لاہور میں ایف سی کالج انڈر پاس
کے قریب نامعلوم موٹرسائیکل سواروں کی فائرنگ سے تحریک نفاذ فقہ جعفریہ کی
سپریم کونسل کے ممبر علامہ ناصر عباس آف ملتان جاں بحق ہوگئے جبکہ ان کا
ڈرائیور منور اور ان کا شاگرد حافظ نجف عباسی زخمی ہوگئے۔ تحریک نفاذ فقہ
جعفریہ اور مجلس وحدت مسلمین نے شدید ردعمل کا اظہار اور 3 روزہ سوگ منانے
کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ ملزموں کی گرفتاری تک گورنر ہائوس کے سامنے
میت رکھ کر احتجاج کیا جائے گا جبکہ رات گئے پولیس کی بھاری نفری شیخ زید
ہسپتال پہنچ گئی۔ ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین نے علامہ ناصر عباس کے
قتل کی پرزور مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ عوام پرامن رہ کر ان سازشوں کو
ناکام بنا دیں۔علامہ ناصر عباس ملتانی شادمان میں مجلس پڑھنے کے بعد رات گے
واپس اپنے گھر جوہر ٹائون جارہے تھے۔ ایف سی کالج کے پاس موٹرسائیکل سوار 2
نامعلوم حملہ آوروں نے اندھادھند فائرنگ کرکے انہیں زخمی کردیا۔ انہیں شدید
زخمی حالت میں ہسپتال پہنچایا گیا لیکن وہ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے خالق
حقیقی سے جا ملے۔ یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ حملہ آوروں نے گاڑی کو سامنے سے
آکر گن پوائنٹ پر روکا اور فرنٹ سیٹ پر بیٹھے صرف علامہ ناصر عباس کو ٹارگٹ
کیا۔ علامہ ناصر عباس آف ملتان کی عمر 47 سال تھی۔ ان کی 2 بیٹیاں ہیں جن
کی عمریں 7 اور 5 سال ہیں۔ رات گئے لوگوں کی ایک بڑی تعداد ہسپتال پہنچ گئی۔
ایس پی (سی آئی اے) سمیت دیگر پولیس آفیسران نے جائے وقوعہ کا معائنہ کیا
اور شواہد اکٹھے کئے۔ بعض عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ انہوں نے صرف فائرنگ
کی آواز سنی۔ ملت جعفریہ کے رہنمائوں سید حامد موسوی، علامہ حسین، کرنل (ر)
شجاعت بخاری اور علامہ رائے مزمل نے اس واقعہ پر شدید ردعمل کا اظہار کیا
اور کہا کہ ان کا قتل ناقابل فراموش واقعہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت فرقہ
وارانہ فسادات ختم کروانے میں ناکام ہوگئی ہے۔ علامہ ناصر عباس پر پہلے بھی
متعدد حملے ہوچکے ہیں اس کے باوجود انہیں سکیورٹی فراہم نہیں کی گئی۔ تحریک
فقہ جعفریہ کے سربراہ علامہ ساجد نقوی نے علامہ ناصر عباس کے قتل کی مذمت
کرتے ہوئے کہا ہے کہ دہشت گردی ملک کے لئے ناسور بن چکی ہے، تحریک نفاذ فقہ
جعفریہ پاکستان کے سیکرٹری اطلاعات حامد علی موسوی نے علامہ ناصر عباس کے
قتل کی پرزور مذمت کی اور فوری گرفتاری کا مطالبہ کیا۔تحفظ عزاداری کونسل
اور وحدت المسلمین نے بھی 3روزہ سوگ کا اعلان اور احتجاج کا اعلان کیا
ہے۔مجلس وحدت المسلمین نے آج رہنمائوں کا ہنگامی اجلاس طلب کر لیا۔سنی
اتحاد کونسل نے علامہ ناصر عباس ملتانی کے قتل کی پرزور مذمت کی ہے۔
اہلسنّت جماعت نے کہا ہے کہ علامہ ناصر عباس کے جاں بحق ہونے کے واقعہ کی
پرزور مذمت کرتے ہیں، تحریک انصاف نے بھی علامہ ناصر عباس کے قتل کی پرزور
مذمت کی ہے۔اپوزیشن لیڈر محمودالرشید نے کہا کہ ان کے قاتلوں کو فوری
گرفتار کیا جائے۔ علامہ طاہر اشرفی نے بھی ملزمان کی گرفتاری کا مطالبہ کیا
ہے۔
وحدت مسلمین کے ترجمان نے اس واقعے کی مذمت کرتے ہوئے حکومت سے ملزمان کو
گرفتار کرنے کا مطالبہ کیا۔تحفظِ عزاداری کونسل نے اس واقعے پر تین روزہ
سوگ کا اعلان کیا ہے۔
اس سے پہلے 6 دسمبر کو لاہور ہی میں ہی حکام کے مطابق نامعلوم مسلح افراد
کی فائرنگ سے اہل سنت والجماعت کے رہنما مولانا شمس الرحمان معاویہ ہلاک
ہوئے تھے۔
مولانا شمس الرحمان معاویہ کی ہلاکت کے بعد تنظیم کے کارکنوں نے اسلام آباد
اور لاہور سمیت مختلف شہروں میں احتجاجی مظاہرے کیے تھے۔
حالیہ مہینے کے اوائل میں ہی ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی میں فائرنگ کے دو
مختلف واقعات میں اہل سنت و الجماعت کے کارکن مفتی احمد اور مجلس وحدت
مسلمین کے رہنما دیدار جلبانی ہلاک ہو گئے تھے۔
اس سے پہلے اسلام آباد کے جڑواں شہر راولپنڈی میں یوم عاشور کے موقع پر
فرقہ وارانہ جھڑپوں میں دس سے زیادہ افراد ہلاک ہو گئے تھے۔
رواں سال اگست میں ہی پنجاب کے ضلع بھکر میں فرقہ وارانہ تشدد کے نتیجے میں
11 افراد ہو گئے تھے جس کے بعد ضلعے میں کشیدگی کے باعث دفعہ 144 نافذ کر
کے غیر اعلانیہ کرفیو نافذ کر دیا گیا تھا۔
https://beta.jang.com.pk/NewsDetail.aspx?ID=155447
علمائے کرام کسی بھی معاشرے کا معتبر ترین طبقہ ہوتے ہیں اور اس طبقے کی
مسلسل ٹارگٹ کلنگ نہ معاشرے کے اتحاد کو پارہ پارہ کر رہی ہے بلکہ علم کی
شمعیں بھی بجھتی جا رہی ہیں، اس سال تئیس علمائے کرام کی زندگی کا چراغ گل
کردیا گیا۔ تئیس جنوری دو ہزار تیرہ کو چکوال میں مولانا خالد سعید کو دہشت
گردوں نے نشانہ بنایا۔ اکتیس جنوری کوکراچی میں مفتی محمد عبدالمجید دین
پوری، مفتی محمد صالح اور احسان علی شاہ کو نامعلوم دہشت گردوں نے قتل
کردیا۔ گیارہ فروری کو کراچی میں قاری محمد عاصم نامعلوم افراد کی گولیوں
کا نشانہ بنے۔ اکیس فروری کو کراچی میں مولانا دلفراز معاویہ کو قتل کیا
گیا۔تئیس فروری کو کراچی کی بھٹائی کالونی میں قاری محمد امین نامعلوم
افراد کی گولیوں کا نشانہ بنے۔دو اپریل کو کراچی ملیر میں سید اشرف حسین
زیدی کو ٹارگٹ کیا گیا۔ چودہ اپریل کوناظم آباد کراچی میں علامہ غضنفر علی
دہشت گردی کی بھینٹ چڑھے۔بیس اگست کو کراچی کے علاقے مارٹن کوارٹرز میں
فیصل قادری کو قتل کیا گیا۔ پچیس اگست کو گلشن اقبال کراچی میں مولانا اکبر
سعید فاروقی قاتلانہ حملے میں جاں بحق ہوئے۔ انتیس اگست کو جمشید ٹاوٴن
کراچی میں مولانا احمد ندیم فاروقی کو قتل کیا گیا۔ اکتیس اگست کو کراچی
اورنگی ٹاوٴن میں ٹرسٹی آف سلمان فارسی امام بارگاہ بوستان علی کو نشانہ
بنایاگیا۔ دس ستمبر کو ناظم آباد کراچی میں سید رضا رضوی کو قتل کیا گیا۔
نو نومبر کو گوجرانوالا میں مولانا محمد یوسف دہشت گردی کا شکار ہوئے ۔تین
دسمبر کو کراچی کے علاقے گلبرگ میں مفتی احمد اور ڈاکٹر عثمان کو نشانہ
بنایا گیا۔ چھ دسمبرکو لاہور میں مولانا شمس الرحمان معاویہ کو دہشت گردی
کا شکار ہوئے۔ پندرہ دسمبر کولاہور میں تحریک نفاذ فقہ جعفریہ کے علامہ
ناصر عباس ملتانی کو ٹارگٹ کرکے قتل کیا گیا۔
طالبان ،لشکر جھنگوی اور القائدہ ملکر پاکستان بھر میں دہشت گردی کی
کاروائیاں کر ہے ہیں اور ملک کو فرقہ ورانہ فسادات کی طرف دہکیلنے کی سرٹوڑ
کوشیشیں کر رہے ہیں۔ سنی اور شیعہ ایک ہی لڑی کے موتی ہیں ،ان کے درمیان
لڑائی اور ایک دوسرے کا خون بہانا درست نہ ہے۔ فرقہ واریت پاکستان کے لئے
زہر قاتل ہے۔
قرآن مجید، مخالف مذاہب اور عقائدکے ماننے والوں کو صفحہٴ ہستی سے مٹانے کا
نہیں بلکہ ’ لکم دینکم ولی دین‘ اور ’ لااکراہ فی الدین‘ کادرس دیتاہے اور
جو انتہاپسند عناصر اس کے برعکس عمل کررہے ہیں وہ اللہ تعالیٰ، اس کے رسول
سلم ، قرآن مجید اور اسلام کی تعلیمات کی کھلی نفی کررہے ۔ فرقہ واریت مسلم
امہ کیلئے زہر ہے اور کسی بھی مسلک کے شرپسند عناصر کی جانب سے فرقہ واریت
کو ہوا دینا اسلامی تعلیمات کی صریحاً خلاف ورزی ہے اور یہ اتحاد بین
المسلمین کے خلاف ایک گھناؤنی سازش ہے۔ ایک دوسرے کے مسالک کے احترام کا
درس دینا ہی دین اسلام کی اصل روح ہے۔
طالبان دہشت گرد گولی کے زور پر اپنا سیاسی ایجنڈا پاکستان پر مسلط کرنا
چاہتے ہیں ۔ نیز دہشت گرد قومی وحدت کیلیے سب سے بڑاخطرہ ہیں۔اسلام
امن،سلامتی،احترام انسانیت کامذہب ہے لیکن چندانتہاپسندعناصرکی وجہ سے پوری
دنیا میں اسلام کاامیج خراب ہورہا ہے۔
پاکستانی طالبان اور فرقہ وارانہ قتل و غارت میں ملوث مسلح گروہ لشکر
جھنگوی خونریزی، قتل و غارت، عسکریت پسندی اور شدت پسندی چھوڑ کر اور
ہتھیار پھینک کر امن و سلامتی کی راہ اختیار کریں اور بے گناہ انسانوں کا
خون بہانا بند کر دیں کیونکہ ان کا دہشت گردانہ طرزعمل اسلام کے بدنامی،
پاکستان کی کمزوری اور ہزاروں گھرانوں کی بربادی کا باعث بن رہا ہے۔
پاکستانی طالبان جان لیں کہ وہ اللہ کی بے گناہ مخلوق کا قتل عام کر کے
اللہ کے عذاب کو دعوت دے رہے ہیں اور اللہ اور اس کے پیارے رسول(ص) کی
ناراضگی کا سبب بن رہے ہیں. پاکستانی طالبان کو سمجھنا چاہیے کہ وہ خودکش
حملے اور بم دہماکےکر کے غیرشرعی اور حرام فعل کا ارتکاب کر رہے ہیں۔
مزاروں، مسجدوں، امام بارگاہوں ،جنازوں اور مارکیٹوں پر حملے اسلامی جہاد
کے منافی ہیں اور مسلم حکومت کے خلاف مسلح بغاوت کسی بھی طرح جائز نہیں ہے۔
انتہا پسند پاکستان کا امن تباہ کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ شدت پسندوں کا یہ
غلط واہمہ ہے کہ وہ قتل و غارت گری اور افراتفری کے ذریعے اپنے سیاسی
ایجنڈے کو پاکستانی عوام پر مسلط کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں؟
معصوم شہریوں کا قتل کرنے والے انسانیت کے دشمن ہیں اور جو لوگ ان دہشت
گردوں کی کھلی حمایت کرتے ہیں وہ بھی انسانیت کے دشمن ہیں۔ و ہ دہشت گرد جو
فوج اور پولیس کے افسروں اورجوانوں کے گلے کاٹیں،اور مساجد، امام بارگاہوں
اورمزارات پر خودکش حملے کرکے معصوم شہریوں کا قتل عام کریں وہ انسانیت کے
کھلے دشمن ہیں اور جولوگ دہشت گردوںکی حمایت کریں ، ان کی مذمت تک نہ کریں
،وہ بھی انسانیت کے دشمن ہیں۔ |