مریخ پر پہلی بار جھیل کے آثار دریافت

امریکی خلائی تحقیقی ادارے ناسا کی طرف سے مریخ پر بھیجی گئی روبوٹ گاڑی کیوروسٹی نے پہلی بار اس سرخ سیارے کی سطح پر ایسے ثبوت تلاش کیے ہیں جس سے معلوم ہوا ہے کہ اس مخصوص جگہ پر تازہ پانی کی ایک جھیل موجود رہی تھی۔
 

image


ڈوئچے ویلے کے مطابق مریخ کی سطح پر واقع اس مقام پر اب پانی تو موجود نہیں ہے تاہم کیوروسٹی پر موجود سائنسی آلات کے ذریعے وہاں کی زمین کی کھدائی اور چٹانوں کے کیمیائی تجزیے سے یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ ماضی میں موجود رہنے والی پانی کی اس جھیل کے حالات انتہائی چھوٹے جانداروں یعنی بیکٹیریا یا مائیکروبیئل لائف کے لیے سازگار تھے۔ سائنسدانوں کے مطابق یہ صورتحال قریب 3.6 ارب سال پہلے موجود تھی۔

تحقیقی جریدے ’سائنس‘ میں چھپنے والی رپورٹ کے مطابق ان چٹانوں میں کاربن، ہائیڈروجن، آکسیجن، نائٹروجن اور سلفر کے آثار پائے گئے جو ’’سادہ مائیکروبیئل لائف کے لیے بہترین حالات فراہم کرتے ہیں‘‘۔ اس کے علاوہ اس نئی دریافت کے نتائج امریکی ریاست کیلیفورنیا کے شہر سان فرانسسکو میں ہونے والی ’امیریکن جیوفزیکل یونین‘ کی میٹنگ میں بھی پیش کیے گئے۔

سائنسدانوں کے مطابق اس طرح کی بیکٹیریل لائف کے اقسام جنہیں سائنسی اصطلاح میں کیمیو لیتھوآٹوروفس 'chemolithoautotrophs' کہا جاتا ہے، اسی طرح کے حالات میں ہی ہمارے سیارے زمین پر پائی جاتی ہیں، خاص طور پر غاروں اور سمندر کی تہہ کے نیچے موجود سوراخوں وغیرہ میں۔
 

image

اس رپورٹ کے شریک مصنف اور لندن کے امپیریل کالج کے محقق سنجیو گُپتا کے مطابق، ’’یہ پہلا موقع ہے کہ ہمیں درحقیقت ایسی چٹانیں ملی ہیں جو مریخ کی سطح پر جھیلوں کی موجودگی کے ثبوت فراہم کرتی ہیں۔‘‘

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے ان کا مزید کہنا تھا، ’’یہ بہت زبردست ہے کیونکہ جھیلیں سادہ مائیکروبیئل زندگی کی موجودگی، پھیلاؤ اور محفوظ رہنے کے لیے بہترین ماحول کی حامل ہوتی ہیں۔‘‘

گپتا کے مطابق ان چٹانوں میں زندگی کی موجودگی کے کوئی آثار نہیں ملے تاہم اس موبائل سائنس لیبارٹری نے ریتلی اور گارے سے بننے والی چٹانوں میں سوراخ کیے جہاں سے چکنی مٹی جیسی معدنیات موجود تھیں، جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اس مقام پر پانی موجود رہا تھا۔ ریتلی چٹانیں اپنی ساخت کے لحاظ سے ویسی ہی ہیں جیسی زمین پر دریاؤں کے قریب پائی جاتی ہیں جس سے سائنسدانوں کو یہ مفروضہ قائم کرنے میں مدد ملی کہ ایک پہاڑ کے قریب پائی جانے والی اس جھیل میں کبھی دریا آکر گرتا تھا۔

کیوروسٹی اور اس سے قبل مریخ پر بھیجے جانے والی دو روبوٹک گاڑیوں سے حاصل ہونے والی معلومات کے مطابق محققین کو اس سرخ سیارے کے دیگر مقامات پر بھی پانی کے آثار مل چکے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق اس تازہ دریافت سے اس بات کے مضبوط شواہد ملتے ہیں کہ مریخ کے حالات کبھی ماضی میں اس طرح کے موجود رہے ہیں کہ وہاں زندگی ممکن ہو۔
YOU MAY ALSO LIKE:

The universe is feeling a little less lonely these days. Scientists Monday published the strongest evidence yet of an ancient freshwater lake on Mars that could have been home for life as we know it. The lake is dry and there are still no signs of little green men — or even microbes.