گوگل اور یوٹیوب کی انتظامیہ کے ایک نئے اہتمام کے ساتھ
پاکستان میں یوٹیوب پر پابندی کے خاتمے کے امکانات روشن ہوتے نظر آرہے ہیں۔
اگر گوگل کی انتظامیہ بعض شرائط کو پورا کردیتی ہے تو ایک مقامی سرچ انجن
یوٹیوب ڈاٹ کام ڈاٹ پی کے، کے ذریعے یوٹیوب تک رسائی ممکن ہوجائے گی۔
|
|
ڈان نیوز کے مطابق یہ بات منگل دس دسمبر کو وزیرِ مملکت برائے انفارمیشن
ٹیکنالوجی اور ٹیلی کمیونیکیشن انوشہ رحمان نے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کو
بتائی۔
انوشہ رحمان نے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی پر واضح کیا کہ حکومت گوگل انتظامیہ
کو پاکستانیوں کی مذہبی حساسیت کے حوالے سے قائل کرنے میں کامیاب رہی۔ اس
مقامی سرچ انجن کے ذریعے کسی بھی توہین آمیز یا قابل ِ اعتراض مواد کو
روکنا آسان ہوجائے گا۔
تاہم انہوں نے اس بات کی تصدیق کی کہ گوگل کی انتظامیہ، حکومتِ پاکستان کی
کچھ شرائط کو پورا کرنے کے بعد یہ اقدام اُٹھائے گی۔
وزیرِ مملکت نے کہا کہ ”گوگل اور یوٹیوب کی انتظامیہ نے یوٹیوب کو پاکستان
میں مقامی سرچ انجن بنانے پر آمادگی ظاہر کی ہے۔ اگر اس ویب سائٹ پر کوئی
گستاخانہ مواد رکھنے یا اپ لوڈ کرنے کا ذمہ دار اُسے نہیں ٹھہرایا جائے گا۔“
انوشہ رحمان نے گوگل انتظامیہ کے الفاظ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ
”گستاخانہ مواد اپ لوڈ کرنے پر اس ویب سروس کو ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جائے
گا، اس لیے کہ یہ ایک فرد کا ذاتی عمل ہوگا۔“
انہوں نے بتایا کہ ”پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) ایک قانونی
مسودے کو حتمی شکل دے رہا ہے، وزارت کی منظوری کے بعد جس پر عملدرآمد کیا
جائے گا۔“
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے انفارمیشن اینڈ ٹیکنالوجی کے اراکین کو مطلع
کرتے ہوئے انوشہ رحمان نے واضح کیا کہ جب ایک مرتبہ یوٹیوب مقامی ہوگئی تو
قابلِ اعتراض مواد کو روکنا آسان ہوجائے گا۔
انہوں نے کہا کہ ”گراں قدر فلٹریشن کے نظام کی تنصیب کے بجائے گوگل کے لیے
یہ آسان ہوگا کہ وہ حکومت پاکستان کی درخواست پر توہین آمیز مواد کو بلاک
کردے۔“
انوشہ رحمان نے بتایا کہ ”سعودی عرب اور ملائیشیا بھی گوگل کے ساتھ اسی طرح
کا انتظام کرچکے ہیں۔“
|
|
وزیر مملکت نے واضح کیا کہ یوٹیوب کو مقامی سرچ انجن پر لانچ کرنے کا مطلب
یہ نہیں ہوگا کہ گوگل کے اپنے کمپنی کے قانون برائے آزادیٔ اظہارِ رائے میں
رکاوٹ کی خلاف ورزی نہیں ہوگی۔ گوگل انتظامیہ نے حکومتِ پاکستان سے ایک یہ
درخواست بھی کی تھی۔
دنیا کی اس سب سے بڑی ویڈیو شیئرنگ ویب سائٹ کو سترہ ستمبر 2012ء کو بین
الوزارتی کمیٹی کی جانب سے بلاک کیا گیا تھا۔
وزیر مملکت نے کہا کہ پی ٹی اے کے اندر ایک ٹیم کو بھی یہ ذمہ داری دی گئی
ہے کہ توہین آمیز مواد سمیت قابلِ اعتراض مواد پر نظر رکھے۔
قائمہ کمیٹی کے اراکین کی جانب سے پوچھے گئے سوال کے جواب میں وزیرِ مملکت
نے کہا کہ وہ یوٹیوب کو دوبارہ کھولے جانے کی ایک حتمی تاریخ نہیں دے سکتیں۔
تاہم پی ٹی اے کے نئے چیئرمین ڈاکٹر اسماعیل شاہ نے کہا کہ ”اس پر سے کسی
بھی وقت پابندی ختم ہوسکتی ہے، کل یا پھر ایک ہفتے بعد۔“
انوشہ رحمان کے مطابق ہزاروں لنک کو بلاک کرنا بھی کوئی حل نہیں تھا۔ انہوں
نے تیکنیکی مسائل کی وضاحت کرتے ہوئے کہا ”گوگل پانچ سیکنڈ کے اندر اندر
بلاک کیے گئے مواد کو ایک نئے انٹرنیٹ پروٹوکول (آئی پی) ایڈریس پر رکھ
سکتا ہے۔“
پاکستانی صارفین کو یوٹیوب تک رسائی دینے کے عمل کی رفتار میں اضافے کے
حوالے سے انفارمیشن ٹیکنالوجی کی وزارت کی مدد اور تحقیق کے لیے ایک ذیلی
کمیٹی تشکیل دی گئی تھی۔ |