نائیجیریا سے تعلق رکھنے والے ہیریسن اوجگبا اوکین بحر
اوقیانوس میں تین دن تک تقریباً 100 میٹر زیر آب رہے۔ یہ نہ تو کسی مقابلے
میں شریک تھے اور نہ ہی کوئی ریکارڈ بنانا چاہتے تھے بلکہ کشتی کے ڈوبنے کے
بعد وہ پانی میں پھنسے رہے تاوقتیکہ امدادی کارکن ان تک پہنچے۔
وائس آف امریکہ کی رپورٹ کے مطابق اوکین ڈوبنے والی اس کشتی پر بحیثیت
باورچی سوار تھے جو سمندر میں پھنس جانے والے دیگر جہازوں اور کشتیوں کو
کھینچنے کے لیے استعمال کی جاتی تھی۔
|
|
یہ واقعہ مئی میں پیش آیا۔ اس امدادی کارروائی کی وڈیو حال ہی میں انٹرنیٹ
پر جاری کی گئی جس میں لوگوں کی ایک بڑی تعداد دلچسپی لے رہی ہے۔
امدادی کارکن اور غوطہ خور جائے حادثہ پر پہنچے اور وہاں سے چار لاشیں
نکالیں۔ یہ تمام لوگ اس وقت خوف اور حیرت کا شکار ہوئے جب پانی میں نظر آنے
والے ایک ہاتھ کو پکڑنے کے لیے غوطہ خور آگے بڑھا تو اس ہاتھ نے اسے ہی
دبوچ لیا۔
پھر معلوم ہوا کہ یہ ہاتھ اوکین کا تھا جو تین دنوں سے خود کو زیر آب زندہ
رکھنے کی کوششوں میں مصروف تھے۔
اوکین بتاتے ہیں کہ انھوں نے یہ تمام وقت خدا سے وہ دعائیں کرتے ہوئے گزارے
جو ان کی بیوی نے انھیں ارسال کی تھیں۔ ’’میرا یقین ہے کہ میں ان دعاؤں کی
وجہ ہی سے تین دن تک زیر آب زندہ رہا۔‘‘
امدادی ٹیم کے ایک رکن نے بتایا کہ اوکین بے حد خوش قسمت تھا کہ اسے آکسیجن
حاصل کرنے کے لیے ایک جگہ مل گئی ’’لیکن وہ اور زیادہ دن تک شاید زندہ نہ
رہ سکتا۔‘‘
اوکین بتاتے ہیں کہ وہ صبح جلدی بیدار ہونے والوں میں سے ہیں۔ 26 مئی کو
بھی وہ صبح ساڑھے چار بجے جاگے اور اس وقت ٹائلٹ میں تھے کہ پہلے کشتی کو
ایک جھٹکا لگا اور پھر وہ الٹ گئی۔ ’’میں غنودگی میں تھا ہر طرف اندھیرا
تھا۔‘‘
|
|
انھوں نے فوراً کشتی سے لائف جیکٹ تلاش کرنا شروع کی لیکن ان کے ہاتھ اس کے
علاوہ کچھ سامان اور فلیش لائٹس بھی آگئیں۔
وہ کہتے ہیں کہ ڈوبتی کشتی کے ایک کیبن میں انھیں کچھ جگہ نظر آئی۔ وہاں وہ
سخت سردی میں خود کو محفوظ رکھنے کی کوشش کرنے لگے اور اس دوران انھیں اپنی
ماں، اپنے دوست اور سب سے زیادہ اپنی بیوی کا خیال آیا جس سے پانچ سال پہلے
ان کی شادی ہوئی تھی۔
’’میں نے خدا کو یاد کرنا شروع کر دیا۔ وہ سب دعائیں جو میں سونے سے پہلے
پڑھا کرتا تھا اور میری بیوی نے بائیبل سے جو دعا مجھے بھیجی میں وہ بھی
پڑھتا رہا۔‘‘
ان تین دونوں میں اوکین صرف مشروب (کولا) کی ایک بوتل پر گزارہ کرتے رہے۔
انھوں نے بتایا کہ وہ یہ سوچ چکے تھے کہ موت ان کے بہت قریب ہے کہ انھیں
ایک کشتی کے انجن کی آواز سنائی دی اور پھر اس کشتی کا لنگر پانی میں گرایا
گیا۔ انھوں نے کشتی کے عملے کو اپنی طرف متوجہ کرنے کی کوشش بھی کی لیکن
اولاً وہ ناکام رہے۔
پھر اوکین نے اپنی ڈوبی ہوئی کشتی کے اسٹیل سے بنے ایک حصے کو ہتھوڑے سے
بجایا۔ ’’ لیکن میں نے سنا کہ کشتی دور جا رہی ہے اور وہ وہاں سے بہت دور
تھے جہاں میں تھا۔‘‘
جب ہالینڈ میں قائم ایک غوطہ خور کمپنی کے کارکنوں نے اوکین کو بچایا اس
وقت تک اس کے لواحقین کو یہ بتایا جا چکا تھا کہ ڈوبنے والی کشتی کا کوئی
بھی سوار زندہ نہیں بچا۔ |
|