کون معشوق ہے اس پردۂ زر نگاری میں؟
ان اسباب و مسائل کو حل کرنے والی ایک تجزیاتی تحریر
ا ﷲ تعالی کے آخری پیغمبر محمد عربی ﷺ اور آپ کے اصحاب اور ان ’’کے نقوش پا‘‘
پر گامزن اولیا کرام نے پوری دنیا میں امن و سلامتی کا پیغام عام کیا، تمام
مخلوق کے حقوق کی حفاظت کی اور تمام انسانوں کے درمیان اونچ نیچ بھید بھاؤ
ختم کرکے تمام انسانوں کوادب و احترام کا سبق سکھایا ۔دنیا کو عدل و انصاف
سے بھر دیا۔یورپ جہاں پر علم سیکھنا جرم تھا وہاں کے لوگوں کو علم و آگہی
سے واقف کرایا ۔اپنے اعلیٰ اخلاق و کردار کی بدولت دنیا کے جس خطے اور جس
علاقے میں گئے وہاں پر عدل و انصاف کی شمع جلائی۔ کل تک ان کی حکمرانی کے
سکے دنیا کی دو بڑی طاقت قیصر (موجودہ ،روم) و کسریٰ(ایران) پر قائم تھی
اور ان سب کے با وجود انہوں نے اپنے دور حکومت میں انسانیت کا تحفظ کیا ۔
لیکن مقام حیرت و افسوس یہ ہے کہ وہ مسلمان جو کل تک زمانے میں معزز تھے آج
وہ دنیا کی نگاہوں میں ذلیل و خوار کیسے سمجھے جاتے ہیں؟ جو کل تک حکمراں
تھے آج وہی لوگ محکوم کیوں نظر آتے ہیں؟۔ کل تک جو لوگ دوسروں کے ساتھ عدل
و انصاف کا فیصلہ کرتے تھے آج وہی عدل و انصاف پر مبنی فیصلے کو ترستے ہوئے
اپنی زندگی کے بیشتر لمحات امید و یاس کی کشمکش میں گزار کرداعی اجل کو
لبیک کیوں کہ جاتے ہیں؟ کل تک جو ظالم کا پنجہ مروڑ کر مظلوموں کو ان کا حق
دلایا کرتے تھے آج وہی مظلوم بن کر پابند قید و سلاسل ہوکر موت و زیست کی
جنگ کیوں لڑ رہے ہیں؟؟ ۔جو کل تک دوسرے کے جان و مال اور خون کی حفاظت کرتے
تھے آج ان کا خون پانی سے زیادہ سستا او ارزاں کیوں ہوگیا ہے ؟؟ کل تک جو
زمانے کی نگاہ میں محترم تھے آج وہ لوگوں کی نظروں میں کانٹا بن کر کیوں
چبھ رہے ہیں؟؟ کہاں مسلمان غلطیاں کر رہے ہیں؟ْ کہاں ان سے بھول ہورہی ہے ؟
کیوں دنیا میں مسلمانوں سے نفرت کرنے کا رجحان بڑی تیزی سے بڑھ رہا ہے ؟
کیوں کہ
بے خودی بے سبب نہیں غالب کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے ۔
یہ ہیں وہ سوالات جنھیں امریکی محکمہ خارجہ کی 2012ء کی رپورٹ نے جنم دیا
ہے جس رپورٹ نے اقوام عالم کے سامنے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’’
زبانی کلامی اور عملی لحاظ سے پوری دنیا میں مسلم مخالف رجحان بڑی تیزی سے
بڑھ رہا ہے ‘‘ جس کی حالیہ مثال ( برما) میانمار میں روہنگیا مسلمانوں کا
قتل عام ہے جس میں لاکھوں مسلمان بدھشٹ دہشت گردوں کے ہاتھوں شہید ہوگئے
اور کئی لاکھ مسلمان بے سرو سامانی کے عالم اپنے مال منال سے بے دخل ہوکر
اپنے وطن میانمار سے جلا وطن ہونے پر مجبور ہوگئے اور اب پڑوسی ممالک میں
بے یارو مددگار مسلم حکمراں کی بے بسی کا تماشا دیکھ رہے ہیں ۔
امریکی محکمہ خارجہ کی یہ رپورٹ اگر چہ مسلمانوں کے فائدہ کے لئے تیار نہیں
کی گئی ہے لیکن ’’حکمت مومن کا گمشدہ جوہر ہے جہاں پائے اسے لے لے ‘‘ کے
مصداق ہمیں اپنا احتساب کرنا ضروری ہوگیا ہے اور ہمیں سنجیدگی سے اس کے
اسباب و عوامل اور تدارک ( علاج) پر غور و فکر کرنا چاہئے کیوں کہ یہی حکمت
و دانائی اور یہی زمانے کا تقاضا بھی ہے کہ عالمی سطح پرمسلم مخالف بڑھ رہے
رجحان کے اسبا ب اور اس کے علاج پر غور و فکر کیا جائے ۔اس سلسلے میں ہمارے
بعض علما اور دانشوران سمجھتے ہیں کہ پوری دنیا میں اسلام کے تئیں لوگوں کی
دلچسپی بڑھ رہے اس لئے اسلام مخالف طاقتیں گھبرائیں ہوئیں اور انہوں نے
مسلمانوں سے نفرت کرنا شروع کردیا ہے ۔جب کہ امریکی رپورٹ نے ایک وجہ بتائی
کہ’’ یورپ اور ایشیائی ممالک میں حکومتی پابندیاں اور سماجی دشمنی عموماً
ایک دوسرے کے ساتھ منسلک رہتی ہے نتیجۃًمسلم،مخالف کارروائیاں آئے دن اسلام
کے متعدد پیرو کاروں کی زندگی متاثر کرتی رہتی ہے ‘‘یہ بات کچھ حد تک صحیح
بھی ہے کہ 26\11 ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر صیہونی حکومت کے حمایت یافتہ لوگوں کی
کارکردگی کے نتیجے میں اسے نام نہاد مسلم مخالف تنظیموں سے جوڑ دیا گیا جس
کے بعد یورپ کا رہا سہا اظہار رائے اور مذہبی آزادی کا بھرم ٹوٹ گیا اور
ایک بار پھر مسیحی لوگوں کی مہربانیوں سے یورپ اور دیگر ممالک میں زمین
اپنی وسعت کے باوجود مسلمانوں کے لئے تنگ ہوتی چلی گئی اور مسلم مخالف
رجحان میں اضافہ ہوا ۔لیکن ہندوستان سمیت عالمی سطح پر مسلم مخالف رجحان کا
صرف یہی سبب ہو تو ایسا نہیں ہے بلکہ اس کے علاوہ بھی کچھ اسباب میری ناقص
رائے میں موجود ہیں جسے اس امید کے ساتھ پیش کیا جارہا ہے کہ ۔ مقصود ہے اس
بز میں اصلاح مفاسد ۔ نشتر جو لگاتا ہے وہ دشمن نہیں ہوتا
پہلی وجہ ۔اسلام کے نام پر امریکی اور اسرائیلی مقاصد کو پوری کرنے والی
انسانیت دشمن، نام نہاد مسلم تنظیمیں مثلاً القاعدہ ، لشکر طیبہ ، لشکر
جھنگوی ، لشکر جیش محمد ،طالبانی تحریکیں اور انصارا لسنہ وغیرہ جیسی
کالعدم تحریکوں نے جگہ جگہ بم بلاسٹ کر کے لاکھوں بے قصور انسانوں کے قتل
کے جرم کا ارتکاب کیا اور اپنے من پسند دہشت گرد انہ عمل کواسلام کے پاکیزہ
عمل ’’ جہاد ‘‘ جیسے مقدس عمل سے موسوم کیا اور اپنے شدت پسند انہ عقائد و
نظریات کو توحید خالص کا نام دیا اس طرح جہاد جیسے مقدس فریضہ کو پوری دنیا
میں ذلیل و رسوا کیا ۔ خرد کا نام جنوں رکھ دیا جنوں کا خرد جو چاہے آپ کا
حسن کرشمہ ساز کرے۔ اور اس مسلم دشمن تنظیموں کا فائدہ اٹھا کر اسلام دشمن
عناصر نے پوری دنیا میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف ہرزہ سرائی کا بھر پور
موقع پایا۔( ورنہ تو کوئی ہمیں بتائے کہ یہ اسلام کے نام پر مساجد اور جلسہ
گاہوں میں مسلمانوں کا قتلکرنے والی تحریکوں سے اسلام یا مسلمانوں کو کون
سی عزت ملی ہے ؟؟) گویا دل کے پھپھولے جل اٹھے سینے کے داغ سے اس گھر کو آگ
لگ گئی گھر کے چراغ سے
دوسری وجہ ۔آج ہندوستان میں اآر ایس ایس اور دنیا کے دیگر خطوں میں مٹھی
بھر یہودی لابی اور موساد کا قریب نوے فیصد میڈیا پر قبضہ ہے اور ان کی
نوازشوں سے آئے دن کسی نہ کسی معاملے میں اسلام اور مسلمانوں سے متعلق کوئی
نہ کوئی فتنہ سامانیاں معرض وجود میں آتی رہتی ہیں ۔ان مواقع پرمسلمانوں کے
مسائل حل کرنے اور ان کی نمائندگی کے لئے اسلام دشمن عناصر ایسے نام نہاد
مسلم لوگوں کاانتخاب کرتے ہیں جن کا اسلام سے دور کا بھی واسطہ نہیں رہتا
۔ان لوگوں کے غیر اسلامی دانشورانہ فکر وعمل نے اسلام اور مسلمانوں کی شبیہ
داغ دار کرنے میں اہم کردار ادا کیااور مسلم مخالف رجحانات میں اضافہ ہوا
۔گویا مفت کے مفتی بنے ہیں پوچھئیگا مسئلہ ہر مسئلہ بتائیں گے شریعت کے سوا
۔
تیسری وجہ۔ حکومت کے اعلی عہدوں پر فائز، اعلیٰ نام نہاد مسلم عہدہ داران و
لیڈران نے اپنے فکرو عمل سے اسلام اور مسلمانوں کی صحیح تصویر پیش نہیں کی۔
قوم و ملت کی وفاداری کے نام پر اعلیٰ عہدہ سنبھالنے والوں نے قوم و ملت کا
مفاد کم اور اپنی جیب خاص اور پارٹی سے وفاداری کارول زیادہ ادا کیا جس سے
حکومتی سطح پر اسلام اور مسلمان دشمن (خواہ وہ ہندوستان میں بی جی پی اور
آرایس ایس اور اس کی ذیلی تنظیموں کے افراد ہوں یا عالمی سطح پر صیہونی
ذہنیت کے حامل افراد ہوں۔ ان ) لوگوں نے سمجھا کہ اسلام ایسا ہی ہے جیسے یہ
نام کے مسلم لیڈران ہیں لہذا جیسے چاہو مسلمانوں کا استحصال کرلو کہیں سے
بھی کچھ ہونے والا نہیں ہے ۔ گویا واعظ قوم کی وہ پختہ خیالی نہ رہی برق
طبعی نہ رہی شعلہ مقالی نہ رہی رہ گئی رسم اذاں روح بلالی نہ رہی فلسفہ رہ
گیا تلقین غزالی نہ رہی
چوتھی وجہ ۔اسلامی ممالک جسے قدرت نے معدنی وسائل سے مالا مال کیا ۔ان
ممالک کے عیش و طرب میں ڈوبے مسلم حکمرانوں نے اسلام اور مسلمانوں کے مفاد
میں مثبت جانب قدم بڑھا نے کے بجائے اسلام دشمن حکومتوں کی منشا اور مرضی
پر عمل کرکے اپنے امریکی ، برطانو ی آقاؤں کو خوش کرنے کا کام زیادہ کیا
۔اور دنیا والوں کی نظر میں سرخرو بننے کے لئے شرعی قوانین کا نفاذ کرنے کے
بجائے اپنی مر ضی کیے قوانین و ضوابط قائم کئے ۔ان حکمرانوں نے اسلاف کے
علمی اور دینی کارناموں کو تحقیق و تفتیش کے ذریعے پروان چڑھانے کے بجائے
اپنے علمی سرمائے کو غیروں کے سپرد کردیا جس کا فائدہ اٹھا کراسلام دشمن
حکومتوں نے ان ہی کی ملکیت پر قبضہ جما کے ان ہی کے خلاف ان کے وسائل کا
بھر پور استعمال کیا ۔ اور جس سے اسلام اور مسلمانوں کا ناقابل یقین نقصان
ہوا ۔ گویا
پڑھتا ہوں تو کہتی ہے یہ خالق کی کتاب۔ ہے مثل یہودی یہ سعودی بھی عذاب ۔
اس قوم کے بارے میں قمر کیا لکھے۔ جو کعبے کی کمائی سے پیتے ہپوں شراب۔
پانچویں وجہ۔ زمانہ جاہلیت میں دیگر قوموں میں پائے جانے والے لسانی ،
زمینی ، ذاتی ،قبائلی ،مذہبی، مسلکی اختلافات ابھر کر مسلمانوں میں بھی
آگئے ہیں اور بعض نام نہاد مسلم اسکالرکی فتنہ سامانیوں سے اسلام کے چودہ
سو سالہ درست اسلامی عقائد و نظریات سے برگشتہ ہو کر امت میں نت نئے فرقے
وجود میں آگئے ہیں اور کثرت سے پیدا ہونے والے فرقوں کے عقائد و نظریات
اسلام کے چودہ سو سالہ درست اسلامی عقائد و نظریات سے متصادم اور مخالف ہے
اور مقام حیرت یہ ہے کہ سبھی اپنے کو مسلمان کہتے ہیں جس سے ایک عام آدمی
پریشان ہوگیا ہے کہ ’’الٰہی تیرے سادہ دل یہ بندے کہاں جائیں۔ در حقیقت ان
حالات میں مسلمانوں کی طاقت و قوت منتشر ہو کر رہ گئی جس کا فائدہ اٹھا کر
اسلام دشمن عناصرنے مسلم مخالف قوموں میں یہ تاثر پیدا کیا کہ مسلمان
کہلانے والے اگر کسی ایک گروپ کے خلاف یلغار کی جائے تو مسلمانوں کا دوسرا
فریق خوشی سے بغلیں جھانکتا ہوا نظر آئے گا(جس کی نظیر عراق اور افغانستان
وغیرہ ہمارے سامنے ہے) ۔ایسی صورت میں ان پر حملہ کر کر کے ان کے جان و مال
کا نقصان کر کے اسلا م مخالف لوگوں کا کچھ بھی بال بیکا نہیں ہوگا ۔ غلط
روی سے منازل کا بعد بڑھتا ہے مسافرو روش کارواں بدل ڈالو جگا جگا کے تمھیں
تھک چکے ہیں ہنگا مے نشاط لذت خواب گراں بدل ڈالو -
چھٹی وجہ ۔مسلمانوں نے اپنی وضع قطع سے اسلامی شعار کو غائب کردیا اس کی
جگہ مغربی تہذیب و تمد ن نے جگہ بنا لی ہے ۔اسلامی سماج اور معاشرے میں بے
حیائی عروج پر ہے کل یہ سمجھا جاتا تھا کہ مسلمان جو انہیں کھیلتا، مسلمان
شراب نہیں پیتا ،مسلمان جھوٹ نہیں بولا کرتا ،مسلمان وعدہ خلافی نہیں کیا
کرتا اور مسلمان بد اخلاقی کا مظاہرہ نہیں کرتا وغیرہ لیکن مسلمانوں کی یہ
ساری خصوصیتیں ان سے زائل ہوتی نظر آتی ہیں اور اب سماج میں اچھا مسلمان وہ
کہلاتا ہے جو حلال و حرام کا فرق کئے بغیر کھائے، پئے ، نہ اسے اسلامی
احکام سیکھنے کی ضرورت ہو اور نہ اسلامی آداب جاننے کی فرصت ہو اورمغربی
کلچر کا علمبردار ہو،عیش وطرب کی محفلیں صبح و شام سجاتا ہو جو محض نام کا
مسلمان ہو وہی اغیار کی نظروں میں مسلمان ہے۔ بقول ڈٖاکٹر اقبال وضع میں تم
ہو نصاریٰ تو تمدن میں ہنود یہ مسلمان ہیں جنھیں دیکھ کے شرمائیں یہود ۔
بد عملی پر مبنی مسلمانوں کی اس روش نے پوری دنیا کے مسلمانوں کو نقصان
پہونچایا اور اسلام دشمن عناصر نے دنیا کو یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ یہ
ہیں مسلمان اور جو وہ کرتے ہیں وہ ہے اسلام ۔جس سے اسلام کے آفاقی مزاج کو
سمجھنے سے دنیا قاصر رہی۔ وہ زمانے میں معززتھے مسلماں ہوکر اور ہم خوار
ہوئے تارک قرآ ن ہوکر ۔
ساتویں وجہ اسلام اور مسلمانوں سے متعلق ملت اور قوم کے نو نہولان کے ذہن و
فکر کو زہر آلودہ کر کے ان میں نفرت کا بیج بو گیا اس کے لئے درسی اور غیر
درسی کتابوں اور رسائل و میگزین میں عدل و انصاف پر مبنی حقائق کو توڑ مروڑ
کر پیش کیا گیا مثلاً غیر منقسم ہند کے فرماں روا شہنشاہ اورنگ زیب عالم
گیرجو رعایا پروری اورعدل و انصاف میں بے نظیر تھے۔ رحم دل اور نیک سیرت
تھے ۔اپنے ہاتھ سے قرآن لکھ کر ، ٹوپی بن کر اپنا خرچہ چلاتے تھے ان کے
تعلق سے ہندوستان میں آر ایس ایس اور اس کی ذہنیت کے حامل افراد نے تاریخ
گڑھی کہ ’’بادشاہ اورنگ زیب ہندوؤں کے جانی دشمن تھے ، ان کے ناشتے سے پہلے
سیکڑوں غیر مسلموں کا سر ان کی خدمت میں پیش کیا جاتھا وغیرہ جب کہ عالمی
سطح پر صیہونی حکومت نے اس کام کو بحسن و خوبی انجام دیا ۔جس سے اسلامی
تاریخی حقائق جاننے سے سادہ ذہن افراد محروم رہے اور مسلم دشمنی میں اضافہ
ہوا۔ ہم آہ بھی کرتے ہیں تو ہوجاتے ہیں بدنام وہ قتل بھی کرتے ہیں تو چرچا
نہیں ہوتا۔
آٹھویں وجہ ۔ اسلام دشمن طاقتیں اپنی فکری آوارگی کا ثبوت دیتے ہوئے وقتاً
فوقتاً مسلمانوں کی توجہ ان کے بنیادی مسائل سے ہٹانے ، ان کے ایمان و
عقیدے کی تپش کا اندازہ کرنے اور انھیں ذہنی طور سے مفلوج کرنے کے لئے
اسلام اور پیغمبر اسلام ﷺ اور آپ کے اصحاب کی شان میں گستاخی کا ارتکاب
کرتے ہیں (یہ فاقہ کش جو موت سے ڈرتا نہیں ذرا روح محمد اس کے بدن سے نکال
دو ) جس سے مسلمانوں کا رد عمل فطری ہے۔ گویا جو جان مانگو تو جان دیں گے
جو مال مانگو تو مال دیں گے مگر یہ ہم سے نہ وسکے گا نبی کا جاہ و جلال دیں
گے۔ ان مواقع پر کچھ شر پسند ،مسلمانوں کی جماعت میں ان کا بہی خواہ بن کر
گھس جاتے ہیں اور شدت پسندانہ طریقہ کا ر اختیار کر کے مسلمانوں کے لئے
مزید مصیبتیں کھڑی کردیتے ہیں جس سے عالمی طاقتوں کو مسلمانوں کے خلاف
ماحول زہر آلود بنانے کا موقع مل جا تا ہے اور وہ کہتے ہیں کہ مسلمان اتنا
کم ظرف ہوتا ہے کہ ذرہ برابر بھی قوت برداشت ان میں نہیں ہوتا ہے وغیرہ
نویں وجہ ۔ آج مسلمان کا ایک بڑا طبقہ ہے جو تعلیمی لحاظ سے کافی کمزور ہے
اس کی بنیادی وجہ جہاں حکومت کی کرم فرمائیوں یاا پنی دور اندیشی کی کمی یا
معاشی کمزوری ہے تو وہیں حکومت کے ساتھ مسلم مالدار طبقہ کی اکثریت بھی یہ
نہیں چاہتی کہ وہ پڑھ لکھ کر ہماری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنے کی
جرا ء ت کر سکے اور اگر وہ پڑھ لیں گے تو ہمارے آگے پیچھے کون دوڑے گا ؟
گویا انھوں نے یہ سمجھ لیا ہے کہ سانپ پھولوں کے احاطے میں رہا کرتے ہیں
پھول کے پیڑ تم آنگن میں لگایا نہ کرو ۔اس منفی ذہنیت کی وجہ سے اس کے
استحصال کا سلسلہ جہاں حکومت اور مسلم مخالف لوگ انجام دے رہا ہے وہیں
مسلمانوں کا مالدار طبقہ بھی مسلمانوں کے تعلیمی مسئلہ کو حل کرنے کے لئے
سنجیدہ نہیں دیکھائی دیتاورنہ تو آپ بتائیں کہ اپنی بیٹی یا بیٹے کی شادی ،
یا جنم دن کی خوشی وغیرہ مواقع پر لاکھوں روپے پانی کی طرح دکھا وے کے لئے
بہادینے والا یہ مسلمان تعلیم کے نام پر ہزار روپے بھی کیوں نہیں دینا
چاہتا ؟ اس کا نقصان یہ ہو کہ عالمی سطح پر یہ تاثر دیا گیا کہ مسلمان
جاہلوں کی جماعت ہے اور مسلمان احساس کمتری کا شکار ہوگیا اور ظاہر سی بات
ہے کہ جو دنیا کی سب سے قابل قوم خود کو سمجھتا ہو وہ ہم مسلم قوم کے ساتھ
کیسا سلوک روا رکھے گا یہ بتا نے کی ضرورت نہیں۔گویا لوگ مٹھی میں نمک لے
کے پھرا کرتے ہیں زخم اپنے تم زمانے کو دکھا یا نہ کرو۔
آخر دنیا میں مسلمانوں سے نفرت میں کمی اور قوم مسلم کی ترقی کے لئے کون سے
طریقے اپنائے جائیں۔ تو اوپر بیان کئے ہوئے اسباب کا علاج ذیل میں ( نیچے)
اختصار کے ساتھ ذکر کیا جاتا ہے۔(1)نام نہاد مسلم تنظیمیں مثلاً القاعدہ ،
لشکر طیبہ ، لشکر جھنگوی ، لشکر جیش محمد ،طالبانی تحریکیں اور انصارا لسنہ
وغیرہ جیسی کالعدم تحریکیں اپنے شدت پسندانہ عقائد و نظریات اورجگہ جگہ بم
بلاسٹ کر کے لاکھوں بے قصور انسانوں کے قتل کرنے سے باز آئیں اور اگر اپنے
من پسند دہشت گرد انہ عمل کو انجام دینا ہی چاہتے ہیں تو وہ اسلام کے نام
کا استحصا ل کرنے کے بجائے اعلان کردیں کہ ان کی تحریک سے نہ تو اسلام کا
کوئی لینا دینا ہے اور نہ ہی مسلمانوں کا ان کی تحریک سے کوئی واسطہ ہے
بلکہ درحقیقت وہ اسلام کے نام پر صیہونی طاقتوں کے آلہ کار ہیں (2)مسلمان
اور اسلامی مملکت کے حکمراں ذرائع ابلاغ کی اہمیت کو سمجھیں اور اور ذرائع
ابلاغ کی دولت سے مالا مال ہونے کی کوشش کریں تاکہ اسلام اور مسلمانوں کے
تئیں پیدا کی جانے والی غلط فہمیوں کا منھ توڑ جواب دیا جا سکے ( 3)اعلیٰ
حکومتی عہدوں پر فائز مسلم لیڈران اور سرکاری افسران ملت فروشی کے جذبہ سے
باہر آئیں اور یہ احساس کریں کہ قوم و ملت کے وجود سے ہمارا وجود ہے اس لئے
ذاتی مفاد سے اوپر اٹھ کر قوم و ملت کی فلاح کی مثبت کوششیں کریں (4)
اسلامی مملکت کے حکمراں کو یہ قرآنی حقیقت سمجھ لینا چاہئے کہ یہودو نصاریٰ
کبھی نہ اسلام کے دوست ہوئے ہیں اور نہ ہو سکتے ہیں اس لئے سائنس اور ٹیکنا
لوجی سمیت دیگر معامالت میں ان پرانحصار کرنے کے بجائے اپنے اسلاف کے علمی
و تحقیقی شعبے کو پروان چڑھانے کی مثبت سعی کریں ۔ جگا جگا کہ تمہیں تھک
چکے ہیں ہنگامے مسافرو روش کاررواں بدل ڈالو۔
(5) اسلام کے نام پر انگریزی حکومت کی مددیافتہ نت نئے وجود میں آنے والے
فرقے اﷲ کا خوف دل میں پیدا کریں اور یہ سوچیں کہ مرنے کے بعد اﷲ کو منھ
دکھانا ہے اس لئے اپنے باطل عقائد و نظریات سے توبہ کرلیں اور اسلام کی
چودہ سو سالہ درست اسلامی عقائد و نظریات کو اپنے سینے سے لگالیں تاکہ ملت
ایک ملت میں تبدیل ہو جائے اور اگر اپنی انانیت اور دنیاوی مفاد کے تحت
فرقوں میں ہی بٹناہی پسند کرتے ہیں تو کم ازکم بنام مسلمان ملکی، قومی
اورمسلم مسائل میں تھوڑی دیر کے متحد ہوجائیں اور اسلام دشمن طاقتوں کو یہ
باور کرادیں کہ نظریاتی اختلافات کے باوجود مسلمان کہلانے والے تمام فرقے
کفر کے مقابلے میں سیسہ پلائی ہوئی دیوار ہیں کہ جو اس سے ٹکرانے کی کوشش
کریگا وہ چور چور ہوجائے گا ۔ متحد ہو تو بدل ڈالو نظام عالم منتشر ہو تو
مرو شور مچاتے کیوں ہو
( 6)اسلام اور مسلمانوں سے متعلق درسی اور غیر درسی کتابوں میں اسلامی
تاریخی حقائق کو توڑ مروڑ کر کر پیش کرنے والوں کو روکنا ہوگا اور اس کے
لئے تعلیم یافتہ حضرات نہایت سنجیدگی کے ساتھ حکومتی نصابی بورڈ کو حقائق
سے آگاہ کریں اور تاریخی حقائق کی روشنی میں کتابیں تیار کرے اور اس کے لئے
تمام ممکنہ صورت اپنائیں کیوں کہ ملت کی فلاح کا حتی ا لوسع کام کرنا ہر
ایک مسلمان کی ذمہ داری ہے۔ (7)مسلمان اسلام دشمن عناصر کا کھلونہ بننے سے
خود کو بچائیں ،غیروں کی جانب سے مسلم مخالف اہانت آمیز طریقہ اپنائے جانے
کی صورت میں اگر ہم خاموش رہتے ہیں تو یہ ہماری بے غیرتی ہے اور اگر ہم پر
تشدد احتجاج کرتے ہیں تو ہمارا ہی نقصان ہوتا ہے اس لئے ہمیں قانونی دائرے
میں رہتے ہوئے پر امن احتجاج کرنا ہوگا ۔( 8)ہم گروہ مسلمین اپنے اسلاف کے
نقش قدم پر چل کر اپنی عادات و اطوار میں اسلام کی جھلک پیدا کرنے کی کوشش
کریں او دنیا کویہ باور کرادیں کہ اسلام نہایت امن و شانتی اور ہمیشہ کے
لئے باقی رہنے والا دین ہے اور دنیا کو پناہ اسلام ہی کے دامن میں مل سکتی
ہے ۔(9) ہم مسلمان تعلیمی میدان میں بھر پور جد و جہد کریں اور اگر اﷲ نے
ہمیں مال و دولت سے نوازا ہے تو علم حاصل کرنے والے طالب علم کی علمی
معاملات میں اپنے مال کے ذریعے مدد کریں تاکہ ملت کے افراد تعلیم یافتہ
ہوکر زمانے کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنے کے اہل بنیں اور احساس
کمتری سے ہمارے نو نہال باہر آئیں اس کے علاوہ جگہ جگہ اسلامی سمپوزیم کا
نعقاد کریں جس میں سنجیدہ تعلیم یافتہ حضرات اسلام کی حقانیت کو نہایت
معروضانہ انداز میں مدعو غیر مسلم حضرات کے سامنے پیش کریں ۔ ااگر ہم نے
مندرجہ بالا باتوں پر توجہ دی تو انشا ء ﷲ وہ دن دور نہیں جب ہماری عظمت
رفتہ کی بازیابی ممکن ہو جائے اور ہر چہار جانب ہم سے نفرت کرنے کے بجائے
ہم سے محبت کیا جانے لگے ۔ رب تعالیٰ کی بارگاہ میں دعا ہے کہ بطفیل مدنی
سرکار ﷺ ہمیں اسلام اور مسلمانوں کی خدمت کی توفیق عطا فرمائے ( آمین) اس
دعا کے ساتھ اﷲ حافظ۔۔ مومنوں عظمت قرآن نہ جانے پائے جان جائے مگر ایمان
نہ جانے پائے دامن صل علی ہاتھ سے چھوٹے نہ کبھی یہی ایمان ہے ایمان نہ
جانے پائے |