ہماری سوچ، ہمارے اراد ے اور ہماری کوششیں محدود ہوتی
جارہی ہیں ، حالانکہ علامہ اقبال نے مسلمانوں کو شاہین کاطرزاپنانے کا
پیغام دیا تھا اور اس پیغام پر آج شاید ہی کو ئی عمل پیرا ہورہاہے ۔ اگر
قوم مسلم کی بدحالی کی وجہ تلاش کرنے کے لئے ہم آگے بڑھتے ہیں تو اس بات کا
احساس ہو گا کہ ہم تعلیمی میدان میں بہت پیچھے ہیں اور ہماری قوم تعلیمی
میدان میں بھی محدود ہوتی جا رہی ہے ۔ دوسری قوموں کا جائز ہ لیا جا ئے تو
وہ مسلم قوم سے بہت آگے بڑھ چکی ہیں اور جس قوم کو علم حاصل کرنا فرض قرار
دیا گیا ہے وہی قوم اپنے فرض سے دور ہوتی جارہی ہے ۔ جب بھی ہم تعلیمی
کمزوری کی بات کرتے ہیں تو اس کے لئے ہم حکومتوں پر الزام عائد کرتے ہیں
اور حکومتوں سے شکایت کرتے ہیں کہ ہمارے تعلیمی نظام کو بہتر بنانے کے لئے
حکومتیں کوشاں نہیں ہیں ۔ لیکن شاید ہی ہم لوگ یہ سوچتے ہیں کہ جتنی لا
پرواہ حکومتیں ہیں اتنے ہی ذمہ دار ہم خود بھی ہیں ۔ آج جب ہم اپنے بچوں کو
کسی اچھے تعلیمی ادارے میں تعلیم دلوانا چاہتے ہیں تو ہم لاکھوں روپئے دینے
کے لئے تیا ر ہو جا تے ہیں اور ان تعلیمی اداروں میں داخلے لینے والوں کی
تعداد ہماری ہی قوم کے لوگوں کی زیادہ ہے ۔ ہم صرف اپنے بچوں کو اچھی تعلیم
دلوانے کے قائل ہیں جبکہ دوسرے ہمارے لاکھوں روپئے لیکر اپنے تعلیمی اداروں
کو مضبو ط بناتے جارہے ہیں اور ہمارے اسکول وکالج مسلمانوں کی طرح ہی بدحال
ہیں ۔ ذرا سوچئے کہ اگر آپ جو رقم غیروں کے ادارے کو فراہم کرتے ہیں اور
اپنے بچے کو اچھی تعلیم دلوانا چاہتے ہیں اگر وہی رقم ہمارے اداروں پر خر چ
کرتے ہوئے ان اداروں میں اچھی سہولیات فراہم کر نے کا موقع دیتے ہیں تو
کتنا بڑا کام ہوگا؟۔ ہاں اگر یہ ناممکن ہے تو دوسرا راستہ یہ ہے کہ قوم کے
امراء و عمائدین ، دانشوران پر مشتمل ایک ایسا ادارہ بنا یا جا ئے جہاں پر
بہتر تعلیم کا نظام ہو ، اعلیٰ تعلیم کی سہولت ہو، غیر ہمارے ادارے میں
داخلہ لینے کے لئے لاکھوں روپئے خرچ کریں اور ان لاکھوں روپیوں سے قوم کے
ضرورت مند بچوں کو اچھی تعلیم دی جاسکے ۔ ایسا ہوسکتاہے اور ایسا ہو ا بھی
ہے۔ ہم یہ نہ سوچیں کہ ہمارے یہاں متحد ہو کر کام کر نے والوں کی کمی ہے ،
ہم یہ نہ سوچیں کہ یہ منصوبہ کامیاب نہیں ہوگا ، ہمیں یہ بھی نہیں سوچنا
چاہئے کہ ہمارے لاکھوں روپیوں کے سرمائے سے دوسروں کو کیوں فائد ہ پہنچائیں
۔ اس طرح کے تعلیمی اداروں کے قیام سے نہ صرف دوسروں کا فائد ہ ہوگا بلکہ
اپنا بھی فائدہ ہے ، ہماری آنے والی نسلوں کا فائدہ ہے ، قوم و ملّت کا
فائدہ ہے ۔ ہماری زندگی کتنے سا ل کی ہو گی ؟۔ پچاس سال ، ساٹھ سال زیادہ
سے زیادہ سو سال ۔ اگر ان سو سالوں میں ہم لوگ فائدہ نہیں حاصل کرسکتے ہیں
تو آنے والے سو سال میں تو ہمارے بچے فائدہ حاصل کرسکیں گے ، ہم رہیں یا نہ
رہیں لیکن ہمارے قائم کر دہ ادارے تو باقی رہیں گے ، اگرسرسید احمد خان نے
صرف اپنے فائدے کے لئے کام کیا ہو تا تو آج علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کاوجود
نہ ہوتا، بابائے اردومولوی عبدالحق کی قائم کردہ عثمانیہ یو نیو رسٹی عمل
میں نہ آتی ، حکیم اجمل خان کا دوا خانہ آج میڈیکل کالجس میں تبدیل نہ ہوتا
، جب کم وسائل اور کم وقت میں ان اکابرین نے اتنے بڑے تعلیمی ادارے قائم
کرنے میں کامیابی حاصل کی ہے تو آج کے اس جدید دور میں ٹکنا لوجی ، وسائل ،
مالدار طبقے کے ہو نے پر بھی ہم کیوں نہیں ایسے ادارے قائم نہیں کرسکتے ؟ ۔
سال1897ء میں انگریز افسر ولیم ہٹرنے بر صغیر ہند میں مسلمانوں کی تعلیمی
حالات پر اپنا جو جائزہ پیش کیا تھا اس میں اس نے کہا تھا کہ مسلمان قوم
دوسری ترقی یافتہ قوموں (برہمن ) سے تعلیمی میدان میں پیچھے ہے ، جب یہ بات
قائد قوم سر سید احمد خان تک پہنچی تو انہوں نے مسلمانوں کے تعلیمی حالات
میں سدھا ر لا نے کے لئے علی گڑھ مسلم یو نیو رسٹی کو قائم کر نے کے لئے
اقدامات اٹھا ئے ، اس دوران انہوں نے جو محنت کی تھی، جو الزام جھیلے تھے
اور جو بدنامی اٹھائی تھی وہ آج بھی تاریخ کے صفحات پر روشن ہیں لیکن ان
تمام کے باوجود علی گڑھ مسلم یونیو رسٹی نے جو کارنامہ پچھلے ایک صدی سے
انجام دیاہے وہ آنے والے وقتوں میں بھی قابل ستائش ہی رہیگا ۔
ہماراوجودہماری کوششوں اور سوچ سے ہی بہتر ہوسکے گا اور اس سوچ کو رکھنے
والے ایک یا دو افراد نہیں ہیں بلکہ ایسے ہزاروں ہیں ۔ اگر یہ ہزاروں لوگ
ایک جگہ جمع ہوجا ئیں تو کچھ بھی ناممکن نہیں ہے ۔ ہنٹرکمیٹی کی رپورٹ میں
مسلمانوں کو برہمن سے کم تر کہا گیا تھا لیکن آج مسلمانوں کو دلتوں سے بد
تر حالت میں ہونے کی بات سچر کمیٹی نے واضح کر دی ہے ، اگر ہم اس کے باوجود
بھی ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھتے ہیں تو یہ قوم مسلم کے زوال کی علامت ہے ۔
قوم میں ایسے کئی لوگ ہیں جواپنا پیسہ کار خیر میں لگانا چاہتے ہیں ، کئی
لوگ ہیں جو قوم کو اپنا وقت دینا چاہتے ہیں اور کئی ایسے لوگ ہیں جو اپنے
نظریا ت کو وسیع رکھتے ہوئے بناء کسی تعصب ، اختلاف اور گر وہ بندی کے کام
کرنا چاہتے ہیں ، اگر یہ تمام مل جائیں تو نہ ہمیں حکومتوں کی بھیک کی
ضرورت پڑھے گی نہ ہی حکومتیں و سیاستدان مسلمانوں کا استحصال کرینگے ۔
اسلئے ہمار ا ماننا اور کہنا ہے کہ ایسے لوگ اکھٹا ہوجا ئیں اور قوم کے لئے
مزید یو نیو رسٹیاں ، تعلیمی ادارے اور ریسر چ سنٹر س کا قیام کریں جو
ہماری نسلوں کے لئے تعلیمی کارخانے بنیں اور وہاں سے قوم کے نوجوان تعلیم
یافتہ اور خود دار قوم کی شکل میں باہر نکلیں ۔ بس خودی کو بلند کر نے کی
ضرورت ہے ۔ |