’’وقت کسی کا ساتھ نہیں دیتا‘‘یہ
محاورہ اپنے اندر نہ صرف بہت گہرے معنی رکھتا ہے بلکہ وقت گزرنے کے ساتھ
ساتھ اپنے معنی خود ہی واضح بھی کردیتا ہے۔ دسمبر 1971سے پہلے پاکستان اور
بنگلہ دیش ایک ہی تھے۔ بنگلہ دیش پاکستان کا ہی حصہ تھا مگر دسمبر کے وسط
ہوتے ہی وقت نے کروٹ لی اور پاکستان یک جان سے دولخت ہوگیا۔ جس کے نتیجے
میں بنگلہ دیش معرض وجود میں آگیا۔
16 دسمبر کا دن جنوبی ایشیا کے دو ملکوں کے لیے انتہائی اہم بھی ہے اور
اپنے اندر متضاد معنی اور جذبات بھی رکھتا ہے۔ یہ دن جہاں بنگلہ دیش کے لیے
ان کی آزادی کا دن ہے ادھر ہی یہ پاکستانیوں کے لیے ایک ڈراؤنے خواب کی
حیثیت رکھتا ہے۔ یہ وہ دن ہے جب 1971ء کو ڈھاکہ کے میدان میں ایک بڑے ہجوم
کی موجودگی میں پاکستانی فوج کے مشرقی بازو کے کمانڈر جنرل نیازی نے بھارتی
فوج کے کمانڈر کے سامنے ہتھیار ڈالنے کی تقریب کے بعد ملک کے دوحصے ایک
دوسرے سے عملی اور قانونی طورپر الگ ہوگئے تھے۔
پاکستان اور بنگلہ دیش کا الگ ہونے کاواقعہ اچانک رونما نہیں ہوا بلکہ اس
کے پیچھے برسوں کی محرومیوں اور ناانصافیوں کی ایک طویل داستان ہے ۔ ملک کے
دونوں بازوؤں کے درمیان فاصلوں کا آغاز اسی وقت ہوگیا تھا جب اردو کو ملک
کی سرکاری زبان قرار دیا گیاکیونکہ بنگالی اپنی زبان کو قومی زبان کے درجے
پر فائز دیکھنا چاہتے تھے۔ اس کے لیے چلائی جانے والی تحریک نے پاکستان کے
دونوں حصوں کی علیحدگی کی بنیاد کی پہلی اینٹ رکھی۔ اس تحریک کے نتیجے میں
اردو کے ساتھ ساتھ بنگالی کو بھی ملک کی سرکاری زبان کادرجہ دے دیاگیا۔
جب 1965ء میں پاکستان اور بھارت کے درمیان ٹینکوں کی ایک بڑی جنگ لڑی گئی۔
اس موقع پر مشرقی حصے کی حفاظت کے لیے کوئی قابل ذکر انتظام موجود نہیں
تھا۔جس سے محرومی کے ساتھ عدم تحفظ کے احساس بھی پیدا ہوا۔ انہیں یہ شکایت
بھی تھی کہ مرکزی حکومت کی ملازمتوں میں انہیں ان کا جائز حصہ نہیں مل رہا،
خاص طور پر دفاعی اداروں میں تو ان کی نمائندگی بہت ہی کم ہے۔
اسی دوران عوامی لیگ کے سرکردہ راہنما شیخ مجیب الرحمن کو ایک کیس میں
گرفتار کرکے ان پر مقدمہ چلایا گیا۔شیخ مجیب الرحمن نے فروری 1966ء میں
مندرجہ ذیل چھ نکات پیش کیے:
1: ملک میں وفاقی نظام قائم کیا جائے۔
2: وفاقی حکومت کے پاس صرف دفاع اور امور خارجہ کے محکمے ہوں باقی امور
ریاستوں کے پاس ہوں۔
3: ریاستوں کے لیے جداگانہ مالی پالیسی اختیار کی جائے اور مشرقی پاکستان
کا سکہ الگ ہو۔
4: وفاقی حکومتوں کو ٹیکس لگانے کا اختیار نہیں ہوگا۔
5: مشرقی اور مغربی پاکستان کی بیرونی تجارت کے بھی علیحدہ علیحدہ حسابات
ہوں۔
6: ریاستوں کو نیم فوجی اور علاقائی فوجی دستے رکھنے کا آئینی اختیار ہو۔
یہ نکات مرکزی حکومت کے اختیارات پر شدید ضرب لگاتے تھے۔ مغربی حصے میں یہ
تاثر عام تھا کہ ان نکات کے پیچھے پڑوسی ملک کا ہاتھ ہے ۔ اس لیے وہاں پر
چھ نکات کی شدید مخالفت کی گئی جبکہ بنگال میں انہیں بڑے پیمانے پر پذیرائی
ملی۔مجیب الرحمن نے مطالبہ کیا کہ آئین سازی ان چھ نکات کو بنیاد بنا کر کی
جائے۔ معاملہ آئین سازی کے ذریعے اور اسمبلی میں تو حل نہ ہو سکا تاہم
’میدان‘ میں حل کرنے کی کوشش بھی ناکام ہو گئی اور پاکستان دو لخت ہو گیا۔
ایوب خان کے اقتدار کے خاتمے کے بعد ملک کی باگ دوڑ جنرل یحییٰ کے ہاتھ میں
آگئی۔ انہوں نے ایک آدمی ایک ووٹ کی بنیاد پر انتخابات کرائے ۔جس میں مشرقی
حصے میں شیخ مجیب کی جماعت نے مکمل کامیابی حاصل کی جب کہ مغربی حصے میں
انہیں کوئی نمائندگی نہ ملی۔ یہ پہلا موقع تھا کہ ملک کے مشرقی اور مغربی
حصے کی سیاسی قیادتیں دونوں حصوں کی نمائندہ نہ رہیں۔
مغربی حصے میں پارلیمنٹ میں اکثریت ذوالفقار علی بھٹو کی پیپلز پارٹی کی
تھی۔ وہ چاہتے تھے کہ شیخ مجیب الرحمن اپنے نکات میں کچھ لچک پیدا کریں
لیکن وہ اس پر تیار نہ ہوئے۔ اور ملک کے لیے نئے آئین کی تیاری کا کام آگے
نہ بڑھ سکا۔ادھر مشرقی پاکستان میں علیحدگی کے جذبات میں مسلسل اضافہ ہوتا
رہا۔ اور شدت پسندوں کی جانب سے مغربی پاکستان سے آئے ہوئے ملازموں،
کارکنوں اور کاروباری افراد پر حملے شروع ہوگئے۔
23 مارچ 1971ء کو یوم پاکستان کے موقع پر علیحدگی پسندوں نے ہر جگہ بنگلہ
دیش کے پرچم لہرائے اور تقریبات منعقد کیں۔ اس عرصے میں غیر بنگالیوں پر
تشدد کے واقعات میں مسلسل اضافہ ہوتا رہا۔ انہیں ہلاک کیا گیا اور لوٹ مار
کا نشانہ بنایا گیا۔ اس کانشانہ مغربی پاکستان سے آئے ہوئے کئی سیکیورٹی
اہل کار اور ان کے خاندان بھی بنے۔یہی وہ لمحہ تھا جب جنرل یحییٰ خان نے
فوجی کارروائی کے ذریعے امن وامان قائم کرنے کاحکم دیا۔فوج نے شیخ مجیب کو
گرفتار کرلیا اور باغیوں کے خلاف سخت کارروائی شروع کردی۔کئی مہینوں تک
جاری رہنے والی اس کارروائی میں بڑی تعداد میں بنگالی ہلاک ہوئے ہوئے اور
لاکھوں افراد جان بچانے کے لیے سرحد پار کرکے بھارت چلے گئے۔ بھارت میں
عوامی لیگ کی جلاوطن قیادت نے مکتی باہنی کے نام سے عسکری تنظم قائم کرکے
پاکستانی فوجیوں پر حملے شروع کردیے۔ جب فوج ان کا پیچھا کرتی تو وہ سرحد
پار بھاگ جاتے ، جب کہ سرحد پر بھارتی فوج پاکستانیوں کا راستہ روکتی۔ جس
سے سرحدی کشیدگی میں اضافہ ہونے لگا۔ اور پھر اسی سال دسمبر میں اپنی مشرقی
سرحدوں پر بھارتی فوج کا دباؤ کم کرنے کے لیے جنرل یحییٰ خان نے مغربی
پاکستان کا محاذ کھول دیا جس سے بھارت کو اپنے فوجی دستے مشرقی پاکستان میں
داخل کرنے کا جواز مل گیا۔
پاکستان کی فوج زیادہ دنوں تک مقابلہ جاری نہ رکھ سکی کیونکہ اسے بھارتی
فورسز اور بنگالیوں دونوں کی جانب سے حملوں کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا۔ اور
پھر 16 دسمبر کا وہ لمحہ بھی آن پہنچا جب جنرل نیازی نے پلٹن کے میدان میں
ہتھیار ڈال دیے۔اس جنگ میں پاکستان کے نوے ہزار سے زیادہ فوجی اور سویلین
عہدے دار جنگی قیدی بنالیے گئے ، جن کی واپسی ایک طویل عرصے کے بعد ممکن
ہوسکی۔
پاکستان کو دولخت کرنے میں جہاں کچھ محرومیاں تھیں ادھر ہی شیخ مجیب کی
مکارانہ پالیسیوں کا بھی بڑا عمل دخل تھا۔ شیخ مجیب کی غدارانہ ذہانت کا آج
بیالیس سال بعد پتہ چل رہا ہے جب اس کی بیٹی حسینہ واجد چن چن کر اپنے
دشمنوں سے بدلہ لے رہی ہے۔جس کی مثال عبدالقادر ملا کی پھانسی کے علاوہ کئی
دوسرے جماعت اسلامی کے رہنماوؤں کو جیل میں بند ہونے کی ہیں۔ان کا قصور کیا
تھا؟ حقیقت یہ ہے کہ تصفیہ کے تمام راستے مغربی پاکستان کی سیاسی و عسکری
قیادت نے بند کر دیے تھے اس صورت میں حب الوطنی کا واحد تقاضا یہی تھا کہ
پاکستان کو قائم رکھنے کے لیے فوج کا ساتھ دیا جاتا اور یوں اسلام پسند
عناصر نے یہی راستہ چنا ۔اسلام پسند لوگوں نے اسلامی فوج کا ساتھ دیا تاکہ
ہندو فوج کا مقابلہ کیا جا سکے۔اور آج ملا عبدالقادر کی شہادت کھلم کھلا یہ
پیغام دے رہی ہے کہ خبردار آئندہ فوج کو بھی بے یارومددگار چھوڑ دو۔ وہ فوج
جس کے لیے پاکستانی اپنے منہ کا نوالہ اور خون کا آخری قطرہ دینے کو تیار
ہیں ان کو اس سے روکنے کا واضح پیغام ملا ہے۔ عبدالقادر ملا کا جرم اگر
معلوم نہیں تو ان فوجیوں سے پوچھو جو مشرقی پاکستان میں برسرپیکار تھے۔
سقوط ڈھاکہ کے42 سال بعد آج پھر یہ سوال ہمارے سامنے ہے کہ اس واقعہ سے ہم
نے کیا سیکھا ؟ملک دشمن قوتوں کا ساتھ دینے والے انجام کو کب پہنچیں گے؟کب
ہم کفار کے چنگل سے آزاد ہونگے؟ کیا ہم کبھی ایک امت اور ایک قوم بن سکیں
گے؟ |