیں لیکن اگر ان کی بنیادی ضروریات ہی
نہ پوری ہو رہی ہوں تو کیا فائدہ ایسی عزت کا؟؟
دوسری بات یہ کہ ہم یہ چند ہزار بھی ایسے دیتے ہیں توباقاعدہ احسان کے ساتھ
گویا بھیک دے رہے ہوں۔جب امامت کے منصب کے لیے ’انٹریو‘لیتے ہیں تو اتنی
امیدوں کے ساتھ چھان پٹک کرتے ہیں کہ اتنی تو آئی ایس آفیسر کی بھی نہیں
ہوتی ہوگی۔امام مسحور کن قاری ہو، فقیہ ہو، باشرع ہو، وقت کا پابند ہو،
متقی و پرہیزگار ہو، خوش اخلاق ہو، فرماں بردار ہواور سب سے بڑھ کر ہاں میں
ہاں ملانے والا ہو اور اپنے کام سے کام رکھتا ہو۔ظاہر ہے کہ اتنی ساری
خصوصیا ت ایک بندے میں تو آنہیں سکتیں اور وہ بھی زیادہ سے زیادہ پانچ چھ
ہزار روپئے میں۔اسی کا نتیجہ ہے کہ اب باصلاحیت علماءامامت کو ترجیح نہیں
دیتے ہیں۔
عام طور پر اس میدان میں وہی لوگ آتے ہیں جوکم پڑھے لکھے ہوتے ہیںاور کسی
کام کے نہیں رہتے تو سوچتے ہیں کہ چلو امامت ہی کر لی جائے۔ بقول سید
ابوالاعلیٰ مودودیؒ ؒاب لوگوں میں امامت کا تصور یہ ہے کہ جو شخص دنیا کے
کسی اور کام کا نہ ہو،اس کو مسجد کا امام بن جانا چاہیے۔اس کا نتیجہ ہے کہ
ایسے لوگ امام بن گئے ہیں جو ”مصلحت، دور اندیشی ، احتیاط“ کے تحت متولیانِ
مسجد،کمیٹیوں ،ٹرسٹیوں اور محلے کے لوگوں کی کی چاپلوسی کرتے ہیں اور ان کی
پسند کے مطابق دین ایمان کی باتیں سناتے ہیں ورنہ اگر اچھے عالمِ دین کا
انتخاب کریں گے تو وہ ان کی پسند کا مال فروخت نہیں کرے گالیکن اس سے عوام
الناس کا جو نقصان ہوتا ہے وہ درج ذیل ہے:
مقتدیوں کی صحیح تربیت نہیں ہو پاتی ، وہ اسلام کے بنیادی مسئلے مسائل سے
واقف نہیں ہو تے، ان کی معلومات میں اضافہ نہیں ہوتا، خطبہ جمعہ کا حق اد
انہیں ہوتا، مسلکی اختلافات کو بڑھاوا دیا جاتا ہے اور امامت کا معیار گرتا
چلا جاتا ہے۔سب سے بڑا جو نقصان ہوتا ہے وہ یہ کہ عوام جب ان اماموں کی
مالی کمزوری دیکھتی ہے تو انہیں کمتر اور حقیر گمان کرتی ہے ،جس کی وجہ سے
ان کے وعظ و نصیحت پر کان نہیں دھرتی ہے بلکہ بعض دفعہ زیادتیوں پر بھی اتر
آتی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ اب علماءکرام کی ایک بڑی تعداد معاشی پریشانیوں سے تنگ آکر
اپنے بچوں کو دینی تعلیم دلانے کے بجائے عصری تعلیم دلا رہی ہے کہ جس طرح
سے ہم تمام عمر معاشی تنگی کا شکار رہے ہیں ،ویسے کم از کم ہمارے بچے نہ
ہوں۔
ہماری فکری گراوٹ کی یہ انتہا ہے کہ ہم دنیاوی علوم سکھانے والوں کے سارے
مطالبات پورا کرتے ہیں، انہیں منہ مانگی فیس دیتے ہیں اور اچھے سے اچھے
اسکولوں میں تعلیم دلاتے ہیں اور ٹیوشن،گیم، ڈریس فیس اور دیگر لوازمات کے
نام پر بخوشی پیسہ خرچ کرتے ہیں لیکن جب دینی تعلیم دلانے کی بات آتی ہے تو
مولوی یا امام صاحب کو اتنی معمولی فیس دیتے ہیں گویا بھیک دے رہے ہوں بلکہ
بعض تو مفت پڑھانے کا مطالبہ کرتے ہیں ۔ فزکس ، کیمسٹری ،میتھ اور انگریزی
کی ٹیوشن فیس جہاں ایک ہزار سے لے کر دو ہزار تک ہوا کرتی ہے ،وہیںقرآن ،
ناظرہ، دینیات اوراردووغیرہ پڑھانے کی فیس دو سو سے پانچ سو تک ہی دی جاتی
ہے وہ بھی کراہتے ہوئے۔پھر جب یہی لوگ مولوی، ائمہ مساجد پر تنقید اور طعن
و تشنیع کرتے ہیں تو ان کی بیمار ذہنیت پر ماتم ، بلکہ کرنے کا دل کرتا ہے۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ ائمہ مساجد کی تنخواہ کا معیار بلند کیا جائے تا کہ
ان کو کسی کے آگے ہاتھ نہ پھیلانا پڑے اور نہ ہی وہ کسی کی چاپلوسی کرنے پر
مجبور ہوں ۔اس سے یکسو ہو کر وہ دین اور اسلام کی اشاعت کا صحیح حق ادا کر
سکیں گے۔ پھر یہ بھی کہ اگر ہم لوگوں کی ذرا سی توجہ سے معاشرے یہ لوگ صاحبِ
حیثیت ہو جائیں اور ان کا بھی شمار معززین میں ہونے لگے تو لوگ ان کی باتوں
کو اہمیت دیں گے جس سے دین کی تبلیغ کا کام آسان ہو جائے گا۔ |