3دسمبر کو عالمی یومِ معذوراں کے موقع پر خصوصی تحریر
تعریف :معذور افراد جنہیں اقوام متحدہ کی ہدایت پر خصوصی افراد بھی کہا
جاتا ہے ایسے افراد کو کہتے ہیں جو کسی ایسے جسمانی یا دماغی عارضے میں
مبتلا ہوں جو انسان کے روزانہ کے معمولاتِ زندگی سرانجام دینے کی اہلیت و
صلاحیت پر گہرے اور طویل اثرات مرتب کرتا ہویا دوسرے لفظوں میں یہ کہ وہ
عارضہ اس فرد کے کام کرنے کی اہلیت یا صلاحیت کو ختم یا کم کر دے ۔
معذوری کی اقسام :
ماہرین کے مطابق معذوری تین قسم کی ہوتی ہے۔
۱:جسمانی معذوری ــ․․․․․جسمانی معذوری سے مراد انسان کے جسم میں ایسا نقص
زخم یا عیب ہے جو انسانی زندگی کے معمولات سر انجام دینے میں رکاوٹ پیدا
کرتا ہو ۔
۲:ابلاغی معذوری ــــــ․․․․․․قوتِ گویا ئی یا سماعت میں کمی یا مکمل طور پر
اس صلاحیت کا نہ ہونا ابلا غی معذوری کہلا تاہے۔
۳:دماغی معذوری ـــــ․․․․․یہ معذوری کی تینوں اقسام میں سب سے زیادہ خطرناک
تصور کی جاتی ہے جس کا اظہار ملک کے نامور ترین سائیکالوجسٹ اور سائیکا
ٹرسٹ ڈاکٹر آئی ۔اے۔ترین نے اپنے ایک آرٹیکل میں ان الفاظ میں کیا ہے :بعض
دماغی امراض کینسر شوگر اور بلڈ پریشر جیسی موزی امراض سے بھی زیادہ خطرناک
ہوتی ہیں :دماغی امراض اکژ اوقات بچپن سے لاحق ہو جاتی ہیں اور بعض دفعہ اس
کا سبب زندگی میں پیش آنے والے تلخ حادثات اور واقعات بھی بن جاتے ہیں
بحرحال ایسی کسی بھی صورت میں اگر بر وقت کسی اچھے معالج سے اس کا علاج
کروایا جائے تو شفا یا بی ممکن ہے ورنہ دوسری صورت میں ایسے افراد معاشرے
اور دھرتی پر بوجھ بن کر رہ جاتے ہیں ۔
معذوری کے چند اہم اسباب :وہ اسباب جو عموماـ کسی نہ کسی معذوری کا سبب
بنتے ہیں ان پر اگر نظر ڈالی جائے تو وہ بظاہر منشیات خصوصا شراب کا کژت سے
استعمال ،ٹریفک حادثات ، بیماری سیلاب اور زلزلے وغیرہ کی صورت میں قدرتی
آفات ،دہشتگردی ،جنگیں اور خودکش دھماکے ہیں لیکن اس کی بنیادی وجوہات
معاشرے میں اجتماعی تعلیم و شعور کی کمی ،مذہب سے دوری اور حکمرانوں کی
تسخیرِعالم کی خواہش ہیں۔
مثلا اگر عوام اگر باشعور اور تعلیم یافتہ ہیں تو ٹریفک قوانین کا پوری طرح
احترام کریں گے جس سے حادثات کم ہوں گے جن کے باعث ہر سال بے شمار افراد
مختلف اعضاء سے محروم ہوجاتے ہیں اسی طرح بعض اوقات معمولی قسم کی بیماری
بھی مناسب اور بروقت علاج معالجہ نہ ہونے کے باعث زندگی بھر کا روگ بن جاتی
ہے معذوری کے اسباب میں ایک اہم کردار مذہب سے دوری کا بھی ہے کہ اﷲ تعالیٰ
قران مجید میں ارشاد فرماتا ہے کہ :تم پر آنے والے مصائب اور مشکلات تمہارے
اپنے ہی ہاتھوں کی کمائی ہے:یاد رہے یہاں پر اس آیت سے مراد یہ نہیں کہ
معذور افراد کی معذوری ان کے کسی گناہ کی سزا کے طور پر ہوتی ہے بلکہ اس سے
مراد قوم کی اجتماعی بداعمالیوں کے نتیجے میں آنے والی قدرتی آفات ہیں جیسا
کہ ایک دوسری جگہ ارشاد فرمایا کہ :ہم اس بڑے عذاب سے پہلے تم پر چھوتے
عذاب بیجھتے ہیں تاکہ تم سمجھ جاؤ :یوں ہماری بد کرداریوں اور ان پر اﷲ پاک
کی چھوٹی سی تنبیہ بعض اوقات لاکھوں افراد کی معذوری کا سبب بن جاتی ہیں
اور ذہنی معذوری کا بڑا سبب بھی اسلام سے دوری ہی ہے تحقیق سے یہ بات ثابت
شدہ ہے کہ جو لوگ مذہب سے لگاؤ رکھتے ہیں ڈپریشن جیسی خطرناک بیماری سے
اکثر ا وقات محفوظ رہتے ہیں تیسری اہم وجہ تاقتور ملکوں کا کمزور اور ترقی
پذیر ممالک کے وسائل پر قبضے کے خواب دیکھنا بھی ہے جس سے عموما ہولناک
جنگیں جنم لیتی ہیں گزشتہ صدی کو جنگوں کی صدی کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا
جن کے نتیجے میں کروڑوں لوگ ہلاک و معذور ہوئے خصوصا گزشتہ تین عشروں میں
ایران ایراق جنگ ،روس افغان جنگ ،بوسینیا پر میلازوچ اور بابک جیسے قصابوں
کی درندگی ،صومالیہ پر امریکی فوج کشی پھر ایراق اور افغانستان پر چڑھائی
اور کشمیر پاکستان اور فلسطین میں آئے روز دہشتگردی کے واقعات کے نتیجے میں
معذور افراد کی تعداد میں بے حد اضافہ کر دیا ہے جو تاحال جاری ہے ۔
معذور افراد کی مشکلات اور دنیا کی کوششیں:جیسا کہ پہلے ارض کیا گیا کہ
بیسیویں صدی کو جنگوں کی صدی کہا جا سکتا ہے جن کے باعث بے شمار لوگ معذور
ی کا شکار ہوئے لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اﷲ پاک خیر سے شر اور شر سے
خیر پید ا کرنے پر قادر ہے اور یہاں بھی یہ ہی ہوا آپ ملاحظہ فرمائیں کہ وہ
ممالک جہاں پچاس کی دہائی سے قبل معذور افراد کا زندہ رہنا ایک جرم تھا
خصوصا جرمنی اور برطانیہ نے معذور افراد کو کبھی مشقت خانوں اور پاگل خانوں
کی زینت بنایا تو کبھی سرے سے ہی ان کا صفایا کر دیا گیا اور آپ یہ جان کر
حیران ہونگے کہ ایسا باقاعدہ قانون سازی سے کیا گیا مثلا برطانیہ کا The
Poor amendment act 1834اور Mental deficiency act 1913ان تمام اقدامات کو
قانونی تحفظ فرائم کرتے رہے یہ سلسلہ نا جانے کب تک جاری رہتا لیکن اسی
دوران دوسری جنگ عظیم برپا ہو گئی اور جب یہ 1944میں اختتام پذیر ہوئی تو
لاکھوں ہلاکتیں اور بے شمار معذور دنیا کے سامنے تھے جنہوں نے ان ممالک کی
سوچ کا دارا بدل دیا اور یہیں سے ہی معذورافراد کی دیکھ بھال اور ان کی
اہمیت کے مد نظر قانون سازی کی گئی خصوصا برطانیہ اور جاپان جو اس جنگ میں
سب سے زیادہ متاثر ہوئے نے معذور افراد کے حوالے سے گراں قدر خدمات سر
انجام دیں برطانیہ کا Disable persons employment act 1944انہی دنوں کی
پیدا وار ہے جس کو برطانیہ نے پچاس سال بعد مذید updateکرتے ہوئے ایک جدید
اور جامعہ قانون کی شکل دے دی جو کہ آجUK Disablity Discrimination act
November 1995 کے نام سے جانا جاتا ہے اور اسی قانون کو آج دنیا بھر میں
معذور افراد کے حوالے سے ایک بہترین قانون کی حیثیت بھی حاصل ہے اسی طرح
1970 میں امریکہ میں بھی Living Independent کے نام سے معذور افراد نے ایک
بھر پور تحریک شروع کی جس کے نتیجے میں امریکہ نے بھی معذور افراد مراعات و
سہولیات دیتے ہوئے انہیں قومی دھارے میں شامل کر لیا ۔
1982ء میں اقوام متحدہ نے معذور افراد کے حقوق کو انسانی حقوق کا درجہ دیتے
ہوئے تمام ممبر ممالک سے مطالبہ کیا کہ معذور افراد کو صحت ،تعلیم اور
ملازمت میں عام افراد کے برابر مواقع فرہم کریں علاوہ ازیں اقوام متحدہ میں
1982ء کو معذور افراد کا عالمی سال قرار دیتے ہوئے ان کیلئے باقائدہ ایک
World Program of actionبھی ترتیب دیا اقوام متحدہ کی معذور افراد میں اس
دلچسپی کا خاطر خواہ پیدا ہوااور دنیا بھر میں معذور افراد کو اقوام متحدہ
کی ہدایت پر نہ صرف Special Persons کا خطاب دیا گیا بلکہ ان کی کفالت اور
ملازمت کا بھی مناسب انتظام کیا جانے لگا ۔
پاکستان اور معذوریت :پاکستان ایک نظریاتی ،اسلامی اور فلاحی مملکت ہے ایسے
میں ہونا تو یہ چائیے تھا کہ پاکستان عالمی تناظر اور اسلامی تعلیمات کی
روشنی میں ایک جامع قانون سازی کرتا لیکن حقائق انتہائی شرم ناک اور بھیانک
صورت حال پیش کرتے نظر آتے ہیں جس کا اندازہ صرف اسی بات سے لگایا جا سکتا
ہے کہ 64برسوں میں پاکستان میں معذور افراد کے حوالے سے صرف ایک قانون
Disable Persons employment and Rehalbilitation ordinance 1981ء میں بنایا
گیا اور ماہرین اس آرڑدیننس کو بھی معذور آرڑدیننس قرار دے کر رد کر چکے
ہیں اگرچہ اس آرڑدیننس میں کا فی خرابیاں ہیں لیکن میں یہاں صرف تین نکات
کا تذکرہ کروں گا ۔
۱:اس آرڈیننس میں معذور افراد کیلئے Handicap کا لفظ استعمال کیا گیا ہے جو
کہ خود اپنے اندر بڑی قباحت رکھتا ہے بہت سے قارئین شاید اس بات کو نہ
جانتے ہوں کہ Handicapکا لفظ برطانیہ اور یورپ میں بھکاری کیلئے استعمال
ہوتا تھا جب وہ اپنی capکو ہاتھ میں پکڑ کر بھیک مانگا کرتے تھے یوں cap in
hand کو ہی Handicap میں تبدیل کر دیا گیا یہاں یہ بات قابل زکر ہے کہ یہ
لفظ اب ان ممالک میں معذور افراد کیلئے ہرگز استعمال نہیں کیا جاتا لیکن
ہمارے ہاں معذور افراد کیلئے موجود واحد آرڈیننس میں آج بھی یہی لفظ معذور
افراد کیلئے درج ہے ۔
۲: آرڈیننس کی دفعہ نمبر دس میں تمام محکموں کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ اپنے
اداروں میں ایک فیصد (جسے بعد میں ۲ فیصد کر دیا گیا)معذور افراد کو بھرتی
کرنے کا پابند ہے لیکن ساتھ ہی دفعہ نمبر گیارہ میں یہ optionبھی رکھ دیا
گیا کہ اگر کوئی محکمہ کسی معذور کو بھرتی نہیں کرنا چاہتا تو وہ فی آسامی
دو ہزار روپے Disability fund میں جمع کروا کر اس پابندی سے استثنا ء حاصل
کر سکتا ہے اندازہ کریں کہ کس طرح معذور افراد کے ملازمت کے حق پر قانونی
ڈاکہ ڈالاگیا اور دفعہ دس کی اہمیت کو دفعہ نمبر گیارہ میں زائل کر کے اس
کو ایک صو ابدیدی اختیار بنا دیا گیا ۔
اس آرڈیننس میں معذور افراد کی بحالی کیلئے ایک عدد نیشنل کونسل برائے
معذور افراد کا تصور بھی ملتا ہے اگرچہ اس کونسل کا قیا م بھی صرف تصورات
کی حد تک ہے لیکن اگر فرض کریں اس کو قائم بھی کر دیا جائے تو اس قانون کے
مطابق اس کونسل میں موجود افراد بھی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ سے ہی لئے جائیں گے جو
کہ ظاہر ہے کہ معذور افراد کے مسائل کی ابجد سے بھی واقف نہیں ہوں گے جبکہ
ہونا تو یہ چائیئے کہ اس چودہ رکنی کونسل میں تمام قسم کے اور اعلیٰ تعلیم
یافتہ معذور افراد کو جگہ دی جائے جن کی بے شک ہمارے ملک میں کمی نہیں ہے
اگرچہ ہمارے ملک میں معذور افراد کی کبھی خاص حوصلہ افزائی نہیں کی گئی
لیکن اب بھی ہمارے ملک میں ڈاکٹر خالد جمیل(ستارہ امتیاز) ،پروفیسر محمد
امین اور سید سردار احمد پیر زادہ جیسے گوہر ان نایاب موجود ہیں جو کہ اس
کونسل کو بطریقِ احسن چلا سکتے ہیں ۔قصہ مختصر یہ کہ معذورافراد کے حوالے
سے اب تک موجود واحد قانون بھی معذورافراد کی بحالی کی بجائے خوایک د
معذورقانون کہلائے جانے کے قابل ہے،معذورکمیونٹی اس بات پر سخت رنجیدہ ہے
کہ اعلیٰ حکومتی ایوانوں میں براجمان اشرافیہ کے جب اپنے مفاد کی بات آتی
ہے تو یہ راتوں رات بل پاس کروالیتے ہیں لیکن ان پونے دوکروڑ زندہ لاشوں پر
یہ ''غریب نواز''ایک نگاہ غلط بھی ڈالنا گوارہ نہیں کرتے ان کیلئے قانون
سازی تو بہت دور کی بات ہے۔
3دسمبر اور اس کے تقاضے :یہ دن ہر سال پوری دنیا میں عالمی یوم معذوراں کے
نام سے منایا جاتا ہے پاکستان میں اس کے منانے کا آغاز 1992ء میں ہوا لیکن
تقریبا بیس سال گزرنے کے باوجود پاکستان کے معذور افراد کے مسائل اور
مشکلات میں کمی کی بجائے مسلسل اضافہ ہی ہو رہا ہے اگرچہ پاکستان میں اس
حرماں نصیب طبقے کی بحالی تو دور کی بات ان کے درست عدد شمار ہی جمع نہیں
کئے گئے لیکن پھر بھی ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں معذور افراد کی
تعداد پونے دو کروڑ تک پہنچ چکی ہے اور ویسے بھی World health organization
2009کی روشنی میں ہر ملک اپنی مجموعی آبادی کا دس فیصد معذور کاؤنٹ کرنے
اور اسی تناسب سے انہیں ملازمت اور دیگر سہولیات فراہم کرنے کا پابند ہے
چنانچہ اسی تناسب سے بھی اگر دیکھا جائے تو پاکستان کی 18کروڑ آبادی کا دس
فیصد تقریبا پونے دو کروڑ ہی بنتا ہے حکومت کو چائیے کہ وہ ہر سال ۳ دسمبر
کو دو چار رٹے رٹائے بیانات اور چند سرکاری کنونشنز میں معذور افراد کیلئے
مگر مچھ کے آنسو بہانے کی بجائے معذور افراد کیلئے اسلامی تعلیمات کی روشنی
میں ایک ٹھوس اور جامع Plan of actionترتیب دے اگرچہ سابقہ حکومت نے دس
اگست ۲۰۰۹ء کو اس سلسلے میں چند اقدامات کا اعلان کیااور معذورافراد کیلئے
سپیشل کارڈ اجراء کیا لیکن کچھ متعلقہ اداروں کی سردمہری اور کچھ حکومت کی
نیت کا کھوٹ یہاں بھی معذورافراد کو کوئی ریلیف نہ دلا سکا موجودہ حکومت نے
بھی ضال ہی میں شروع ہونے والی وزیراعظم یوتھ سکیم میں معذورافراد کیلئے
کوٹہ مختص کرکے ایک مثبت اقدام کیا ہے جس پر معذورکمیونٹی بہت خوش ہے لیکن
اب یہ بات دیکھنے کی ہے کہ اس کوٹے پر کس حد تک عملدرآمد ہوتا ہے یا اس کا
حال بھی ملازمتوں میں دوفیصد کوٹے جیسا ہوتا ہے اور ساتھ ہی ساتھ میری یہاں
میڈیا سے بھی پرزورگزارش ہے کہ وہ دن رات سیاست کرپشن اور مغربی ثقافت کو
ہی فوکس نہ کرے بلکہ ان معذور افراد کے مسائل Hilightکرے اور سب سے بڑھ کر
یہ کہ معاشرے کو چایئے کہ وہ ان افراد کیلئے معذور دوست ماحول کو پروان
چڑھائے تاکہ معذور افراد خود کو تنہا نہ سمجھیں اور زندگی کو ایک چیلینج
سمجھ کر قبول کرتے ہوئے معاشرے اور قوم کیلئے ایک کا ر آمد فرد کا کرادار
ادا کر سکیں ۔ |