جہاد کی تشریعی اور فطری حیثیت
جہاد کی مذکورہ بالا پانچ قسموں میں سے چار دفاعی حیثیت کی حامل ہیں اور
قدرتی طور پر دفاع فطری حق ہے جس میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں۔ دنیا کی
کوئی منطق مسلمانوں کو اس حق سے محروم نہیں کر سکتی ، قرآن کریم بھی اس کی
پر زور حمایت کرتا ہے، جہاد سے متعلق پہلی آیتیں جو نازل ہوئیں وہ سورہ حج
کی آیتیں ہیں جو اس تعبیر سے شروع ہوتی ہیں :
” اذن للذین یقاتلون بانھم ظلموا و ان اللہ علیٰ نصرھم لقدیر۔ الذین اخرجوا
من دیارھم بغیر حق الا ان یقولوا ربنا اللہ و لو لا دفع اللہ الناس بعضھم
ببعض لھدمت صوامع و بیع و صلوات و مساجد یذکر فیھا اسم اللہ کثیرا “(۱۱)
جن لوگوں سے مسلسل جنگ کی جارہی ہے انہیں ان کی مظلومیت کی بناء پر جہاد کی
اجازت دی گئی ہے اور یقیناً اللہ ان کی مدد پر قدرت رکھنے والا ہے ۔ وہ لوگ
جو اپنے گھروں سے بلا کسی حق کے نکال دئے گئے ہیں علاوہ اس کے کہ وہ یہ
کہتے ہیں کہ ہمارا پروردگار اللہ ہے ۔۔۔
اس آیت میں مظلوم کو حملہ آور دشمن سے جنگ کی اجازت دی گئی ہے تاکہ وہ دشمن
کو دفع کر کے توحید کے مظاہر اور آثار شریعت کی حفاظت کر سکے ۔ اسی طرح ایک
دوسری آیت ہے، جسے جہاد سے متعلق اولین آیتوں میں شمار کیا جاتا ہے بلکہ
بعض مفسرین اسے جہاد کے سلسلے کی پہلی آیت قرار دیتے ہیں وہ یہ ہے:
” و قاتلوا فی سبیل اللہ الذین یقاتلونکم “ (۱۲)
جو تم سے جنگ کرتے ہیں تم بھی ان سے را ہ خدا میں جہاد کرو ۔
اس آیتہ کریمہ میں جنگ کی آگ بھڑکانے والوں سے جنگ کرنے کا حکم دیا گیا ہے
۔ جہاد سے متعلق تقریباً تمام آیتیں اسی دفاعی جنگ کے بارے میں ہیں، صرف
ایک ایسی آیت ہے جو مطلق ہے اور اس سے ابتدائی جہاد مراد لیا جا سکتا ہے ۔ |