”شرع لکم من الدین ما وصی بہ
نوحا و الذی اوحینا الیک و ما وصینا بہ ابراھیم و موسیٰ و عیسیٰ ان اقیموا
الدین و لا تتفرّقوا فیہ “ ( ۲۵) اس نے تمہارے لئے دین میں وہ راستہ مقرر
کیا ہے جس کی نصیحت نوح کو کی ہے، اور جس کی وحی پغمبر تمہاری طرف بھی کی
ہے اور جس کی نصیحت ابراہیم، موسی، اور عیسی کو بھی کی ہے کہ دین کو قائم
کرو اور اسمیں تفرقہ پیدا نہ ہونے پائے۔
عقلائے عالم کے نقطہ نظر سے عظیم ترین فطری حق حق حیات ہے یعنی معاشرے پر
حاکم قوانین کے زیر سایہ زندگی گزارنا، ایسے قوانین جو افراد کے مفادات کی
حفاظت کرتے ہیں اور جیسا کہ بیان کیا جا چکا ے کہ اس حق کا دفاع بھی فطری
حق اور اس کے تحفظ و بقاء کا ضامن ہے ، اگر حق دفاع نہ ہو تو حق حیات بھی
مستکبروں کے ہاتھوں پامال ہو جائے گا ۔
” ولولا دفع اللہ الناس بعضھم ببعض لھدمت صوامع و بیع ۔۔۔۔۔۔۔۔۔“ (۲۶)
اور اگر خدا بعض لوگوں کو بعض کے ذریعہ نہ روکتا ہوتا تو تمام گرجے اور
یہودیوں کے عبادت خانے اور مجوسیوں کے عبادت خانے اور مسجدیں سب منہدم کردی
جاتیں۔
اگر خدائی نظاموں پر مستکبروں کی جارحانہ دست درازی کو روکنے کے لئے دفاعی
طاقت موجود نہ ہو تو دین یعنی وہی فطری حق جس کے سماجی مظاہر، مسجد و کلیسا
جیسے عبادتی مراکز ہیں ، نیست و نابود ہو جائیں گے اور اس کا نام و نشان
بھی باقی نہ رہے گا۔ |