اس میں کوئ شک نہیں سیکس زندگی میں بڑے مضبوط حوالے کا
درجہ رکھتا ہے۔ ضرورت یا عدم تسکین کی صورت میں انسان درندہ کیا شیطان کو
بھی مات دے جاتا ہے۔ اس سے جڑے حوالے روزمرہ کی زندگی میں نظر آتے ہیں۔ یہی
صورت پیٹ سے جڑی ہوئی ہے۔ ان دونوں کے منہ زور ہونے میں کوئی شک نہیں لیکن
یہ زندگی کے بہت سے حوالوں میں سے فقط دو حوالے ہیں۔ انہیں مکمل زندگی نہیں
سمجھا جا سکتا۔ یہ منہ زوری اور ناقابل کنٹرول سطع پر اس وقت آتے ہیں جب
شخص انہیں خود پر طاری کر لیتا ہے اور انہیں زندگی سمجھنے لگتا ہے۔
اگر سیکس نسل کشی اور روٹی کو پیٹ بھرنے کا محض ایک ذریعہ سمجھ لیا جائے تو
یقینا درندگی اور شطنت راہ نہ پا سکے گی۔ انسان کو الله نے احسن تخلیق
فرمایا ہے اس لیے یہ کہنا قطعی غلط ہے کہ حاجات نفس اور جذبے اس کی بنیادی
اور حقیقی فطرت کی دسترس سے باہر ہیں۔ جب تک انسان‘ انسان رہتا ہے سب کچھ
اس کے زیردست رہتا ہے جونہی وہ اپنی بنیادی اور حقیقی فطرت سے گرتا ہے احسن
کا درجہ اس سے دوریاں اختیار کر لیتا ہے۔
دنیا کے تمام مذاہب دراصل انسان کو اس کی حقیقی فطرت پر رکھنے کی کوشش کرتے
آئے ہیں۔ مذہب انسان سے کوئ الگ چیز نہیں ہیں۔ یہ انسان ہی کو واضح کرتے
ہیں کہ وہ کیا ہے۔ گویا جب انسان غلط کرتا ہے وہ انسانی مذہب یعنی احسن سے
گرتا ہے اور محض حاجت خواہش ضرورت نفس وغیرہ کی چلتی پھرتی تجسیم ہو کر رہ
جاتا ہے۔ اسے انسان کہنا انسان کی توہین کے مترادف ہوتا ہے۔
اخبار میں ہم جنسی کے متعلق مباحثے کی خبر پڑھنے میں آئ۔ خبر پڑھ کر بڑی
حیرت ہوئ۔ ہم جنسی انسانی مذہب سے لگا نہیں کھاتی تو اس پر کسی قسم کی
گفتگو کا سوال ہی نہیں اٹھتا۔ دوسری بڑی بات یہ ہمارے معاشرتی سسٹم سے باہر
کی چیز ہے۔ یہی نہیں یہ ہمارے کسی بھی مسلک سے متعلق نہیں ہے۔ اسلامی دنیا
کا کوئ مسلک اس فعل کی اجازت نہیں دیتا لہذا اس موضوع پر کسی قسم اور کسی
بھی سطع کی گفتگو نہیں بنتی۔ اس پر آپسی گفتگو اجازت نہیں مباحثوں کا
اہتمام ہونا تو بڑی دور کی بات ہے۔ اگر یہ فعل بد موجود ہے تو ذاتی سطع پر
ہے اور اس کا چرچا برسرعام نہیں کیا جاتا۔
ایک خبر یہ بھی ہے کہ یتیموں اور بے گھر بچوں کی مدد کے نام پر ادارہ کھولا
گیا مدد کی آڑ میں مجبور بےبس اور لاچار بچوں کے ساتھ یہی فعل بد ہو رہا
ہے۔ حکومت کتنی بھی سخت اور اصول پسند کیوں نہ ہو انسان کو احسن کے درجے پر
فائز نہیں کر سکتی۔ انسان اسی وقت تک انسان رہتا ہے جب تک اس کا ایمان الله
کی ذات گرامی پر مضبوط رہتا ہے۔ انسان اپنے خالق کے حکم اور پہلے سے طے شدہ
انسانی حدود سےباہر قدم نہیں رکھتا۔ انسانی مذہب کسی لگی لپٹی کے بغیر واضح
کرتا ہے کہ ہر انسان کو اپنے خالق کے حضور پیش ہونا ہے اور اپنے ہر کیے کا
جواب دینا ہے۔ تجربہ بھی بتاتا ہے کہ کوئ باقی نہیں رہنے کا۔ ہر انسان پر
واضح ہے کہ وہ باقی نہیں رہے گا۔
میں یہاں تحریری طور پر لکھ کر دے رہا ہوں قانون اور دیگر ضابطے برائ کو
ختم نہیں کر سکتے جب تک ہر کوئ یہ سمجھ نہیں لیتا کہ اس کا کیا ریکارڈ میں
آ رہا ہے اوراس کے کیے کے مطابق پھل ملے گا۔ جب میں جانتا ہوں کہ بجلی کی
چوری درست نہیں‘ سارا زمانہ بجلی کی چوری کرتا پھرے‘ میں کیوں کروں۔ انسان
مزدوری کر رہا ہو یا ملازمت یا وہ ملک کا حاکم ہی کیوں نہ ہو بنیادی طور پر
انسانی مذہب (فطرت) ہی پر ہے۔ انسانی مذہب (فطرت) اسے احسن کے درجے سےنیچے
آنے نہیں دیتا۔ نیچے آتا ہے تو انسان نہیں رہتا۔
غیر انسانی افعال سر انجام دینے والوں کو انسان کہنا انسان کی کھلی تذلیل
ہے۔ دانستہ طور پر غیر انسانی افعال سر انجام دینے والے انسان نہیں شیطان
ہیں۔ انسانی تجسیم انسان ہونے کے لیے کافی نہیں۔ حضرت ہاجرہ کے پاس شیطان
انسانی بہروپ میں آیا تھا زوجہ حضرت ایوب کے پاس بھی شیطان انسانی روپ میں
ہی آیا تھا۔ انسانی جسم لے لینے کے بعد اسے انسان کس طرح اور کس بنیاد پر
قرار دیا جا سکتا ہے۔ بالکل اسی طرح فعل بد (جوری ڈاکہ ہیرا پھیری بددیانتی
رشوت غیر فطری جنسی افعال وغیرہ) سے متعلق کو انسان نہیں کہا جا سکتا ہیں۔
انسان انسانی مذہب سے الگ نہیں ہو سکتا۔
اس قماش سے متلعق دیکھنے میں انسان لیکن اپنی اصل میں شیطان ہیں۔ شیطان کو
کنکریاں مارنا ثواب ہے۔ ہر کوئی مکے نہیں جا سکتا اس لیے ان پر واجب ہے کہ
وہ شیطان پر رجم کریں اور اس کی شر سے بچنے کے لیے الله کریم سے مدد طلب
کریں۔ اگر الله کریم توفیق وساءل اور ہمت دے تو کنکریوں کی بوچھاڑ کر دیں۔
دشمن سزا پائے گا اور الله کریم سے اجر عطا ہو گا۔ جہاد اور کس کو کہتے
ہیں۔ گویا آم کے آم گھٹلیوں کے دام۔ یہاں بیٹھے کم از کم حج کے ایک رکن کا
ثواب کمایا جا سکتا ہے۔ |