اس سے پہلے کالم میں میں نے کوشش کی تھی کہ لوگوں کو چند
ان پروجیکٹ کے بارے میں بتاؤں جو کہ یہودیوں نے اس دنیا پر قبضہ کرنے اور
لوگوں پر اپنے تجربات کے لیے شروع کیے ہیں۔ اگلا بڑا پروجیکٹ شارٹ ویژن کا
ہے۔
آپ کے گھر میں ٹیلی ویژن موجود ہے؟ آپ نے اسے اپنے بچوں کو تفریح فراہم
کرنے کے لیے اور ان کو اپ ڈیٹ کرنے کے لیے گھر میں لائے ہوں گے۔ ۔ شام کو
بچوں کو ٹیلی ویژن کے سامنے دیکھ کر آپ کو خوشی محسوس ہوتی ہوگی کہ آپ کے
بچے گھر میں آپ کی آنکھوں کے سامنے موجود ہیں اور اپنے معلومات میں اضافہ
کر رہے ہیں اور ذہن کو وسیع کر رہے ہیں۔لیکن یہ آپ کے وہم و گمان میں بھی
نا ہوگا کہ یہ بے ضرر دکھائی دینے والا آلہ ذہنی تخریب کے لیے ایک خاص
تکنیک کے تحت استعمال ہوتا ہے۔ شارٹ ویژن ایک اور کامیاب پروجیکٹ ہے جو
لوگوں کے ذہنوں تک پیغام پہنچانے کے لیے چلایا جاتا ہے۔ اس کے ذریعے ٹیلی
ویژن کو مخصوص سگنل نشر کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔۔ متحرک تصویر، جو
ٹیلی ویژن اسکرین یا سینما گھر کی اسکرین پر ناظرین دیکھتے ہیں ، وہ ایک
سیکنڈ میں 45 فریمز پر مشتمل ہوتی ہے ۔ دوسرے الفاظ میں 45 ساکن تصویروں پر
ایک سیکنڈ کا متحرک بناتی ہیں۔ اگر اس ایک سیکنڈ کے درمیان ایک ساکن تصویر
دکھائی جائے تو یہ سیکنڈ کا پینتالیسواں حصہ لیتی ہے۔ جو انسانی آنکھ سے
قبل دید نہیں ہے۔ لیکن ہمارا لاشعور اسے دیکھ لیتا ہے۔ کیونکہ یہ ہمارے
شعور سے زیادہ ہوتا ہے۔ اور پیغام وصول کرتا ہے۔۔ چنانچہ نہ جانتے ہوئے بھی
یا نہ سمجھتے ہوئے بھی ہم لاشعوری طور پر اس پیغام سے تحریک لے لیتے ہیں۔
اب ہم اس کو ایک مثال سے سمجھتے ہیں: اس پروجیکٹ کے تحت ایک تجربہ کیا گیا
۔جس میں کوکا کولا کی ایک بوتل شارٹ ویژن سینما کے تماشائیوں کو وقفہ وقفہ
سے کچھ دیر پہلے دکھائی گئی۔ یہ شارٹ ویژن پیغام موثر ثابت ہوا اور وقفہ کے
دوران جلم بینوں کی اکثریت نے کوکا کولا خریدا۔یہی ٹیکنک ترقی پزیر ممالک
میں انتخابی مہم کے دوران استعمال کی جاتی ہے۔ انتخابات کے دوران قومی ٹیلی
ویژن اسٹیشن اپنے بہترین پروگرام نشر کرتا ہے۔ لوگ ٹیلی ویژن سیٹوں کے
سامنے جمے بیٹھے ہوتے ہیں۔ نشریات کے دوران انتخابات کو بھرپور اہمیت دی
جاتی ہے۔ جمہوریت میں لوگوں کی دلچسپی بڑھائی جاتی ہے۔ اور اس دوران شارٹ
ویژن کسی مخصوص اپیدوار کو منتخب کروانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے ۔
ٹی وی کے اثرات کا تجزیہ کرتے ہوئے برین واشنگ کے ایک ماہر تھیوڈ ایڈورڈ نے
کہا کہ ٹیلی ویژن کی صورت میں انسانی دل و دماغ اور جذبات پر مکمل کنٹرول
کرنے کا ایک زبردست وسیلہ ہمارے ہاتھ آگیا ہے۔جس کا ہم خواب بھی نہیں دیکھ
سکتے تھے۔ ٹی وی آپ کے سامنے ایسی چیز پیش کرتا ہے کہ آپ چاہیں یا نہ
چاہیں انکو پسند کرنے پر خود کو مجبور پائیں گے۔ اور اس کے قبول کرنے کے
علاوہ کوئی چارہ کار نہیں۔ دماغی تطہیر کے ایک ماہر فیڈرک ایمرے نے ٹی وی
کی تصویروں کے گہرے اثرات کا تجزیہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ وہ اس درجے موثر
اور سحر انگیز ہوتی ہیں کہ دیکھنے والی کی تمام تر توجہ اپنے جانے کھینچ
لیتی ہے۔ ٹی وی آنکھوں اور دماغ کو غیر معمولی حد تک متاثر کرتاہے۔ وہ اس
طرح کے آنکھ ، آواز اور تصویر اور سابقہ معلومات کے درمیان ربط ہ ہم
آہنگی کا کام بڑی تیزی سے انجام دیتی ہے۔ ایسی صورت میں دماغ جسکا کام
واقعات کا تجزیہ اور خبروں اور تصویروں کو مسلسل دیکھنا اور نتائج نکالنا
ہے اپنا کام اس لیے انجام دینے سے قاصر نظر آتے ہیں کہ ہر لمحہ مناظر
بدلتے رہتے ہیں اس لیے تیزی سے بدلتے ہوئے مناظر و مشاہدات کا تجزیہ کسی
صورت کرنے کے قابل نہیں رہتا ۔ اس لیے کہ ایسی صورت میں دماغ کے خلئے تیزی
سے بدلتے مناظر کو کسی تجزیے اور کسی نتیجے تک پہنچے بغیر ہی جوں کا توں
قبول کر لیتا ہے۔
تھیوڈ ایڈورڈ نے تو یہاں تک کہا ہے کہ میڈیا کے ذریعے لوگوں کو عقلی
پسماندگی پر مجبور کیا جا سکتا ہے۔ ٹی وی دیکھنے والوں کے بارے میں اقوام
متحدہ کے ادارے یونیسکو نے ایک رپورٹ جاری کی تھی جس میں بتایا گیا کہ پوری
دنیا کے پچاسی فیصد لوگوں نے ٹی وی کی وجہ سے اپنے کھانے پینے، سونے لکھنے
پڑھنے اور کام کے پروگرام بدل دیے ہیں۔ انکی قوتِ فیصلہ پر ٹی وی اثر انداز
ہو گیا ہے۔ وہ آزادانہ طریقے سے فیصلے کرنے کے قابل نہیں رہے۔ شعوری اور
غیر شعوری طور پر وہ ٹی وی اور دوسرے ذرائع ابلاغ کے پروگراموں سے متاثر
ہوتے ہیں۔ دراصل ذہنوں کو برقیاتی لہروں کے ذریعہ کنڑول کیا جاتا ہے جیسا
کہ آپ جانتے ہیں کہ برقیاتی لہریں اور موسیقی لہریں انسانی ذہن پر بے شمار
اثرات مرتب کرتی ہے۔۔ ہر لہر اور دھن کی تاثیر الگ ہوتی ہے۔ یہودی جادوگر
ان لہروں کی تاثیر کے بارے میں کافی معلومات (تجربات) حاصل کر چکے ہیں۔ وہ
جانتے ہیں کہ کس لہر کے کیا اثرات ہوتے ہیں ۔ اس کا مشاہدہ آپ موسیقی سننے
والوں کی حالت دیکھ کر کر سکتے ہیں۔۔ یہی وجہ ہے کہ ٹی وی دیکھنے والے مرد
و خواتین ذہنی پریشانیوں نفسیاتی بیماریوں اور اعصاب کے کھچائو کے شکار نظر
آتے ہیں۔
تو جناب یہ وہ دوسرا بڑا منصوبہ ہے جو کہ اس وقت جاری ہے۔۔ اگر میری یہ
تحریر پڑھ کر ایک بھی شخص تحقیق کرنا شروع کر دیتا ہے تو میں سمجھوں گا کہ
جو ذمہ داری میری تھی اس میں میں کچھ حد تک کامیاب ہو گیا ہوں۔ اللہ ہمیں
اس پر فتنہ دور جس میں جھوٹ دھوکہ دہی، مکر وفریب ہر طرف پھیلا ہوا ہے
محفوظ رکھے۔ آمین (جاری ہے) |