قدیم زمانے سے ہی لوگوں میں تفریح کا تصور
پایا جاتا رہا ہے۔ اسی لیے ہر قوم اپنی تہذیب و تمدن کے لحاظ سے اس کا
اہتمام مختلف شکلوں میں کرتی رہی ہے۔جیسے رقص و سرور،ڈرامے،موسیقی،گانے اور
مختلف طرح کے کھیل کو دوغیرہ۔
موجودہ دور میں مغربی ایجادات نے جیسے ڈش انٹینا،کیبل،ٹیلی ویژن ، کمپیوٹر
اور انٹرنیٹ جن کو ذرائع ابلاغ بھی کہا جاتا ہے تفریح کے تصور کو بہت وسیع
اور رنگین بنا دیا ہے۔ان کے ذریعہ پیش کی جانے والی فلمیں ، کارٹونس، کھیل،
گانے، فیشن شو، ٹی وی شواور مختلف طرح کے فحش ایپی سوڈ وغیرہ کو بھی تفریح
کا نام دیا گیا ہے۔اس وقت سب سے بڑی جنگ ذرائع ابلاغ کے ذریعہ تہذیب وتمدن
عقیدہ اور اخلاق کے میدان میں لڑی جارہی ہے اور یہ مسلمانوں کے ٹی وی لاؤنج
اور خواب گاہوں تک پہنچ چکی ہے جس کے ذریعہ تفریح کے نام پرمغربی اور ہندو
تہذیب و ثقافت کو فروغ دیا جارہا ہے۔
تفریح کی تعریف: یہ دراصل عربی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی گپ شپ، دل لگی ،
ہنسی مذاق ،خوشی و مسرت ، فرحت ا ور اطمینان وغیرہ حاصل کرنے کے آتے ہیں۔
اگر یہ فرحت محض قلبی خوشی ہو اور اللہ کی نعمتوں کے احساس اور اس کے فضل
وکرم کے استحضار پر مبنی ہو تو وہ شرعاً مطلوب،مستحسن اور پسندیدہ ہے۔ اللہ
تعالیٰ کا ارشاد ہے:
قل بفضل اللہ و برحمتہ فبذالک فلیفرحوا (یونس:۵۸)
”آپ ﷺ کہہ دیجیے کہ یہ اللہ تعالیٰ کے فضل اور مہربانی سے ہے، تو چاہیے کہ
وہ لوگ خوش ہوں“
موجودہ دور میں ذرائع ابلاغ عوام الناس کو تفریح فراہم کرنے میں اہم کردار
ادا کر رہے ہیںلیکن ان پر مغرب کا قبضہ ہے جن کے یہاں تفریح کا محور صرف
اور صرف” شراب ، عورت اور موسیقی“ ہے۔
مغرب میں تفریح کا تصور: مغربی ذرائع ابلاغ تفریح اور کھیل کے نام پر
عریانی و فحاشی، بے ہنگم موسیقی، شراب نوشی، جوئے بازی ، لاٹری ، فحش ایپی
سوڈ،مخلوط مجالس، اور گرل فرینڈ/بوائے فرینڈ کا تصورپیش کرتے ہیں جس سے
معاشرے میں حرص و ہوس، صحت و اخلاق کی خرابی ، ذہنی بے سکونی اور جنسی پیاس
میں اضافہ ہوتا ہے۔ ان کو’ آرٹ یا فن‘ کا نام دیا جاتا ہے اور اعلی تہذیب
کی نشانی سمجھا جاتا ہے۔ جس کا نمونہ وہ مختلف طرح کی پارٹیوں ،کرسمس ڈے،
ویلینٹائن ڈے اور نئے سال کی آمدوغیرہ پر پیش کرتے ہیں۔ ان تمام چیزوں نے
عوام الناس میں اخلاقی بے راہ روی، دین و اخلاق سے بے زاری اور خاندانی
نظام کو ختم کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔جس کی مثال خود مغربی معاشرے ہی
میں دیکھی جا سکتی ہے۔
خود ہمارے یہاں نوجوانوں کا دین ،اخلاق اور صحت و توانائی برباد ہو رہی ہے۔
بچے قبل از وقت جوان ہو رہے ہیں اور اپنے نا پختہ ذہن و شرم کی وجہ سے وہ
والدین یا دوسرے اعزہ و اقارب کو بتا بھی نہیں سکتے ۔ان کے والدین ان کو
معصوم سمجھ کر غافل رہتے ہیں۔اس وقت مسلم نوجوان لڑکے لڑکیوں کے آئیڈیل
ہیرو اور ہیروئن ہیں۔ ان کی ہی نقل کی جاتی ہے ، ان کے جیسا لباس، حلیہ،
بات چیت اور طور طریقہ اپنانے کی کوشش کی جاتی ہے۔دیکھا جائے تو لڑکوں نے
نازک اداؤں اور بننے سنورنے میں لڑکیوں کو بھی مات کر دیا ہے۔ظاہر ہے ان سے
دین کی اشاعت و تبلیغ تو دور فسادات میں اپنا دفاع کرنے اور ماؤں بہنوں کو
بچانے کی امید کیوں کر کی جا سکتی ہے؟؟
اسلام میں تفریح کا تصور: اسلام کا تصور تفریح قرآنی تعلیمات اور احادیثِ
نبوی پر مبنی ہے۔ جس میں حلال و حرام، شرم و حیا اور اخلاقی پابندیوں کو
اہم مقام حاصل ہے۔ زندگی کا کوئی بھی ایسا گوشہ نہیں ہے جس کے لیے واضح
ہدایات نہ دی گئی ہوںکیوں کہ اللہ تعالی نے انسانوں کی اشرف المخلوقات
بنایا ہے ۔
یہی وجہ ہے کہ تفریح کے لیے بھی قرآن و حدیث میں کچھ رہنما اصول موجود ہیں۔
ہمارے لیے نبیِ کریم کی زندگی نمونہ ہے۔آپﷺ جہاں ایک طرف اتنی نمازیں پڑھتے
تھے کہ قدمِ مبارک پرورم آجاتا تھا وہیں آپﷺ صحابہ کرام سے ہنسی مذاق اور
دل لگی بھی کرتے تھے۔
وجہ یہ ہے کہ اسلام سستی اور کاہلی کو پسندنہیں کرتا بلکہ چستی اور خوش
طبعی کو پسند کرتا ہے۔ شریعت کی تعلیمات اس امر کا تقاضہ کرتی ہیں کہ
مسلمان شریعت کے تمام احکام پر خوشی خوشی عمل کرے۔ یہ عمل تنگ دلی کے ساتھ
نہ ہوں کیوں کہ سستی اور تنگ دلی کے ساتھ عبادات کو انجام دینا نفاق کی
علامت ہے۔ ارشاد باری ہے:
واذا قاموا الی الصلوة کسالیٰ (النساء:۱۴۲)
”کہ منافقین جب نماز کے لیے کھڑے ہوتے ہیںتو سستی کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں“
سستی اور کاہلی بے جا فکرمندی اتنی ناپسندیدہ چیز ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ
وسلم نے ان امور سے پناہ مانگی ہے۔اسی لیے آپﷺ دعا فرماتے تھے:
اللھم انی اعوذ بک من الھم و الحزن(سنن ابی داو ¿د)
”خدایا میں تیری پناہ مانگتا ہوں پریشانی اور غم سے“
صحابہ کرام بھی آپس میں ہنستے کھیلتے اور دل لگی کی باتیں کرتے تھے۔ اس لیے
ہنسی مذاق اور تفریح کرنا کوئی ناجائز کام نہیں بشرط کہ اسے مستقل عادت نہ
بنا لی جائے کہ آدمی اپنی ذمہ داریوں سے غفلت برتنے لگے اور یہ بھی مناسب
نہیں کہ لوگوں کو ہنسانے کی خاطر جھوٹ سے کام لے ۔ حدیثِ نبوی ہے :
” تباہی ہے اس شخص کے لیے جو لوگوں کو ہنسانے کی خاطر جھوٹی باتیں کرتا ہے
۔ اس کے لیے تباہی ہے ۔ اس کے لیے تباہی ہے “۔(ترمذی :۵۱۳۲)
اسی طرح یہ بھی صحیح نہیں کہ وہ لوگوں کی قدر ومنزلت اور عزت کا خیال نہ
رکھے اور ان کا مذاق اڑانے لگے۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے:
یا ایھا الذین آمنوا لا یسخر قوم من قوم عسیٰ ان یکونوا خیراً منھم ولا
نسآءمن نسآءعسیٰ ان یکن خیراً منھن (الحجرات:۱۱)
”اے ایمان والو! مرد دوسرے مرد کا مذاق نہ اڑائیں ممکن ہے کہ یہ ان سے بہتر
ہو اور نہ عورتیں عورتوں کا مذاق اڑائیں ممکن ہے کہ یہ ان سے بہتر ہوں“
اسلام کے تصور تفریح کا مقصد صرف وقت گزاری نہیں ہے بلکہ اس نے عملی،
تربیتی عسکری اور جسمانی ورزش کے مقاصد بھی مد نظر رکھے ہیں۔ تفریح کے نام
پر جھوٹ، تہمت، مبالغہ آمیزی اور دوسروں کی نقل اتارنے کی اجازت نہیں دی
ہے۔اس کے علاوہ یہ بھی کہ اسلام نے ان مجلسوں میںشرکت کرنے سے روک دیاجس
میں انسان اس قدر منہمک ہوجائے کہ اسے نماز ودیگر فرائض کا پاس وخیال نہ
رہے یامردوزن کا بے محابا اختلاط ہو۔
اسی لیے اسلام نے تفریح اور کھیل میں سے صرف انھیں کی اجازت دی ہے جو
جسمانی یا روحانی فوائد کے حامل ہوںاورجو محض تضیعِ اوقات کا ذریعہ ہوں،
فکرِ آخرت سے غافل کرنے والے ہوںیا دوسروں کے ساتھ دھوکہ فریب یا ضررسانی
پر مبنی ہوں،ان کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔
موجودہ دور کے چندرائج کھیل: بعض تفریح کے ذرائع اور کھیلوں کی احادیث و
آثار میں صریح ممانعت کی گئی ہے کہ وہ سب ناجائز ہیں جیسے تاش،نرد،چوسر،
شطرنج، کبوتربازی، جانوروں کو لڑانا،باکسنگ اور بل فائیٹنگ وغیرہ۔
رہی بات کرکٹ، ہاکی، فٹ بال، والی بال، ٹینس، بیڈ منٹن،لوڈو،کیرم وغیرہ کی
جس میں بھرپور ورزش کا امکان ہوتا ہے تو فی نفسہ یہ درست ہیںبشرط کہ اتنا
انہماک نہ ہوکہ لوگ فرائض وواجبات سے غافل ہوجائیں، اسراف وتبذیر نہ ہو،
وقت کا بے پناہ ضیاع نہ ہو، سترپوشی کامکمل اہتمام ہو، مرد وزن کا اختلاط
نہ ہو، گانا، ڈانس، ہلڑبازی نہ ہواورسٹے بازی، جوے بازی، میچ فکسنگ نہ کی
جائے ۔
تفریحی ٹکٹ خریدنے کا حکم: مختلف طرح کی تفریح یاکھیل دیکھنے کے لیے
اسٹیڈیم اورمیدان میں داخل ہونے کے لیے ناظرین کو داخلہ کارڈیا ٹکٹ کی
خریداری کرنی پڑتی ہے۔ اس کا شرعی حکم کھیل کی نوعیت سے وابستہ ہے۔ جائز
کھیلوں کے لیے ٹکٹ کی خریداری اور انھیں دیکھنے کی گنجائش ہے اور ناجائز
ومکروہ کھیل کے لیے نہ ٹکٹ خریدنے کی گنجائش ہے، نہ دیکھنے کی۔ کیوں کہ یہ
آیت کریمہ ’یشتری لہو الحدیث‘کے وعید میں شامل ہے۔
جائز تفریح اور کھیل:اسلام انسان کو ایک بامقصد زندگی گزارنے کی ہدایت دیتا
ہے جس کی اساس ہمہ وقت اللہ کی خوشنودی کی جستجو، تعمیر آخرت کی فکر مندی
اور لہولعب سے اِعراض ہو ۔یہی وہ زندگی ہے جو اہل ایمان کی پہچان ہے اور جس
کی بنیاد لہوولعب پر مشتمل غفلت و بے پرواہی ہو وہ کفار کا شعار ہے۔ ارشاد
الٰہی ہے:
والذین ھم عن اللغومعرضون (المومنون:۳)
”کہ اہل ایمان کی صفت یہ ہے کہ وہ لغو اور فضول باتوں سے اعراض کرتے ہیں“
ایسی تفریح اور کھیل جن کی اسلام حوصلہ افزائی کرتا ہے وہ درج ذیل ہیں:
۱- تیراندازی،نیزہ بازی اور نشانہ بازی: نشانہ بازی چاہے تیر کے ذریعہ ہو
یا نیزہ، بندوق اور پستول یا کسی اور ہتھیار کے ذریعہ ہو۔ احادیث میں اس کے
فضائل بیان کیے گئے ہیں اور اسے سیکھنے کو باعثِ اجر وثواب قرار دیاگیا ہے
۔یوں بھی یہ کھیل انسان کے ذاتی دفاع کے لیے بہت ضروری ہے۔ یہ جہاں جسم کی
پھرتی، اعصاب کی مضبوطی اور نظر کی تیزی کا ذریعہ ہے۔ وہیں یہ خاص حالات
میں مثلاًفساد اور دنگوں میں دشمنوں سے مقابلہ آرائی کے کام آتا ہے۔
۲- سواری کی مشق: یہ بھی اسلام کا پسندیدہ کھیل ہے، اس سے جسم کی پوری ورزش
کے ساتھ انسان میں مہارت، ہمت وجرات اور بلند حوصلہ جیسی اعلیٰ صفات پیدا
ہوتی ہیں اور سفریا جہاد میں خوب کام آتا ہے۔ اگرچہ قرآن وحدیث میں عام طور
پر گھوڑے کاذکر آیا ہے مگر اس میں ہر وہ سواری مراد ہے جواس مقصد کو پورا
کر سکے مثلاً ہوائی جہاز،ہیلی کاپٹر، بس، موٹر سائیکل، سائیکل وغیرہ۔ ان سب
سواریوں کے چلانے کی مشق اور ٹریننگ اسلامی نقطئہ نظر سے پسندیدہ کھیل ہے۔
اس شرط کے ساتھ کہ جائز اور نیک مقاصد کے لیے انھیں سیکھا جائے اور استعمال
کیا جائے۔
۳- دوڑلگانا: اپنی صحت اور توانائی کے مطابق ہلکی یا تیز دوڑ بہترین جسمانی
ورزش ہے۔ اس کی افادیت پر سارے علماءکرام اور ڈاکٹر متفق ہیں۔ احادیث میں
بھی اس کو جائز بلکہ مستحب قرار دیا ہے۔ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا
ارشاد ہے:
” ہر وہ امر جو اللہ تعالیٰ کی یاد سے خالی ہو غفلت ہے یا بھول، سوائے چار
باتوں کے۔تیر اندازی کے ہدف کے درمیان دوڑنا،گھوڑے کی تربیت کرنا، تیراکی
سیکھنا اور گھر والوں کے ساتھ خوش وقتی کرنا“(الطبری:۶)
پیدل دوڑنے کی اسی افادیت کی وجہ سے صحابہ کرام عام طور پر دوڑ لگایا کرتے
تھے اور ان میں آپس میں پیدل دوڑ کا مقابلہ بھی ہوا کرتا تھا۔حضرت بلالؓ بن
سعد کہتے ہیں کہ میں نے صحابہ کرام کو دیکھا ہے کہ وہ نشانوں کے درمیان
دوڑتے تھے اور بعض ،بعض سے دل لگی کرتے تھے، ہنستے تھے، ہاں! جب رات آتی،
تو عبادت میں مشغول ہوجاتے تھے۔ (مشکوٰة: ۴۰۷)
۴- بیوی کے ساتھ بے تکلّفانہ کھیل: مرد کا اپنی بیوی کے ساتھ مختلف بے
تکلفی کا کھیل بھی اسلام کی نظر میں مستحسن ہے۔ لیکن یہ ہمارے یہاں کے ’با
رعب حضرات ‘ کو گراں گزرے گاکہ اس سے عورت سر پہ چڑھ جائے گی مگرحضرت عائشہ
صدیقہ رضی ﷲ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ میں ایک سفر میں رسول اللہﷺ کے
ساتھ تھی۔ میں نے آپ سے دوڑ لگائی اور آگے نکل گئی۔ کچھ عرصہ بعد پھر ایک
سفر میں، میں نے رسول اللہ ﷺ سے دوڑلگائی اب میرے جسم پر گوشت چڑھ گیا تھا
تو آپ مجھ سے آگے نکل گئے اور آپ نے فرمایا یہ اس کے بدلہ میں ہے (سنن ابی
داؤد)
۶- تیراکی: تیرنے کی مشق ایک بہترین اور مکمل جسمانی ورزش ہے، جس میں جسم
کے تمام اعضا وجوارح کی بھرپور ورزش ہوتی ہے، یہاں تک کہ سانس کی بھی ورزش
ہوتی ہے۔ سیلاب آنے کی صورت میں ایک ماہر تیراک انسانیت کی بہترین خدمت
کرسکتا ہے۔ نشیبی علاقوں میں عام طور پر قریب میں ندی نالے تالاب وغیرہ
ہوتے ہیں اور ان میں ڈوبنے کے واقعات بھی عام طور پر پیش آتے رہتے ہیں۔
ایسے حادثاتی مواقع پر ماہر تیراک لوگوں کی جان بچانے کی کامیاب کوشش
کرسکتا ہے۔ لہٰذا تیراکی جہاں تفریحِ طبع اور جسمانی ورزش کا عمدہ ذریعہ
ہے، وہیں بہت سے دیگر سماجی فوائد کا حامل بھی ہے۔
۷- کشتی اورکبڈی: اس کھیل میں ورزش کا بھرپور سامان ہے۔ اگر ستر کی رعایت
اور انہماک کے بغیر کھیلا جائے تو جائز ہوگا بلکہ نیک مقصد کے لیے مستحسن
ہے۔ عرب کا ایک مشہور پہلوان رکانہ نے رسول اللہﷺ سے کشتی ٹھیرائی، تو آپ
نے اس کو کشتی میں بچھاڑ دیا۔ (ابوداؤد فی المراسیل)۔کبڈی کا حکم بھی کشتی
کی طرح ہے۔
۸- فلمیں اور اسٹیج ڈرامے: تفریح یا بہتر مقاصد کے لیے اگرفلموں اسٹیج
ڈراموں کیا جائے تو اس شرط کے ساتھ اس کی اجازت ہے کہ اس میں دھوکہ نہ
ہو،موسیقی کا استعمال نہ ہو، کسی مومن کی کردارکشی نہ کی گئی ہو، شکلیں
بگاڑی نہ جائیں، انہماک زائد نہ ہو اور مردوزن کا اختلاط نہ ہو ۔
ویسے بھی مغربی ذرائع ابلاغ کا جواب ہمیں اسی کے ذریعہ دینا ہوگا۔ اگر مغرب
نے فلم اور ٹی وی کو فحاشی وعریانی پھیلانے کا ذریعہ بنا لیا ہے تو ہم اس
کا استعمال دینی و اصلاحی کاموں میں کر سکتے ہیں۔ایران نے اس میں بڑی
کامیابی حاصل کی ہے ۔
اسلامی تعلیمات کا تقاضا ہے کہ عوام الناس کے لیے تفریح کا سامان ضرور
فراہم کیا جائے لیکن اس میں مغربی معاشرے کی نقالی نہ ہو۔اس مقصد کے لیے
معلوماتی پروگرام، سائنسی کمالات، اہم مقامات،تاریخی عمارتیں، باغات،
مصوری، آرٹ، مناظرِ فطرت،مزاحیہ خاکے، سمندری دنیا کے مشاہدے، اصلاحی و
تربیتی ڈرامے یا ڈکومنٹری، جانوروں کی دنیا، مجاہدین ِ اسلام کی داستانیں
وغیرہ پیش کی جا سکتی ہیں۔ |