تحریر: محمد نعیم حیدر
محکمہ ایجوکیشن پنجاب اس دفعہ پھر ریشن لائزیشن کیلئے سرپلس اساتذہ کی
لسٹیں بنانے میں مصروف ہے اور بڑی تیز رفتاری سے یہ کام جاری و ساری ہے
ریشن لائزیشن کا عمل ایک لحاظ سے طلبہ کیلئے مفید بھی ہے جبکہ دوسری طرف
اساتذہ اور طلبہ دونوں کے لئے نقصان دہ اور پریشان کن بھی ہے ۔حکومت پنجاب
ہر سال اس عمل کے ذریعے اساتذہ فراہمی کے دعوے کے ساتھ میدان میں آتی ہے
اور عملاً بیشتر تعلیمی اداروں کو اچھے اور قابل اساتذہ سے محروم کر دیتی
ہے۔اور اس طرح اساتذہ اور ادارہ دونوں مشکلات کا شکار ہو جاتے ہیں ریشن
لائزیشن کے عمل میں معیار صرف اور صرف تعلیمی قابلیت ،استاد کی تعلیم سے
دلچسپی اور اس کے سابقہ تعلیمی نتائج کو مدِنظر رکھنا چاہیے۔اور اس سارے
عمل کا جائزہ سربراہ ادارہ کی ذمہ داری ہو۔کیونکہ سربراہ ادارہ اپنے زیر
نگرانی تمام اساتذہ کی تعلیمی قابلیت ،نظم و ضبط ،کلاس ڈسپلن اور تعلیمی
نتائج سے بخوبی واقف ہوتا ہے۔اور اگر اس سلسلے میں سٹاف سرپلس کرنے کا مکمل
اختیار سربراہ ادارہ کو ہی دے دیا جائے تو یہ اساتذہ اور ادارہ دونوں کے حق
میں بہتر ثابت ہو گا۔ اور اس سارے عمل کی نگرانی تحصیل کی سطح پر ڈپٹی
ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر کو سونپ دی جائے۔اس عمل سے حکومت پنجاب کو اپنے
مقاصد بھی حاصل ہو جائیں گے اور تعلیمی اداروں اور اساتذہ کے حقوق کا تحفظ
بھی بہتر انداز میں ہو جائے گا۔ پنجاب ایگزامینیشن کمیشن کے تحت پانچویں
اور آٹھویں کے سالانہ امتحان کو صرف دو ماہ کا عرصہ باقی ہے اور حکومت
پنجاب کے اس عمل نے اساتذہ میں بے چینی کی لہر پیدا کر دی ہے وہ اساتذہ جو
بچوں کوپنجاب ایگزامینیشن کمیشن کے امتحان کے لئے مسلسل دہرائی اور ٹیسٹوں
کے ذریعے تیاری کروانے میں مصروف ہیں حکومت پنجاب کے اس عمل نے ان کی سوچ
کو منتشر کر کے رکھ دیا ہے اور اس طرح ان کی توجہ بچوں کی تعلیم کی بجائے
مسقبل کے خدشات میں پھنس کر رہ گئی ہے کہ ریشن لائزیشن کے بعد اگلی تعیناتی
میں کون کون سی مشکلات سے ان کا واسطہ پڑے گا۔ریشن لائزیشن کا عمل طلبہ کو
اساتذہ کی فراہمی کا ایک اچھا اقدام ہے لیکن اس کے اطلاق کی ٹائمنگ غلط ہے
اگر حکومت پنجاب اس عمل کے ذریعے اساتذہ سے محروم طلبہ کو اساتذہ کی فراہمی
یقینی بنانا چاہتی ہے تو اس کی ٹائمنگ تبدیل کرنے کی اشد ضرورت ہے اس کی
بہترین ٹائمنگ پانچویں اور آٹھویں کے رزلٹ کے فوراً بعد ہے کیونکہ اس وقت
کسی بھی کلاس کا کوئی حرج نہیں ہوتا اور نئے سرے سے کلاسیں بیٹھ رہی ہوتی
ہیں اور اپریل کے مہینے میں یہ کام بہتر انداز میں پایہ تکمیل کو پہنچ سکتا
ہے ۔
ریشن لائزیشن کے عمل میں ماضی میں مختلف پیمانے وضع کئے جاتے رہے لیکن اس
سلسلے میں بہتری کی گنجائش اب بھی موجود ہے ماضی میں ان اساتذہ کو سرپلس
کیا گیا جن کا دورانیہ سروس اس سکول میں سب سے کم تھا ۔بعد ازاں سروس میں
جونئیر موسٹ اساتذہ کو سرپلس کیا گیا اور اس طرح SESEسائنس 2010ء کی بھرتی
کے SESEسائنس تمام کے تمام اس ادارے سے سرپلس ہو گئے اور اس طرح وہ ادارہ
سائنس اساتذہ سے مکمل طور پر محروم ہو گیا اور دیگر اداروں میں ضرورت سے
زائد سائنس اساتذہ اکھٹے ہو گئے ۔
ہمارے سرکاری سکولوں میں سرکاری ملازمت میں آنے والے پرانے بیشتر اساتذہ کم
تعلیم یافتہ اور اثر حاضر کے جدید تعلیمی تقاضوں سے نا آشنا ہیں بلکہ ان
میں اکثریت ایسے اساتذہ کی ہے جو آج کل کا جدید نصاب پڑھانا تو کجا پڑھنے
سے بھی قاصر ہیں یہی وجہ ہے تمام تر حکومتی توجہ کے باوجود تعلیمی ترقی کا
پہیہ آگے بڑھنے کی بجائے پیچھے کی طرف گامزن ہے ۔محکمہ تعلیم پنجاب
میں1993ء سے اب تک ہونے والی تمام تر بھرتیاں میرٹ پر ہوئی ہیں اس لئے یہ
تمام اساتذہ اعلیٰ تعلیم یافتہ اور جدید تعلیم سے مکمل طور پر بہرہ ور ہیں
اور جدید تعلیمی نصاب کی تدریس کی اہلیت رکھتے ہیں۔اس سے قبل محکمہ تعلیم
میں اساتذہ کی تمام تر بھرتی منتخب ممبران کی مرہون منت رہی ہے اور سرکاری
سکولوں میں اس وقت سفارشی اساتذہ کی سروس کا دورانیہ سب سے زیادہ ہے اور
یہی دورانیہ ان کو ریشن لائزیشن سے بچ نکلنے میں مددگار ثابت ہوتا ہے
۔پرانے اساتذہ اس لئے بھی تعلیم کی طرف توجہ نہیں دیتے کیونکہ وہ جانتے ہیں
کہ سروس میں جونئیر ہونے کی بنیاد پر ریشن لائزیشن ہو گی اور اس کا نشانہ
صرف اور صرف بعد میں بھرتی ہونے والے اساتذہ ہی بنیں گے اور وہ اپنی تمام
تر قابلیت جدید نصاب پر عبور اور اعلیٰ تعلیم کے باوجود ایک سکول سے دوسرے
سکولوں میں دھکے کھاتے پھریں گے جبکہ کم تعلیم یافتہ اور جدید علوم سے
ناواقف پرانے اساتذہ صرف اور صرف اپنی سروس کی طوالت کی وجہ سے ریشن
لائزیشن میں کسی بھی پریشانی سے دو چار نہیں ہوں گے۔
حکومت پنجاب کو چاہیے کہ ریشن لائزیشن کے عمل میں قرین ِ انصاف معیار متعین
کریں اور کم تعلیم یافتہ اور پرانے اساتذہ کو دیگر سکولوں میں بھیجا جائے
اور ریشن لائزیشن کے عمل کو سربراہ ادارہ کی صوابدید سے وابستہ کیا جائے
کیونکہ کوئی بھی ادارے کا سربراہ اپنی زیر نگرانی سکول میں ہر استاد کے
تعلیمی معیار، مضمون میں مہارت اور اس کی تعلیم میں دلچسپی سے مکمل طور پر
واقف ہوتا ہے اور اس طرح وہ زائد اساتذہ کے حوالے سے سکول اور بچوں کی
تعلیمی ضروریات کو مدِنظر رکھ کر فیصلہ کرے گا کیونکہ رزلٹ کے حوالے سے
محکمہ تعلیم کو سربراہ ادارہ جوابدہ ہوتا ہے اور کوئی بھی سربراہ ادارہ یہ
نہیں چاہتا کہ کسی بھی مضمون میں ماہر استاد محض اس وجہ سے اس کے سکول سے
حکومتی پالیسی کا شکار ہو جائے کہ اس کی سروس کم ہے یا وہ سرکاری ملازمت
میں باقی لوگوں سے بعد میں آیا ہے اگر کوئی شخص اپنی عمر کی بنیاد پر
سرکاری ملازمت میں بعد میں آیا ہے اور وہ اپنے مضمون میں مکمل مہارت رکھتا
ہے اور ادارے کے بچوں کو بہتر تعلیم دے سکتا ہے تو میرٹ اور تعلیمی قابلیت
کی بنیاد پر بھرتی ہو کر ملازمت میں آنے والا شخص اس بات کا مجرم نہیں ہے
کہ وہ سرکاری ملازمت میں بعد میں کیوں آیا ۔لہذا حکومت پنجاب کو چاہیے کہ
ریشن لائزیشن کے حوالے سے اپنے معیار اور ٹائمنگ پر نظر ثانی کرے ۔ اور
پالیسی میں سربراہ ادارہ کی صوابدید استاد کی تعلیمی قابلیت اور اس کے
سالانہ نتائج کی بنیاد پر سرپلس کا فیصلہ کیا جائے۔اس طرح ایک کام کرنے
والے محنتی اور قابل استاد کی عزت افزائی بھی ہو گی اور تدریسی عمل سے دور
اور ناقص نتائج کے حامل اساتذہ کے لئے ایک عبرت بھی۔میں سیکرٹری ایجوکیشن
سکولز عبدالجبار شاہین سے اس حوالے سے ملتمس ہوں کہ حکومت پنجاب کے تعلیمی
اہداف کا حصول قابل اور محنتی اساتذہ کا مرہون منت ہے اور اگر کسی حکومتی
پالیسی سے ایسے قابل ،محنتی اور اعلیٰ تعلیم یا فتہ اساتذہ کسی پریشانی کا
شکار ہوتے ہیں تو یہ بات انصاف سے کوسوں دور ہے۔ویسے بھی حکومت پنجاب جدید
نصاب سے نابلد اور کم تعلیم یافتہ اساتذہ کو محکمہ پر بوجھ سمجھتی ہے اور
انہی کم تعلیم یافتہ اساتذہ کی وجہ سے حکومت پنجاب کے تعلیمی اہداف مکمل
طور پر حاصل نہیں ہو پا رہے اس لئے میری ان تجاویز پر ہمدردانہ غورکیا جائے
اور محکمہ پر بوجھ اساتذہ کو سرپلس کر کے دیگر سکولوں میں بھیجا جائے۔
قابل،محنتی اورتعلیم یافتہ اساتذہ کو سروس کی طوالت سے قطع نظرانہی سکولوں
میں تعینات رہنے دیا جائے۔حکومت پنجاب کے اس معیار سے کم تعلیم یافتہ
اساتذہ کو یا تو اپنا تعلیمی معیار بہتر بنانا ہو گا یا پھر کسی دیگر جگہ
پر جا کر سروس کرنا ہو گی۔ |