قرضہ صرف امیروں کیلئے ہے

لمبی لمبی قطاریں نیشنل بنک کے سامنے بعد ازاں فوٹو سٹیٹ کی دکانوں پر دکھائی دے رہی ہیں۔ ہر کوئی بلا سوچے سمجھے وزیر اعظم یوتھ لون پروگرام سے مستفید ہو نے کا متمنی دکھائی دیتا ہے۔ہر شخص خواہش مند ہے کہ اسے قرض مل جائے اور وہ مملکت خداداد میں با عزت روزگار کما سکے۔ فارم حاصل کرتے والوں میں نوجوان اور ادھیر عمر مردو خواتین اور سرکاری ملازمین بھی پیش پیش ہیں۔فارم Free of cost نیشنل بنک سے ملنا تھا۔لیکن حاصل کرنے والے کی ایک بڑی تعداد کے پیش نظر فوٹو کاپی کو بھی قابل قبول قرار دیا گیا۔فوٹو کاپی والوں کی چاندی شروع ہوگئی اور فی فارم 20روپے میں دیا جانے لگا یہ پہلا Stepہے جہاں سے کرپشن اور بدعنوانی شروع ہوئی اور وزیر اعظم کے شفاف پروگرام پر داغ لگ گیا۔بہر حال راقم نے چھ سات لوگوں مختلف لوگوں سے دریافت کیا آپ یہاں کیوں خوار ہورہے ہیں تو انہوں نے کہا کہ قرضہ کی سکیم ہے اور اسے20لاکھ روپے تک قرضہ ملے گا۔ پوچھا کس بنیاد پر قرضہ لے رہے ہو؟ کوئی کاروبار، دوکان، زراعت وغیرہ سے وابستگی ہے۔ جواب ملا ۔نہیں۔ بس اپلائی کررہے ہیں۔پوچھا کہ کوئی شرائط کے بارے میں بھی معلوم ہے۔اسکیs Requirementکا پتہ ہے جواب ملا نہیں۔میں نے کہا میرے بھائی پہلے شرائط تو ملا حظہ کر لیں کہ آپ ان شرائط پر پورا اتر تے ہیں۔اگر پورا اترتے ہیں تو ان کو پورا کرنے کی اہلیت بھی رکھتے ہیں۔اب میرے وہ بھائی کچھ پریشان دکھائی دینے لگے میں نے کہا کہ پریشان مت ہوں یہ پاکستانیوں کے مقدر میں لکھا جاچکا ہے ۔میں آپ کو بتاتا ہوں کہ جو شخص قرضہ کا خواہش مند ہے اس کا پہلے سے کوئی کاروبار۔ذریعہ معاش ہونا چاہیے۔پھر اسکی تمام تفصیلات کہ کتنا انویسٹ کیا ہوا ہے۔آمدن کتنی ہے ؟اخراجات کیا ہیں؟نفع کی شرح کیا ہے؟نقصان کا کتنا اندیشہ ہے؟آئندہ عرصہ میں کیا توقعات ہیں؟متعلقہ شعبہ میں تجربہ کتنا ہے وغیرہ وغیرہ ۔میں نے پوچھا کتنا قرضہ درکار ہے جواب ملا جتنا مل جائے ۔انہیں بتایا کہ میرے بھائی آپ بھی حکومت کی طرح دھول میں لٹھ چلا رہے ہیں۔جو لپیٹ میں آگیا فائدہ ہے۔ پہلے اس کیلئے پلاننگ کریں کتنا قرضہ ہو؟کس مقصد کیلئے ہو؟مختصر یہ کہ انہیں صرف یہ معلوم تھا کہ قرض مل جائے بس۔

اب دوسری طرف آئیے ۔انہیں بتایا کہ اگر پانچ لاکھ روپے قرض لینا ہے تو آپکا ایک ضمانتی(گارنٹر) بھی ہونا چائیے جس کے اکاؤنٹ میں چھ سے سات لاکھ روپے ہونا چائیے۔اورپھر وہ گارنٹر بطور ضمانت ایک چیک بھی گورنمنٹ (بنک) کو دے گا تو کیا آپ نے اس کا کوئی انتظام کیا ؟ کہنے لگے ہمیں تو اس بابت معلوم ہی نہیں۔ اس کا مطلب تو یہ ہواکہ ہمیں تو قرض مل ہی نہیں سکتا۔ بھئی جس کے پاس اتنا سٹرانگ گارنٹر ہوگا تو وہ بجائے حکومت کے جال میں پھنسنے کے۔اس کی منت ترلہ کرکے اس سے رقم بطورقرض نہ لے لے گا کہ جس پر 8 فیصد سود بھی نہیں ہوگا۔ اس کا مطلب یہ بھی ہوا کہ یہ قرضہ تو صرف امیروں کیلئے ہے۔ کیونکہ ان شرائط پر غریب تو پورا اتر ہی نہیں سکتا۔ امیر لوگ اپنے ملازم، مزارعے یا کسی کے بھی نام سے fake اکاؤنٹ کھلواکر اس کی گارنٹی دلواکر قرضہ حال کرلے گا اور پھر ’’جٹ جانے تے بجو جانے‘‘ کے مصداق جس سے ہوسکے گا قرض واپس لے لیگایا پھر وہ بے چارہ غریب ملازم ،مزارعہ جس کے نام پر اکاؤنٹ ہے چکی میں پس جائے گا۔

اب ایک اور کام بھی شروع ہوگا کہ جو کہ کمیٹیاں ان کے کاروبار کی تفصیلات کیلئے وزٹ کریں گی ان کو بھی راضی کرنا ہوگا صاف ظاہر ہے کہ غریب ان کو بھی راضی نہ کرسکے گا تو وہ بلیک لسٹ ہوجائیگا جبکہ یہی کمیٹیاں جب امرا کے پاس جائیں گی تو ان کے منہ بھر دئیے جائیں گے اور امرا قرض کے مستحق قرار پائیں گے۔کہیے کے یہ تو سراسر مذاق ہے ۔غریب کو سر عام ذلیل کیا جارہا ہے ہفتہ بھر سے لائنوں میں لگے بھکاریوں کی طرح فارم کی ڈیمانڈ کررہے ہیں ۔یہ تو ہمار ے ساتھ بھکاریوں سے بھی بدتر سلو ک کیا جارہا ہے۔

کیا حکومت اور شریف برادران کو خوف خدا نہیں ہے۔ ان کے وہ وعدے کہاں گئے۔جو غربت مکاؤ پروگرام کے تھے خوشحالی لانے کے تھے ۔میں نے کہا میرے بھائی 18-19کروڑ عوام میں سے کم از کم دو کروڑ لوگ تو اس کیلئے اپلائی کریں گے۔100روپے فی کس کے حساب سے بنک میں جمع کرانا ہوگا یعنی 2ارب روپے تو عوام سے ہی نکلوالئے گئے 100ارب کا قرضہ دینا ہے۔قرض بنک دے گا 8فیصد بنک وصول کرے گا ۔نفع ہونقصان ہو آ کے 8فیصد سود دینے کے پابند ہیں۔جبکہ 7فیصد گورنمنٹ ادا کرے گی جو کہ عوام کے ٹیکسوں سے ادا کیا جائے گا یعنی ہماری جوتی ہمارا ہی سر۔اگر یہی خطیر رقم کسی پسماندہ علاقے میں کوئی انڈسٹری لگانے پر صرف کردی جاتی تو اس سے بہت سے مثبت نتائج سامنے آتے ۔ بہت سے ان غرباکے بہت سے معاشی مسائل حل ہوجاتے اور باعزت روزگار مہیا ہوجاتا۔ہاتھ پھیلانے کا سلسلہ بند ہوجاتا۔ لیکن چونکہ ہم قرض لینے کے عادی ہو چکے ہیں۔ سود پر ملک کو چلارہے ہیں۔سر سے پاؤں تک سود کی لعنت میں ڈوبے ہوئے ہیں ملک و عوام کی خودداری انانیت ،جان و مال سب داؤ پر لگایا ہوا ہے۔ اس لئے مخصوص ہدایات کے تحت عوام کو بھی اس سلسلے سے منسلک کرکے بھکاری بنانے کا ’’عزم صمیم‘‘ کیا ہوا ہے۔ بہرحال قرضہ صرف امراء کیلئے ہے اور غربا کو کوئی حصہ نہیں

liaquat ali mughal
About the Author: liaquat ali mughal Read More Articles by liaquat ali mughal: 238 Articles with 211665 views me,working as lecturer in govt. degree college kahror pacca in computer science from 2000 to till now... View More