ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات اور پاکستان مسلسل یہ سزا
کاٹ رہا ہے اور سالہاسال سے کاٹ رہا ہے کبھی یہ سزا طالبان دیتے ہیں کبھی
امریکہ ،کبھی خودکش دھماکے، کبھی ڈرون حملے اور کبھی تو سلالہ اور ایبٹ
آباد تک کے اندر آکر حملے ۔ بہر حال ہر طرف سے اور ہر طرح سے متاثرہ
پاکستان ہی ہے۔ امن پاکستان کا تباہ، معیشت اس کی ڈوبی ہوئی، سڑکیں اس کی
خستہ حال، عوام اس کے مفلوک الحال، تعلیم اسکی نا گفتہ بہ، ہسپتال اس کے
پرائی خیرات سے چلتے ہوئے پھر بھی ہم چپ ہیں کیونکہ امریکہ ہمیں امداد دیتا
ہے وہ امداد کہاں جاتی ہے عوام نہیں جانتے لیکن اس کے بدلے وہ ڈرون کا
نشانہ بھی بنتے ہیں اور انہی ڈرون مارنے والوں کو اسلحہ ، خوراک اور
ضروریات بھی پہنچاتے ہیں، ضروریات ان کی پوری ہوتی ہیں اور سڑکیں ہماری
ٹوٹتی پھوٹتی ہیں اور جب عمران خان نے اس نیٹو سپلائی کو روکنے کے لیے
دھرنا دیا تو ہمارے سیاستدان اس کے خلاف بولنے لگے وہی لوگ جو جب اپوزیشن
میں تھے تو ڈرون بھی ملکی سلامتی اور خود مختاری پر حملہ تھے اور نیٹو
سپلائی بھی قابل نفرین تھی کیونکہ یہ غاصب فوجوں کی رسد تھی جو پہنچائی جا
رہی تھی اور اس کام کے لیے ہمارا ملک اور ہمارے راستے استعمال ہو رہے تھے
لیکن اب ان کی رائے یکسر بدل چکی ہے اور یہ نیٹو ممالک کی دوستی کو مدنظر
رکھ رہے ہیں۔ ڈرون حملوں کے خلاف پورے ملک میں جو غم و غصہ پایا جاتا ہے وہ
کسی سے ڈھکاچھپا نہیں ہے لیکن حکومت اپنی کونسی مخصوص مجبوریوں کے تحت
امریکہ سے خوفزدہ ہے یہ عوام کو اگر بتا دیا جائے تو بہتر ہوگا۔
پاکستان تحریک انصاف نے کچھ ہمت دکھائی ہے تو اس پر میڈیا اور سیاستدان
دونوں اعتراض کر رہے ہیں۔ ہنگو میں ہونے والے ڈرون حملے کے بعد خیبر پختون
خواہ میں پی ٹی آئی کی حکومت نے اس کے خلاف ایف آئی آر درج کروائی جو شروع
میں نامعلوم افراد کے خلاف لکھوائی گئی تھی تاہم بعد میں اس میں پاکستان
میں سی آئی اے چیف جان برینن کو ملزم نامزد کیا گیا۔ معاملہ ایک سیاسی
جماعت کی مخالفت تک رہتا تو اور بات تھی لیکن پنجاب کے وزیر قانون رانا
ثناء اللہ نے اس معاملے میں بھی آئی ایس آئی اور فوج کی جان بخشی مناسب نہ
سمجھی اور فرمایا کہ یہ نام آئی ایس آئی نے عمران خان یا پی ٹی آئی کو دیا
یعنی رانا صاحب اسے سی آئی اے کے خلاف آئی ایس آئی کی سازش سمجھتے ہیں اور
چونکہ ہر معاملے میں اپنی سیاست چمکانا ہمارے سیاستدانوں کا فرض اولین ہے
چاہے اس کے لیے اپنے قومی اداروں کی ساکھ داؤ پر لگا دی جائے یا قومی مفاد
کو بالائے طاق رکھ دیا جائے اس لیے یہاں بھی ایسا کیا گیا ۔یہی حال ہمارے
میڈیا کا ہے کہ اُس نے بھی پینترا بدلا اور امریکہ اور نیٹو کا ہمدرد بن
گیا اور عوام کو بین الاقوامی طور پر اکیلے ہونے سے ڈرانے لگا اور یہ تاثر
دینے لگا ہے کہ جیسے ہماری زمین گندم بھی نیٹو کے حکم سے اُگا تی ہے لہٰذا
اس سے بگاڑ کر ہم بھوکوں مر جائیں گے۔ یہی میڈیا جو جنرل مشرف کی ایک کال
پر ڈھیر ہونے کا ڈھنڈورا پیٹتے نہیں تھکتا تھا اب خود قوم کو مرنے کی
دھمکیاں دے رہا ہے۔ اس بات سے کسی کو انکار نہیں کہ دنیا میں اکیلے رہنا
ممکن نہیں نہ شخصی طور پر نہ قومی اور بین الاقوامی طور پر لیکن اس کا یہ
مطلب بھی نہیں کہ قومی خود مختاری کو امداد کے عوض گروی رکھ دیا جائے اور
قوم کو بھی بے غیرتی کی موت مرنے کا مشورہ دیا جائے۔ ظاہر ہے جب ملک کے
اندر یہ سب ہوگا تو چک ہیگل امریکی وزیردفاع تو اور دھڑلے سے دھمکیاں دے گا
چک ہیگل آیا اور امداد بند کرنے اور پابندیاں لگانے کی دھمکیاں دے کر چلا
گیا لیکن اس سے پہلے ہمارے اپنے بھی یہ کام کر چکے تھے اور اب بھی کر رہے
ہیں ۔ ڈرون اگر صرف مجرموں اور دہشت گردوں کو مارا جاتا ہے تو بھی ایسا
کیوں نہ ہو کہ یہی ٹیکنالوجی پاکستان کو دے دی جائے اور پاکستان خود اپنے
مجرموں کو نشانہ بنائے نہ کہ اسکی سرزمین غیروں کی جنگ کی آما جگاہ بنی رہے
۔ مجھے اِن عرب ، ازبک، تاجک اور افغان جنگجوں سے بھی کوئی ہمدردی نہیں جو
ہمارے ہی قبائلی علاقوں میں بیٹھ کر ہمارے ہی لوگوں کا قتل عام کر رہے ہیں
لیکن اُن کے لیے بھی ہر گز کوئی نرم گوشہ نہیں جو ہزاروں میل دورسے آکر
اپنی جنگ ہمارے ملک میں لڑتے ہیں کیونکہ اسی امریکہ اور اسکے دوستوں نے غیر
ملکیوں کو یہاں مستحکم کیا اور جب چاہا اپنی مرضی کے مطابق استعمال کر لیا
۔نیٹو سپلائی کی بندش کے خلاف بات کرنے والے کہتے ہیں کہ اب تو امریکہ واپس
جا رہا ہے تو کیا ہم اُن کی واپسی کا راستہ روک رہے ہیں تو سوال ہی ہے کہ
کیا وہ سامانِ جنگ جو اس نے ہمارے قتل عام کے لیے براہ راست (ڈرون) یا
بلواسطہ استعمال کیا( یعنی وہ اسلحہ جو اُس نے ہمارے قبائلی علاقوں تک
پہنچایا) کا واپس لے جانا اتنا ضروری ہے جس کے غم میں ہم دُبلے ہوں یا ہم
اس لیے فکر مند ہیں کہ جب امریکہ کسی اور مسلمان ملک پر حملہ آور ہو تو
اُسے نیا اسلحہ نہ بنانا پڑے۔ یہ سوچنا کہ امریکہ افغانستان سے مکمل طور پر
نکل جائے گا بھی حماقت ہے خود اُس کے اعلان کے مطابق بھی وہ مزید دس سال تک
افغانستان میں کسی حد تک ضرور رہے گا یہ اس کا مسئلہ ہے چاہے تو اِس اسلحے
کو رکھے، چاہے تو خود ہی تباہ کر دے اور چاہے تو کسی لمبے راستے سے اس کو
انتہائی زیادہ اُجرت پر نکال کر لے جائے، ہم اپنے ملک کے بارے میں سوچ لیں
تو ہمارے لیے زیادہ بہتر ہوگا ۔ لیکن مسئلہ تو یہی ہے کہ ہم میں سے ہر ایک
صرف اپنی ذات کے لیے سوچتا ہے ہمارا میڈیا تو خیر سب جانتے ہیں کہ امریکہ
سے کروڑوں روپے لینے کا حق ادا کر رہا ہے اور ہماری حکومت شاید امریکی محبت
کے حصول کے لیے کوشاں ہے ،مر رہا ہے تو سڑکوں اوربازاروں میں عام پاکستانی
یا پولیس چوکیوں پر موجود بے چارہ سپاہی یا فوج کے اہلکار جن کی شہادت پر
بھی ہم شک کرتے ہیں یا میرانشاہ، ہنگو، ٹل، کوہاٹ، بنوں، وزیرستان میں ڈرون
سے مرنے والے عام لوگ اُن د و بہنوں کی طرح جن میں سے ایک نے بی ایس سی اور
ایک نے ایف ایس سی تک پہنچنے کے لیے اس لیے محنت کی کہ ڈرون آئے اور انہیں
مار دے دہشت گرد ہونا ضروری تو نہیں۔
نیٹو سپلائی رُک جانے سے جس مالی نقصان کا واویلا کیا جا رہا ہے کیا وہ اُس
نقصان سے زیادہ ہے جو ہمارے ملک کو اس جنگ نے پہنچایا ۔ خدارا ہمارے
سیاستدان اور میڈیا عقل کے ناخن لیں اور ملک کا مفاد پہچانیں، اسے عزیز
رکھیں اور یاد رکھیں کہ عوام پابندیاں اور امداد کی بندش کو زیادہ آسانی سے
برداشت کر لیں گے بہ نسبت موت کے جو اُن کے سروں پر امریکہ، نیٹو اور
طالبان کی صورت میں نا چتی ہے۔ |