۲) احقاق حق و ابطال باطل : ”
لیحق الحق و یبطل الباطل و لو کرہ المجرمون “ (۲۱)
تاکہ حق ثابت ہوجائے اور باطل فنا ہوجائے چاہے مجرمین اسے کسی قدر برا کیوں
نہ سمجھیں ۔
۳) انسداد ظلم و حمایت مظلومین :” انما السبیل علی الذین یظلمون الناس و
یبغون فی الارض بغیر الحق “ (۲۲)
الزام ان لوگوں پر ہے جو لوگوں پر ظلم کرتے ہیں اور زمین میں ناحق زیادتیاں
پھیلاتے ہیں۔
” و ما لکم لا تقاتلون فی سبیل اللہ و المستضعفین من الرجال و النساء و
الولدان “ ( ۲۳)
اور آخر تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ تم اللہ کی راہ میں اور ان کمزور مردوں،
عورتوں اور بچوں کیلئے جہاد نہیں کرتے ہو۔
ان عنوانات کے تحت جہاد کے اغراض و مقاصد قرآن مجید میں بیان ہوئے ہیں۔
البتہ ان میں کچھ ایسے مقاصد بھی ہیں جو دوسرے مقاصد کے ضمن میں پورے ہو
جاتے ہیں۔ بلکہ یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ بحیثیت مجموعی جہاد کا مقصد انسان
کے فطری اور مسلّمہ حقوق کا دفاع ہے یعنی مسلمانوں کی عزت و آبرو، جان و
مال اور اسلامی سر زمین کا تحفظ و دفاع ۔
اس طرح دفاع کے عنوان سے ابتدائی جہاد کی بھی توجیہ کی جا سکتی ہے کیونکہ
عظیم محقق و مفسر علامہ طباطبائی مرحوم کے بقول توحید اور توحیدی نظام فطری
بنیادوں پر استوار ہے اور اصلاح بشریت کا واحد راستہ ہے” فاقم وجھک للدین
حنیفا فطرة اللہ التی فطرالناس علیھا،لا تبدیل ،لخلق اللہ ذالک دین القیم
“( ۲۴)
آپ اپنے رخ کو دین کی طرف رکھیں اور باطل سے کنارہ کش رہیں کہ یہ دین وہ
فطرت الہی ہے جس پر اس نے انسانوں کو پیدا کیا اور خلقت الہی میں کوئی
تبدیلی نہیں ہوسکتی یقیناً یھی سیدھا اور مستحکم دین ہے ۔
اس کے بعد کوئی چارہ باقی نہیں رہتا کہ احیاء اساس توحید اور نظام توحید کے
لئے تمام انسان مل کر سعی کریں کیونکہ یہ مقصد سب سے بڑا فطری حق ہے ۔ |