مقاصد جہاد
قرآن مجید میں مختلف مقامات پر جہاد کے جو مقاصد بیان ہوئے ہیں وہ حسب ذیل
ہیں :
۱۔ دفاع : ”وقاتلوا فی سبیل اللہ الذین یقاتلونکم“ (۱۳)
جو تم سے جنگ کرتے ھیں تم بھی ان سے را ہ خدا میں جھاد کرو ۔
دفع فتنہ ، یہ عام معنی میں مستعمل ہے، اس میں دفاع بھی شامل ہے : ” و
قاتلوھم حتیٰ لا تکون فتنة “ (۱۴)
اور ان سے اس وقت تک جنگ جاری رکھو جب تک سارا فتنہ ختم نہ ہوجائے ۔
حکومت الٰھی کا قیام و اثبات اور سر کشوں کی سر کوبی و اصلاح : ” و قاتلو
ھم حتیٰ لا تکون فتنة و یکون الدین کلّہ للّہ “ (۱۵)
اور تم لوگ ان کفار سے جہاد کرو یہاں تک کہ فتنہ کا وجود نہ رہ جائے اور
سارا دین صرف اللہ کے لئے ہے۔
” الذین عاھدت منھم ثم ینقضون عھدھم فی کل مرة و ھم لا یتقون “(۱۶)
جن سے آپ نے عہد لیا اور اس کے بعد وہ ہر مرتبہ اپنے عہہد کو توڑ دیتے ہیں
اور خدا کا خوف نہیں کرتے۔
” فقاتلوا ائمة الکفر انھم لا ایمان لھم لعلھم ینتھون “ ( ۱۷)
کفر کے سربراہوں سے کھل کر جہاد کرو ان کے قسموں کا کوئی اعتبار نہیں ہے
شاید یہ اسی طرح اپنی حرکتوں سے باز آجائیں۔
الہی نظام کی برقراری اور ممکنہ و آئندہ دشمنوں کے حملے کی پیش بندی :”
قاتلوا الذین لا یومنون باللہ و لا بالیوم الاخر و لا یحرمون ما حرم اللہ و
رسولہ و لا یدینون دین الحق من الذین اوتوا لکتاب حتیٰ یعطوا الجزیة عن
یدوھم صاغرون “ (۱۸)
ان لوگوں سے جہاد کرو جو خدا اور روز آخرت پر ایمان نہیں رکھتے اور جس چیز
کو خدا و رسول نے حرام قرار دیا ہے اسے حرام نہیں سمجھتے اور اہل کتاب ہوتے
ہوئے بھی دین حق کا التزام نہیں کرتے۔ یہاں تک کہ اپنے ہاتھوں سے ذلت کے
ساتھ تمہارے سامنے جز یہ پیش کرنے پر آمادہ ہوجائیں ۔
روئے زمین پر فتنہ و فساد کی روک تھام : ” ولو لاد فع اللہ الناس بعضھم
ببعض لفسدت الارض “ ( ۱۹)
اور اگر اسی طرح خدا بعض کو بعض سے نہ روکتا ہوتا تو ساری زمین میں فساد
پھیل جاتا
مراکز عبادت اور دینی مظاہر کا تحفظ :” و لو لا دفع اللہ الناس بعضھم ببعض
لھدمت صوامع و بیع و صلوات و مساجد “( ۲۰)
اور اگر خدا بعض لوگوں بعض کے ذریعہ نہ روکتا تو تمام گرجے اور یہودیوں کے
عبادت خانے اور مجوسیوں کے عبادت خانے اور مسجدیں سب منہدم کردی جاتیں۔ |