آل رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کی کفالت

ایک دردمندانہ تحریر

اس دور میں پوری دنیا میں اگر سب سے زیادہ مظلوم اور محروم طبقہ ہے تو وہ آل رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم ہے جس کی کفالت کا کوئی نظام موجود ہی نہیں اور وہ چودہ سو سال سے ان کے حق خمس کو ختم کر دیا گیا ہے۔اﷲ رب العالمین ہے اُس نے اگر عام انسانوں کی کفالت کا نظام جہاں زکواۃ کو فرض کر کے نافذ کیا ہے وہاں آل رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے لیے فریضہ خمس کی تنقید کے ذریعہ کفالت کا نظام بنایا لیکن اس نظامِ کفالت کو معدوم کر دیا گیا ہے۔اس کی اہمیت کو اجاگر کرنے اور اس نظام کی بحالی کے لیے ہم نے خمس کی فرضیت اور ادائیگی کو ایمان کا حصہ ثابت کیا ہے اور یہ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ اپنی ریاست کے تمام باشندوں کی کفالت و حفاظت کرے اور انفرادی طور پر بھی امت کے افراد اپنی آمدنیوں سے خمس نکالنے کے عند اﷲ پابند ہیں لہذا ہماری گذارش حکومت سے بھی ہے کہ وہ خاندان رسالت کے اس حق کو ادا کرنے کے لیے حکومتی بیت المال میں زکواۃ کی طرح شعبہ بنائیں اور انفرادی طور پر بھی لوگ خمس کی ادائیگی کو یقینی بنائیں تا کہ کفالت آلِ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم ہو سکے جو ان کی شناخت بھی ہے۔ہم علماء امت، دانشوروں اور سول سوسائٹی کے ذمہ داران اور انسانی حقوق کے علمبرداروں سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ آلِ رسولہ صلی اﷲ علیہ وسلم کے اس کفالت لے نظام کے لیے آواز بلند کریں اور نظام عدل کے ذمہ داران بالخصوص چیف جسٹس آف پاکستان سے گذارش کرتے ہیں کہ وہ سب سے محروم اور مظلوم طبقہ خاندانِ رسول اﷲ ﷺ کی داد رسی کرتے ہوئے حق خمس کو حکومتی بیت المال کا حصہ بنانے کے اقدامات کا حکم دیں۔

الخمس الخمس
فریضۂ خمس کا قانونی پہلو قرآن و حدیث کی روشنی میں بسم اﷲ الرحمان الرحیم واعلمواانما غنمتم من شیٔ فانّ ﷲ خمسہ وللرسول ولذ ی ا لقربیٰ والیتٰمیٰ والمساکین وابن ا السّبیل انکنتم آمنتم باﷲ وما انزلنا علیٰ عبدنا یوم الفرقان یوم التقی الجمعٰن،وﷲ علیٰ کل شیًٔ قدیر (الانفال ۴۱) ترجمہ،اور تمہیں معلوم ہو کہ جو کچھ مال غنیمت تم نے حاصل کیا ہے اس کا پانچواں حصہّ اﷲ اور اس کے رسول ﷺ اور رشتہ داروں اوریتیموں اور مسکینوں اور مسافروں کے لئے ہے ،اگر تم ایمان لائے ہو اﷲ پر اور اس چیز پر جو ہم نے اپنے بندے پر فیصلے کے روز یعنی دونوں فوجوں کے مڈبھیڑ کے دن نازل کی تھی(یعنی یہ حصہّ بخو شی ادا کرو) اﷲ ہر چیز پر قادر ہے۔یہاں مال غنیمت کے وہ اصول بتائے گئے ہیں جو تقسیم سے متعلق ہیں وہ یہ کہ مال غنیمت جو لڑائی کے بعد سپاہی لاکر پورے کا پورا یہاں تک کہ سوئی اور دھاگے تک امیر کے سامنے پیش کر دیں اور کوئی چیز چھپا کر نہ رکھیں اور اس مال میں سے پانچواں حصّہ الگ کر لیا جائے اور ان کے مصارف آیت کریمہ میں بیان کر دیئے گئے ہیں۔باقی چار حصّے مجاہدین میں تقسیم کر دیئے جائیں۔ جنہوں نے جنگ میں حصّہ لیا ہو ۔ چنانچہ رسول اﷲ ﷺ ہر لڑائی کے بعد اعلان فرماتے تھے کہ (ان ھٰذہٖ غنائمکم وانہ لیس لی، فیھا الا نصیبی معکم الخمس و الخمس، مردود علیکم فادوا الخیط والمخیط واکبر من ذالک واصغرولا تغلوا فان الغلول عار والنار۔) ترجمہ،یہ غنائم تمہارے ہی لئے ہیں میرا ان میں کوئی حصہّ نہیں بجز خمس کے وہ بھی تمہارے ہی اجتماعی مصالح پر خرچ کر دیا جاتا ہے ۔لھٰذاایک ایک سوئی ایک ایک دھا گہ بڑی یا چھوٹی چیز چھپا کر نہ رکھوایسا کر نا شرمناک ہے اور اس کا نتیجہ دوزخ ہے۔اس تقسیم میں اﷲ ارسولؐ کا حصّہ ایک ہی ہے اور اس کا مقصود خمس کا ایک حصّہ اعلا ئے کلمۃ اﷲ اور اقامت دین کے کام پرصرف کیا جائے ۔رشتہ داروں سے مراد نبی ﷺ کی زندگی میں تو حضور ﷺہی کے رشتہ دار تھے کیونکہ جب آپ سارا وقت دین اسلام کے کاموں میں صرف فرماتے تھے اور اپنی معاش کے لئے کوئی کام کرنا آپ کے لئے ممکن نہ تھا تو لا محالہ اس کام کا انتظام ہونا چاہئے تھاکہ آپ کی اور آپ کے اہل و عیال اور ان دوسرے اقرباء کی جن کی کفالت آپؐ کے ذمہ تھی ضروریات پوری ہوں۔اس لئے خمس میں آپؐ کے اقرباء کا حصّہ رکھا گیا لیکن اس امر میں اختلاف ہے کہ حضور ﷺ کی وفات کے بعد ذوی القربیٰ کا یہ حصّہ کس کو پہنچتا ہے ؟ ایک گروہ کی رائے ہے آپ کی وفات کے بعد یہ حصّہ منسوخ ہو گیا : دوسرے گروہ کی رائے میں یہ حصّہ حضورؐ کی وفات کے بعد اس شخص کو پہنچے گا جوحضور ﷺ کی جگہ خلافت کی خدمت سر انجام دے۔تیسرے گروہ کے نزدیک ہے کہ خمس کا یہ حصّہ خاندانِ نبوّت کے فقراء و مساکین میں تقسیم کیا جاتا رہے گا۔خلفائے راشدین کے زمانے میں اسی تیسری رائے پر عمل ہوتا تھا۔(تفہیم القرآن سورۃ الانفال آیت نمبر۴۱ حاشیہ نمبر۲۳ از سیّدابو الاعلیٰ مودودیؒ)تاہم امام ابو یوسفؒ نے کتاب الخراج میں نقل کیا ہے (عن الحسن بن محمد ابن الحنفیۃ قال اختلف النّاس بعد وفاۃ رسول اللّٰہ ﷺ فی ھٰذین السّھمین سھم الرسولﷺ وسھم ذوی القربیٰ فقال قوم سھم الرسولﷺ للخلیفۃ من بعدہٖ وقال آخرون سھم ذوی القربیٰ لقرابۃالرسول ﷺ ،وقالت طآئفۃ سھم ذوی القربیٰ لقرابۃ الخلیفۃ من بعدہٖ فاجمعواعلیٰ انّ جعلوا ھٰذین السّھمین فی الکراع والسّلاح(فیقول طبری فکاناعلیٰ ذالک فی خلافۃ ابی بکرٍ وعمر رضی اللّٰہ عنھما)ترجمہ:حسن بن محمد بن حنفیہ نے کہا ہے کہ لوگوں میں نبیؐ کی وفات کے بعد خمس کے دو حصّوں یعنی رسول اﷲ اور ان کے قرابت داروں کے حصص سے متعلق اختلاف پیدا ہو گیا، ایک گروہ کہتا تھا کہ رسول اﷲ ﷺ کے بعد ان کا حصّہ خلیفۂ وقت کو ملنا چاہئے اور کچھ لوگ اس حصّے کو رسول اﷲ ﷺ کے قرابت داروں کااستحقاق سمجھتے ہوئے برقرار رکھنا چاہتے تھے، اور ایک طبقے کی خواہش تھی کہ خمس کا یہ حصّہ خلیفۂ وقت کے خاندان کو ملنا چاہئے۔تاہم فیصلہ یہ ہوا کہ خمس کے مذکورہ حصّوں کو (سازوسامانِ جنگ) یعنی جہادی ضروریات کی خریداری کے لئے مختص کیا جائے ۔چنانچہ بقول طبری ؒکے خلافتِ ابی بکر و عمر رضی اﷲ عنھما میں اسی نہج پر عمل در آمد رہا۔(کتاب الخراج صفحہ نمبر ۲۴،۲۵ ،سنن نسآئی جلد ۲ صفحہ نمبر۱۷۹،کتب الاموال صفحہ نمبر۳۳۲،سنن بہقی جلد۶ صفحہ نمبر ۳۴۲،۳۴۳،تفسیر طبری جلد۱۰ صفحہ۶، احکام القرآن جلد ۳ صفحہ نمبر۶۲)حضرت ابن عبّاسؓ سے روایت ہے کہ خلیفۂ ثانی حضرت عمر ابن الخطابؓ ؓنے خمس میں سے کچھ بنو ھاشم کو دینا چاہا تو حضرت علیؓ نے اس پیش کش پر فرمایا(فابینا علیہ کلہ فابیٰ ان یعطینا کلہ،)لیں گے تو اپنا پوراحق لیں گے ورنہ کچھ نہیں لیں گے ابن عباسؓ کہتے ہیں جو حضرت عمرؓ دے رہے وہ ہمارے مسلمہ حق سے کم تھا(فرائیناہ دون حقاً فرددناہ علیہ وابینان نقبلہ(او،ترکناہ علیہ) ہم نے اس تجویز کو قبول نہیں کیا؟۔(مسنداحمد بن حنبل جلد ۱ صفحہ نمبر ۲۲۴،۳۲۰،سنن نسآئی جلد ۲ص ۱۷۷، کتاب الخراج امام ابو یوسفؒ ص۲۳،۲۴کتاب الاموال ابوعبیدہ ص۳۳۳)سنن بہیقی جلد۶ ص۳۴۴، ۳۴۵)خلفائے راشدینؓ کے زمانے میں غنائم سے خمس نکالنے اور اس کی تقسیم کا نظام کچھ تغیرّ کے ساتھ جاری رہا لیکن بنو امیّہ کے طویل دور حکومت میں خمس کو امراء و خلفاء کی اور ان کے خاندانوں کاحق بنا دیا گیا اور خاندانِ بنو ھاشم کا یہ مقرر کردہ حصّہ ختم کر دیا گیا اور خاندانِ رسالت ﷺ کی اس تخصیصی پہچان کو بھی زک پہنچائی گئی ۔تاہم پہلی صدی کے اختتام ۹۹؁ھ پر ایک دفعہ پھر سر کاری سطح پر مسئلہ خمس فکرو عمل کا موضوع بنا جبکہ اموی سلسلے کے سنبھلے ہوئے نیک بخت خلیفہ حضرت عمرؒبن عبد العزیز نے اقتدار سنبھالا جبکہ اس سے قبل ۹۴؁ھ میں ولید بن عبد الملک بن مروان متوفی۹۴؁ھ نے خمس کی ساری آمدنی اپنے بیٹے عمر بن ولید کے نام کر دی تھی۔ عمر بن عبد العزیزؒ نے اقتدار سنبھالتے ہی عمر بن ولید کو خط لکھا جس کا ایک حصّہ یہاں درج کیا جا تا ہے۔(وقسم ابیک لک الخمس کلہ وانما سھم ابیک کسھم رجلٍ من المسلمین وفیہ حق اللّٰہ حق الرسول ﷺ وذوی القربیٰ والیتامیٰ والمساکین وابن السبیل فما اکثر خصماء ابیک فکیف ینجومن کثرت خصماۂ اظھارک المعازف والمزمار بدعۃ فی الاسلام(سنن نسائی باب قسم الفئی جلد۲ ص۱۷۸)ترجمہ:تمہارے باپ نے ساری کی ساری خمس تمہارے حوالے کر دی حالانکہ تمہارے باپ کاحصّہ ایک عام مسلمان جتنا تھا اور پھر خمس میں تو اﷲ اور رسول ﷺ اور قرابت داروں یتیموں مسکینوں اور مسافروں کا ہے۔ تمہارے باپ نے کتنوں سے جھگڑا مول لیا ہے جس کے بہت زیادہ دشمن ہوں وہ کیسے بچ سکتا ہے اس کے علاوہ جو تمہیں گانے بجانے کی لت پڑ گئی ہے اور اس کا ڈھنڈورا پیٹتے ہو تمہیں معلوم ہونا چاہئے اسلامی نقطۂ نظر سے بدعت ہے۔امام ابو یوسفؒ فرماتے ہیں (انّ عمرا بن عبد العزیزؒ بعث بسھم الرسولؐ وسھم ذوی القربیٰ الیٰ بنی ھاشم: کتاب الخراج ص۲۵) ترجمہ: عمر بن عبد العزیزؒ نے رسول اﷲ ﷺ اور ان کے رشتہ داروں کا حصّہ بنو ھاشم کو بھیجوادیا تھا۔حضرت عمر بن عبد العزیزؒ کی حکومت اڑھائی سال رہی اور اسی دوران انہیں زہر دے کر شہید کر دیا گیا ان کے پھر وہی سب کچھ ہونے لگا جو پہلے سے چلا آتا رہا (خلا فت و ملوکیت ص ۱۹۱، ازمولانا سیّد ابوالاعلیٰ مودودیؒ) اس کے بعد ہزاروں سال سے خاندانِ رسالتؐ کی کفالت کا یہ حصّہ اور حق یاتو تجاہلِ عارفانہ سے یا پھرغفلت مجرمانہ سے غصّب کیاجارہا ہے جب کہ زکوٰۃ و صدقات کا نظام جو عام مسلمانوں کی کفالت کے لئے اﷲ تعالیٰ نے فرض کیا اور مصارف کی مدات بھی وضع کر دیں کسی نہ کسی طرح کبھی ریاستی سطح پر بھی اور انفرادی سطح پر بھی رائج ہے اگر چہ اس میں بھی بددیانتیاں ہوتی ہیں۔ (خمس کی اہمیت کا جائزہ) خمس در اصل ایک ایسا مالیاتی نظام ہے جو اسلامی ریاست کی انتظامی ضروریات کے ساتھ ساتھ رسول اﷲ ﷺ کے خاندان کے لئے خمس سے پانچواں حصّہ مختص کیا گیاہے اور حضرت ابو بکر صدیق ؓ کا فرمان ہے (فآلہٖ ﷺ لھم خوّاص،منھا حرمان الصدقۃ، ومنھا انھم لا یر ثونہ ومنھا استحقاقھم خمس الخمس ومنھا اختصاصھم با الصلاۃ علیھم) ترجمہ، آل رسول ﷺ کے لئے دو چیزوں میں اختصاص ہے ایک خمس سے پانچواں حصّہ اور ایک ان پر درود بھیجا جا نا،(قال رسول اﷲ ﷺان ھٰذہِ الصدقات انمااوساخ النّاس وانھا لا تحل لمحمد ولا لآل محمد : رواہ مسلم) ترجمہ:صدقات در اصل لوگوں کی میل ہو تی ہے اس لئے یہ محمد اور آلِ محمد کے لئے حلال نہیں ؟(قال النبّیﷺ لا احل لکم اھل البیت من الصدقات شیأًولا غسالۃالایدی․انّ لکم فی خمس الخمس ما یکفیکم او یغنیکم (ای بل یغنیکم) (رواہ الطبرانی فی محمد الکبیر)وعند الحنفیۃ لا تحرم الصدقۃالا علیٰ بنی ھاشم فقط) ترجمہ:حضور ﷺ نے فرمایا اے اہل بیت صدقات سے کوئی چیز لینا آپ پر حلال نہیں اور نہ ہاتھ کا دھوون بے شک آپ کی کفالت و ضروریات کے لئے خمس سے پانچواں حصّہ مقرر ہے ۔اور احناف کے نزدیک صدقہ صرف بنی ھاشم پر حرام ہے۔یہاں تک کہ تحصیل زکوٰۃ پر عاملین مقرر ہونے کی صورت میں بھی جائز نہیں البتہ بلا معاوضہ خدمات انجام دے سکتے ہیں۔(اہم نکتہ) خمس کی آمدنی سے پانچواں حصّہ جوصرف ایک فیصد بنتا ہے اورا مّت رسول ﷺ آل رسول ﷺکا یہ حق نہیں دے پارہی؟حالا نکہ زکوٰۃ و صدقات کی طرح خمس کاادا کرنا بھی فرض ہے البتہ ان کے قوانین میں فرق ہے۔ مصارف زکوٰۃ وصدقات آٹھ(۸) ہیں جس میں ساتویں (مد) فی سبیل ﷲ سے متعلق آئمہ سلف کی اکثریت اس رائے کی قائل ہے کہ کلمۂ حق کو بلند کر نے اور کلمۂ کفر کو پست کرنے کی جدو جہد کی ضروریات اورا ن کاموں پر معمورافراد کی کفالت پر زکوٰۃ کی مد سے صرف کیا جاسکتا ہے ۔اس سلسلے میں یہ بات قابل ذکرہے کہ نبیٔ کریم ﷺ نے اپنی ذات اور اپنے خاندان( یعنی بنی ھاشم)پرزکوٰۃ کامال حرام قرار دیا تھا وہ اور ان کے خاندان کے لوگ یہ کام رضاکارانہ طور پر کرتے تھے اگر بنی ھا شم کے لوگ صاحب نصاب ہوں تو ان پر بھی زکوٰۃ کی ادائگی فرض ہے جبکہ نادار ہونے کی صورت میں بھی زکوٰۃ لینا ان کے لئے حرام ہے۔ البتہ اس امر میں اختلاف ہے کہ خود بنی ھاشم کی زکوٰۃ بھی بنی ھاشم لے سکتے ہیں امام ابو یوسفؒ کی رائے ہے کہ لے سکتے ہیں لیکن اکثر فقہا ء کہتے کہ نہیں لے سکتے۔نبی کریم ﷺ نے ادائے خمس کو ایمان کا حصّہ قرار دیا۔ امام بخاری ؒ نے چار ابواب میں خمس کاتذکرہ کیا ہے ( کتاب الایمان)باب ، ادآء الخمس من الایمان)(۵)حدثنا علیّ ابن الجعد قال اخبرناشعبۃ عن ابی حمزۃ قال کنت اقعد مع ابن عبّاسؓ فیجلس علیٰ سریرہ فقال اقم عندی حتیٰ اجعل لک من مالی فاقمت معہ شھرین ثم قال انّ وفد عبد القیس لما اتوا النبی ﷺ قال من الوفد قالوا ربیعۃ قال مرحبا با لقوم اوبالوفد غیر خزایا ولا ندامیٰ فقالوا یا رسو ل اﷲ انا لا نستطیع ان نأتیک الا فی الشھر الحرام بینناو بینک ھٰذ الحیّ من کفارمضر فمرنابامر فصل نخبرہ بہ من ورآء ناوندخل بہ الجنّۃ وسألواہ عن الاشربۃ فامرھم با ربع ونھاھم عن اربع امرھم با لایمان با اللّٰہ وحدہ قالوا اللّٰہ ورسولہ اعلم قال شھادۃ ان لاالٰہ الا اللّٰہ وانّ امحمد رسول اللّٰہ واقام الصلوٰۃ وایتآء الزکوٰۃ وصیام رمضان وان تعطوا من المغنم الخمس ونھا ھم عن اربع عن الحنتم والدبآء والمقیر والمزفت وربما قال احفوا ھنّ واخبروابھنّ من ورآء کم(صحیح البخاری جلد ۱ ص۱۱۸) ترجمہ:خمس کا اداکرنا ایمان کا حصّہ ہے۔حضرت ابوحمزہ کا بیان ہے کہ میں ابن عباسؓ کے پاس بیٹھتا تو وہ مجھے اپنے تختِ(خاص) پر بٹھا لیتے۔ایک بار انہوں نے فرمایا تم میرے پاس رہ جاؤ میں تمہیں اپنے مال سے کچھ دیدوں گا ۔غرض میں ان کے پاس دو ماہ تک رہا۔فرمانے لگے قبیلۂ عبد القیس کے لوگ جب رسول کریم ﷺ کے پاس آئے توآپؐ نے فرمایا تم کس قوم سے ہو یا تم کس جماعت سے ہو۔ وہ بولے ہم ربیعہ کے خاندان سے ہیں، فرمایا خوش آمدیدجسے (رسوائی اور ندامت نہیں)انہوں نے عرض کیا ہم بجز ماہ حرام کے آپؐ کی خدمت میں حاضر نہیں ہو سکتے کیونکہ ہمارے اور آپ ؐ کے درمیان مضر( کافر) قبیلہ ہے لھٰذا آپ ؐ ہمیں کوئی ایسی چیز بتا دیں جو ہم اپنے ساتھیوں کو تعلیم دیں جو یہاں نہیں آئے اور ہم سب اس پر عمل پیرا ہوکر جنّت میں جا سکیں اور انہوں نے مشروبات سے متعلق بھی پوچھا ۔ آپ ﷺنے انہیں چار چیزوں کا حکم دیا اورچار چیزوں سے منع فرمایا ۔حکم یہ دیا کہ اﷲ وحد پر ایمان لائیں تم جانتے ہو کہ ایک اﷲ پر ایمان لاناکیا ہوتا ہے ؟ عرض کیا اﷲ اوراس کارسولؐ بہتر جانتے ہیں، فرمایا یہ کہ تم شہادت دو کہ اﷲ ایک ہے اس کے سوا کوئی بند گی کے لائق نہیں اور محمد ؐ اﷲ کے رسول ؐ ہیں ،نماز قائم کرو ،زکوٰۃ دو،اور رمضان کے روزے رکھواور اپنے مال غنیمت (فائدوں) سے خمس نکالا کرو :چار چیزوں سے منع فرمایا حنتم،دبآء،مقیر ،مزقت،یہ خاص قسم کے ظروف ہیں جو شراب نوشی کے لئے استعمال ہو تے تھے۔فرمایا انہیں یاد کرلو اور دوسروں کوتعلیم دو: کتاب کے حجم کو کم رکھتے ہوئے زکوٰۃ کے علاوہ ادائے خمس کے احکامات کے صرف حوالہ جات پر اکتفاء کیا گیا ہے تاکہ اصل کتابوں سے استفادہ کیا جائے۔ادائے خمس ایمان کا حصّہ قرار دیا گیا ہے اور زکوٰۃ کی طرح خمس کا ادا کرنا فرض ہے ملاحظہ کی جئے گا،کتاب العلم البخاری جلد ۱ ص ۱۳۴،کتاب اخبارالاحادبخاری جلد۱ ص ۷۸۹،صحیح مسلم ،جلد ۱ ص۹۳ تا۹۸ مطبوعہ لاہور،اسلامی انسائکلوپیڈیا ص۴۹۸، باب الایمان جامع تر مذیؒ حصّہ(و)ص۱۹۸ مطبوعہ لاہور،سنن ابو داوود جلد۳ ص۱۱۵،سنن نسائی جلد۳ ص۳۷۸،زیر عنوان اداء الخمس،کتاب الخراج ص۴۷۱،سنن ابن ماجہ جلد ۲ ص۹۴،۹۵ (باب من اصاب رکاز)جس میں کان،اور معدن، سے خمس نکالنے کا حکم ہے یہاں سواد اعظم اہل سنّت والجماعت کے علاوہ اہل تشیّع مجامع حدیث میں(وسائل الشیعۃ) شیعہ مکتبِ فکر کے متبحر محدث الشیخ محمد ابن الحسن الحّرا العاملی (متوفّی۱۱۰۴؁ھ نے روایات اہل بیت رسول ﷺکو مرتب کیا اور وسائلِ الشیعۃ کی چھٹی جلد میں زکوٰۃ اور خمس و انفال سے متعلق مختص ہے نیز خمس وانفال کا حصّہ جو پچاس صفحات اور پندرہ ابواب پر مشتمل ہے اور اس کے بارے میں ایک سواٹھاون احادیث مترتّب ہیں ۔ہم نمونے کے طور پر صرف ایک حدیث تحریر کرتے ہیں۔(محمد بن یعقوب عن علی بن ابراھیم عن ابیہ عن ابی عمیرعن الحسین بن عثمان عن سماعۃقال سألت ابا الحسن علیہ السّلام عن الخمس فقال:فی کل ما افاد النّاس من قلیلٍ او کثیر۔(وسائل الشّیعۃ جلد ۶ باب ۸ حدیث شمارہ ۹۵ ص۳۵۰)ترجمہ:محمد بن یعقوب علی بن ابراھیم سے وہ اپنے باپ سے وہ ابو عمیر سے وہ حسین بن عثمان سے وہ سماعہ بن مہران سے کہتے ہیں ایک مرتبہ انہوں نے امام موسیٰ کاظمؓ سے خمس کے بارے میں پو چھا امام نے جواب دیا ان تمام فائدوں پر جو انسان کو حاصل ہوتے ہیں کم ہوں یا زیادہ سب پر خمس واجب ہے۔حضور نبی کریم ﷺ نے بعض قبائل اور حکمرانوں کو(وثائق)خطوط لکھے ان میں بھی زکوٰۃ کے ساتھ اپنی آمدنیوں میں سے خمس نکالنے کے احکامات صادر فرمائے طوالت سے بچتے ہوئے ان خطوط کا متن نہیں لکھ پائے البتہ حوالہ جات کے لئے دیکھیں (الوثائق السیا سہ ڈاکٹر حمید اﷲ ص ۱۰۶،طبقات ابن سعد جلد ۱ ص ۲۳،۲۴، الاصابہ ، ابن حجر،اسد الغابہ)رسول اﷲ ﷺ کے عہدِ مبارک کی کم از کم اٹھارہ تحریریں ایسی ہیں جن میں خمس کی ادائگی کا حکم دیا گیا ہے اور اموال غنیمت میں (الرکاز،کان،معدن) سیوب دفینہ وغیرہ سے خمس کا نکالنا ضروری قرار پایا ۔خمس سے متعلق حضرت عمر ؓ ابن الخطاب کا یہ قول کہ( انّ عمر ابن الخطابؓجعل المعدن بمنزلۃ الرّکاز فیہ الخمس سنن بہقی جلد ۴ ص ۱۵۴ ) ترجمہ! عمر ابن الخطابؓ نے معدنیات کو دفینہ جیسا قرار دیا اور جس میں سے خمس نکالنا واجب ہے حضرت ابو یوسف ؒ فرماتے ہیں (فانّ ما یخرج من البحر من حلیۃٍوالعنبر ففیہ الخمس) کتاب الخراج ص ۸۳) ترجمہ! جو چیزیں سمندر سے نکلتی ہیں جیسے زیبائش کی اشیاء یا عنبر وغیرہ ان پر خمس واجب ہے۔یہ تو تھا خمس کے وجوب کا اجمالی جائزہ اب لفظ غنیمت کے لغوی اور قانونی پہلؤں کو قرآن و حدیث کی روشنی میں جانچیں گے تاکہ اس اہم ترین مالی عبادت کوفرضیت کے تناظر میں لیا جائے۔ اﷲ تعالیٰ نے زکوٰۃ کی طرح خمس کی ادائگی کو بھی فرض قرار دیا۔اسی لئے رسول اکرم ﷺ نے اجتماعی یاانفرادی طور پر زکوٰۃ کی وصولی یا ادائگی کے ساتھ خمس کی وصولی یا ادائگی کے احکاما ت صادر فرمائے ) (غنیمت) لغت و فرہنگ،عربی زبان اور ادب کے پورے زخیرے میں ,,غ ․ن ․م،، کے حرفوں سے بنے ہوئے صرف دو اصلی لفظ ملتے ہیں ایک,, غَنَم،، بر وز نِ صنم اورغـنم ، اسے حکم کے وزن پر سمجھ لیجئے۔لغت کے ایک بڑے عالم ابن منظور افریقی اپنی شاہکار تصنیف لسان العرب میں لکھتے ہیں غنم غین پر پیش کے ساتھ اسم ہے اور زَبر ہو تو مصدر ہے (لسان العرب جلد ۱۵) لفظ غنم بھیڑ بکریوں کے لئے مخصوص ہے اور قر آن مجید میں تین مقامات پر اسی مفہوم کے لئے استعمال ہوا ۔سورۃ الانبیاء آیت نمبر۷۸، الانعام۱۴۶، طٰہٰ ۱۸ رہا لفظ ، غنم،اس کے مشتقات یعنی وہ الفاظ جو, غنم،سے بنے ہیں،جیسے غنیمت، غنیم،غنائم۔غانم،غنمان،اور مغانم،وغیرہ یہ تمام الفاظ عام طور پر ہر طرح کی نفع اندوزی کاروباری فوائد حصّے سے زیادہ ہاتھ آنے والے مال نیز حرص وطمع کے معنی دیتے ہیں۔غنم․ کے قبیلے سے تعلق رکھنے والے الفاظ عربی قواعد اورمزاج اور اس کے تقاضوں کے مطابق قرآنِ پاک میں اپنی مختلف شکلوں کے ساتھ چھے آیات میں استعمال ہوا ہے ۔(الانفال ۴۱ تا۶۹،النسآء۹۳،الفتح ۱۵،۱۹،۲۰) لیکن سب کا مطلب و مفہوم ایک ہی ہے۔غنیمت وغنم کے لفظوں کا مطلب پانچویں صدی ھجری کے لغت شناس مفسر و امام راغب اصفہانی ؒ اپنی شہرۂ آفاق کتاب (المفردات العرب فی غریب القرآن ص۳۷۲ مطبعہ میمنیّہ مصر ۱۳۲۴ ؁ ھ میں ․غنم․کے زیر عنوان لکھتے ہیں بھیڑ بکریوں کو ․ غنم ․کہتے ہیں یہ مشہور لفظ ہے اور وہ سورۃ الانعام کی آیت نمبر ۱۴۶ ، کو زیر بحث لاتے ہوئے رقمطراز ہیں کہ اﷲ رب العالمین نے ,, بقر،،کے ساتھ ․غنم․کا لفظ بھی استعمال فرمایا ہے ۔ بھیڑ بکریوں کے مل جانے یا جیت لینے کو غنم کہتے ہیں۔ بعد ازاں اس لفظ کو اس مال و متاع کے لئے بھی استعمال کیا جانے لگا جو جنگ کے ذریعے دشمنوں سے ہاتھ لگ جائے یا دیگر ذریعوں سے حاصل ہو۔مجد الدین ابو السعادت المبارک,, المعروف! ابن اثیر جزری ؒ,غنیمت ،کے لفظ سے متعلق لکھ تے ہیں کہ دار الحرب کے کافروں سے جنگ کے نتیجے میں حاصل شدہ مال کو ,غنیمت، تو کہتے ہی ہیں لیکن اس ذات کے تمام الفاظ یعنی ,(غنیمت،)اور اس سے بننے والے الفاظ کسی چیز کے اضافے طمع و لالچ حرص وہوس اور ہوَ کے لئے استعمال ہوتے ہیں۔ جیسے حدیث میں آتا ہے(الصوم فی الشّتآء الغنیمۃالباردۃ)ترجمہ! سردیوں کا روزہ بغیر زحمت کے (غنیمت) ہے ۔ مزید رہن سے متعلق ارشاد نبوی ﷺ ہے (الرھن لمن رھنہ ،لہ غنمہ،وعلیہ عزمہ،زیادتہ ونماۂ وفضل قیمتہ )ترجمہ! یعنی کوئی چیز گرویں ہو تو اس کا فائدہ اور نقصان گرویں رکھنے والے کو پہنچے گا۔یہاں ,غنم،سے فائدے کے تناسب اور قیمت کی شرح میں اضافہ مقصود ہے(النھایۃ فی غریب الحدیث الاثر جلد ۳ ص ۱۷۳)نکتہ!حدیث میں ․(غنم ․ )کے لفظ کولفظِ (عزم) کے مقابلے میں استعمال کیا گیا ہے جو ہر قسم کے گھاٹے اور نقصان کے لئے بولا جاتا ہے ، اسی طرح ( غنم،اور غنیمت)کو ہر طرح کے نفع اور فائدے کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔ اب ہم (غنیمت) کے قبیل کے استعمال ہونے والے الفاظ (غنیمت، مغنم،غنائم، غنیم،غنم،غنمان) لڑائی میں کفار سے حاصل ہونے والے مال و متاع کے علاوہ ہر طرح کے فائدے ،ثواب،اور معاوضے کے لئے بھی استعمال ہوتے ہیں۔اسلئے علمائے لغت نے اس پر سیر حاصل بحث کی ہے ہم صرف یہاں حوالے ذکر کرتے ہیں اصل مقصد اس کے قانونی پہلؤوں کو اجاگر کرنا ہے۔ملاحظہ کیجئے گا ( ساتویں صدی ھجری کے ابن منظور افریقی، لسان العرب فصل الغین حرف المیم، جلد۱۵ مطبوعۃ بولاق)ابن یعقوب فروز آبادی کی (القاموس المحیط فصل الغین ،باب المیم، جلد۴ طبع دارالجلیل،بیروت) مجمع الغۃ العربیۃ،کی نگرانی میں مرتب شدہ چار جلیل القدردانشور وں کی (المعجم الوسیط ص۶۶۴ جلد ۲ مطبوعہ قاہرہ)دور جدید کی مقبول ترین لغت ( الاب لویس معلوف الیسوعیکی کتاب (المنجد) ص ۵۶۱)سترواں اڈیشن۔جبران مسعود کی محنتوں کاثمرہ اور دار الملائین ،کی پیش کش (الرآئد، مادۃ الغنیمۃ جلد ۲ ص ۱۰۹۰)اڈیشن ۴ طبع بیروت۔بہر کیف (غنیمت) صرف جنگ میں کفار سے حاصل شدہ مال و متاع کو ہی نہیں کہتے بلکہ یہ لفظ دیگر قرآنی قوانین کی طرح عموم پر ہے۔اور یہ لفظ لغت کے اعتبار سے کام ،کاج، صنعت وحرفت،انعام و اکرام،تلاش وجستجو،یا اتفاقات کے سلسلے میں ہر طرح کی آمدنی و نفع،یا بچت کو عربی زبان میں (غنیمت ،)کہتے ہیں۔لفظِ (غنیمت)سے متعلق قابل قدر مفسر قرطبیؒ یوں بیان کرتے ہیں(الغنیمۃ فی الغۃ ماینالہ الرجل و الجماعۃ بسعیٍ والاتفاق حاصل علیٰ انّ المراد بقولہ تعالیٰ (غنمتم من شیٔ ․․․الخ، مال الکفاراذا ظفر بہ المسلمون علیٰ وجہ الغلبۃ وال قھر ولا تقتضیٰ اللغۃ ھٰذا التخصیص ولٰکن عرف الشرع قیّد اللفظ بھٰذاالنوع)( الجامع الاحکام القرآن قرطبیؒ جلد۸ ص ۱)ترجمہ! زبان کے لحاظ سے تو انفرادی یا اجتماعی سعی و کوشش سے حاصل کی ہوئی کسی چیز کو (غنیمت) کہتے ہیں ! مگر اﷲ تعالیٰ کے ارشاد: (واعلموا انّما غنمتم من شیٔ․․․․الخ،) کے بارے میں سب ہم خیال ہیں کہ زور بازو اور نوکِ شمشیر سے کافروں سے حاصل ہونے والا مال و متاع کو (غنیمت) کہتے ہیں۔حالانکہ یہ بندش ادبی مزاج اور زبان و بیاں سے کوئی مطابقت نہیں رکھتی مگر عرف شرع نے اس لفظ کو جکڑ کر رکھ دیا ہے( الاماشآء اﷲ)حقیقت میں ریاست ہا کا نظام مالیات جس کو موجودہ دور میں حکومتی خزانہ کا نام دیا جاتا ہے لوگوں سے ٹیکس کے نام سے وصولیاں کی جاتی ہیں اوراپنی آمد نیاں چھپاتے ہیں تاکہ ٹیکس نہ دیا جا سکے۔اس طرح ریاست مالی اعتبار سے کمزور اوربین الاقوامی سودی نظام کی مقروض ہوتی ہے اور سودی نظام ریاستوں کو کھوکھلا کردیتا ہے۔خمس کی خصوصیت یہ ہے کہ قدرتی وسائل کے ساتھ ساتھ ریاست کے باشندوں کی انفرادی آمدنیوں سے بھی وصول کیا جاتا ہے جبکہ زکوٰۃ ضرورت سے زیادہ مال جوسال بھر کسی فرد کے پاس موجودرہنے کی صورت میں وصول کی جاتی ہے اور اس کے مصارف وہی ہیں جس کا تعیّن اﷲ تعالیٰ نے کیا ہے ۔جبکہ خمس ریاستی بیت المال کا حصّہ ہوتا ہے اس سے چار حصّے ریاستی امور با لخصوص دفا عی ضروریات کے حصول کے لئے صرف کئے جا تے ہیں۔حضرت عمر بن الخطابؓ کے دور خلا فت میں اس پر عمل ہوتا رہا۔اس طرح خمس کا پانچواں حصّہ یعنی خمس کی کل آمدنی کا ایک فیصد خاندان رسول ﷺ کے لئے مختص ہے جس کا ادا کر نا اورآلِ رسول ﷺ کے حقداروں تک پہنچانا ریاست کی ذمہ داری ہے اور انفرادی حیثیت میں بھی خمس کے چار حصّے ریاست کے مقرر شدہ عاملین کو اور ایک حصّہ خاندان رسول ﷺ کو ادا کریں ایسی صورت میں جب کہ اس کاعلم ہو کہ ر یاست خاندان رسول ﷺ کا حصّہ ادا کرنے میں تساہل برت رہی ہے ورنہ زکوٰۃ و خمس کے وصول کرنے کی ذمہ داری ریاست ہی کی ہے اور خمس کا پانچواں حصّہ یعنی خمس کی کل آمدنی کا ایک فیصد آلِ رسول ﷺ تک پہنچانے کی پابند بھی ہے۔(غنیمت) قرآن وحدیث اور رسول کریم ﷺ کی مختلف وفود کو ہدایات، رسائل و وثائق، آئمہ اہل بیتؓ کی روایات و فتاویٰ ، خلفائے راشدینؓ کے علاوہ حضرت عمر بن عبد العزیزؒ کے دور حکومت میں خمس میں سے خاندان رسالت ﷺ کا حصّہ ادا کر نے کے طرز عمل ،مفسرین کی تشریحات ،فقہاء ،کی آراء اور محدثینِ اہل سنّت و اہلِ تشیّع کی روشنی میں یہ ثابت ہے کہ یہ لفظِ ( غنیمت) وسیع تر مفہوم رکھتا ہے یہ صر ف کفار سے جنگ کی صورت میں حا صل شدہ مال کے لئے ہی نہیں استعمال کیا جاتا بلکہ ہر طرح کی آمدنی اور قدرتی وسائل معدنیات زمین کے اندر کے زخائر دفینے کام کاج،صنعت و حرفت،انعام و اکرام،تلاش و جستجو،اتفاقات کے سلسلے میں ہر طرح کا نفع ،آمدنی،یا بچت، کوعربی زبان میں (غنیمت)کہا جاتا ہے۔لھٰذا اس کو محدودمعنے پہنانے سے ایک فریضے سے دست بردار ہونے کے مترادف ہے۔آخر میں علمائے آلِ رسول ﷺ کی ذمہ داری ہے کہ وہ جس اسلامی ملک میں بھی رہتے ہوں وہاں ریاست کو آمادہ کریں کہ خمس کی وصولی کو یقینی بناکر حکومتی بیت المال کا حصّہ بنایا جائے ملکی باشندوں سے ٹیکس کی بجائے خمس وصول کی جائے یہ ٹیکس سے زیادہ آمدنی کا ذریعہ ہے اور ریاست کی کل آمدنی سے خاندان ِرسول ﷺ کو ایک فیصدادا کرنے کا اہتمام کیا جائے اورحکومتی بیت المال کا ایک شعبہ قائم کیا جائے جس میں قانوناً خمس کی آمدنیوں سے پانچواں حصّہ یعنی ایک فیصد خود بخود منتقل ہو جایا کرے اور نظام زکوٰۃ کی طرح حقداروں تک پہنچانے کا اہتمام کیا جائے۔بالخصوص پاکستان میں آل رسول ﷺ کی مشکلات قابل توجہ ہے۔ہزاروں سال سے آل رسول ﷺ حقِ خمس سے محروم ہے یہ صرف استحقاق ہی نہیں بلکہ ان کی پہچان بھی ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے رب العالمین کی حیثیت سے جہاں آل رسول ﷺ کے لئے زکوٰۃ کو حرام قرار دیا وہان ان کی کفالت کے لئے متبادل انتظام کرتے ہوئے الخمس کا پانچواں حصّہ مقرر فرمایا ۔جس کی ادائگی انفرادی طور پر بھی اور حکومتی سطح پر بھی واجب ہے جو اصل میں فرض ہے۔مستحقین آلِ رسول ﷺ بھی گیارویں کے نام پر دیا جانے والا صدقہ اپنا حق سمجھ کر لینے سے گریز کرتے ہوئے لوگوں سے اپنا اصل حق خمس سے پانچواں حصّہ وصول کریں اور لوگوں کو باور کرائیں کہ آپ کی آمدنیوں سے خمس کا پانچواں حصّہ ہمارا حق اﷲ نے مقرر کیا ہے جس کا ادا کرنا فرض ہے۔ اﷲ رب العالمین کی توفیق سے الخمس و الخمس کے دھند لے پہلؤں کو صاف کرنے کی کوشش کی گئی تاکہ اس اہم فریضے کی اہمیت اجاگر ہو با لخصوص آل رسول ﷺ کی پہچان سے روشناس کیا جائے اورآل رسول ﷺ کے مالی استحقاق کے حصول کے لئے تحقیقی بنیاد فراہم کی جائے ۔(وما توفیقی الا با اللّٰہ) (واٰتی المال علیٰ حبّہ ذوی القربیٰ والیتٰمیٰ والمسٰکین وان السّبیل لا والسّآئلین وفی الرّقاب واقام الصلوٰۃ واٰتیَ الزّکوٰۃ ج والموفون بعہدھم اذا عٰھدواج والصٰبرین فی البأ سآء والضّرّآء وحین البأس ط اولٰٓئک الذین صدقوا ط وَالٰٓئکَ ھم المتّقون(البقرۃ ۱۷۷)ترجمہ ! اور اﷲ کی محبت میں اپنے رشتہ داروں ، یتیموں، مسکینوں ،مسافروں،مدد کے لئے ہاتھ پھیلانے والوں، اور غلاموں کی رہائی پر خرچ کرے،نماز قائم کرے ،زکوٰۃ دے،اور عہد کرنے کے بعد عہد کی وفا کریں ،تنگی اور مصیبت،اور حق و باطل کی جنگ میں صبر کریں ،یہ ہیں راست باز لوگ اور یہی لوگ متقی ہیں۔(نوٹ) اسی آیت کی بنیاد پر بعض فقہاء ومفسرین بنو ھاشم کی زکوٰۃ بنو ھاشم کے مستحقین پرصرف کرنے کا جواز فراہم کر تے ہیں۔یہ آیت کریمہ بھی عمومی احکامات پر مشتمل ہے۔ (واﷲ اعلم) ربّنا تقبّل مّنا انّک انت السّمیع العلیم)

Muzaffar Bukhari
About the Author: Muzaffar Bukhari Read More Articles by Muzaffar Bukhari: 23 Articles with 33439 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.