اے طا ئر لاہوتی اس رزق سے موت اچھی
جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی
یہ شعر یقینا آپ سب بچپن سے ہی پڑھتے آئے ہوں گے، لوگوں نے اس کی شرح میں
کتابیں لکھ ڈالیں اور بلا شبہ انہوں نے اعلیٰ کاوش کی اب سوال یہ ہے کے میں
نا چیز نے اس اپنے مضمون میں اس شعر کو کیوں شامل کیا تو اس کی وجہ عرض ہے
کے میرے پاس اور کوئی الفاظ نہیں تھے جن میں نا چیز مذمت کر سکتا رشوت جیسی
لعنت کی اور رشوت ستانی کرنے والوں کی۔رشوت بذ ات خود کسی تعریف کی مستحق
تو نہیں مگر سمجھنے کے لیئے اس کی کئی تعر یفیں بیان کی جاتی ہیں۔ مثلا
جائز کام کو کرنے کے ناجائز پیسے لینا یا اپنے فرض میں شامل ہونے ک باوجود
کوئی کام کرنے کی قیمت سائل سے وصول کرنا جس کے پیسے حکومت بھی آ پکو دے ہی
ہو وغیرہ۔
مگر رشوت کی ایک اور قسم بھی ہے جس کو عمومی طور پہ رشوت نہی سمجھا جاتا
مگر میں فقیر اپنی دانست میں اسے بھی رشوت ہی گردانتا ہوں۔ اسکی ایک مثال
یہ بھی ہے کہ بلا واسطہ طور پہ کسی کومجبور کرنا کہ وہ اس کام کو کرنے کی
بھی آ کو قیمت دے جس کے لیئے آپ حکومت وقت سے خطیر تنخواہ بھی وصول کر رے
ہوں، چلئیے پہیلیاں نہیں حل کرواتا آپ سے میں محکمہ تعلیم کی زیر سرپرستی
ایک بڑی رشوت ،غبن اور غریب عوام کے ساتھ ہو رہی زیادتی کی طرف توجہ مبذول
کرواتا ہوں ،
ہمارے معاشرے میں پرا ئیوٹ کالجز میں طلباء کی تعداد میں اضافے اور گورنمنٹ
کالجز کی ویرانی کی داستان بیان کرتا ہوں، کروڑوں روپے کی لاگت سے تیار
کردہ کالجز خالی ہو رہے ہیں جس کی ایک بڑی وجہ گورنمنٹ کالجز کے استائذہ کے
ذاتی پرائیوٹ کالجز ہیں، بھائی رزق کمانے کا حق سب کو ہے مجھے اور 18 کروڑ
عوام کو شکایت اس بات سے ہے کہ ہمارے معزز استائذہ کرام سرکاری ڈیوٹی کے
اوقات میں اپنے پرائیوٹ کالجز کو (handle) کر رہے ہوتے ہیں اور ان کے پاس
کالج نہ آنے کا جواز بھی ہوتا ہے کہ بھائی گورنمنٹ کالج میں طلباء ہی نہی
آتے تو کیا کریں جا کر تو میں نا چیز کی عرض ہے کہ ملازمت کے حصول کے وقت
آپ نے حکومت سے وقت سے یہ معاہدہ نہیں کیا تھا کے طلباء کالج آ ئیں گے تو
ہی ہم کالج جا کرپڑھائیں گے نہ ہی یہ کہا تھا کہ اگر طلباء نہ آئے تو ہم
کالج جائیں گے نہ ہی نہ پڑھانے کی تنخواہ لیں گے، جب طلباء کے کالج نہ آنے
پر آپ کالج نہ آنے پر کالج میں حاضر ہونا ضروری نہیں سمجھتے تو کیا آپکو اس
بات کا حق ہے کہ آپ بغیر حاضر ہوئے حکومت وقت سے خطیر تنخواہ وصول کریں ؟
جب کالج میں طلباء ہی نہی تو آپ تنخواہ کن کو پڑھانے کی لے رہے ہیں ؟
گستاخی معاف مگر آپکو تنخواہ کالج حاضر ہونے اور طلباء کو پڑھانے کی کی
ملتی ہے ایک بھی طالب علم اگر کالج آتا ہے تو اسے بھی پڑھاناآپکا فرض ہے
اورایک بھی طالب علم نہ آئے تو بھی قاعدے کہ مطابق مقررہ وقت تک آپکی کالج
میں حاضری ضروری ہے،جب طلباء کی کمی کی وجہ سے آپ پڑھانا مناسب نہیں سمجھتے
تو کیا یوں اپنے فرائض سے کوتاہی کر کہ آپ تنخواہ لینا حلال اور جائزسمجھتے
ہیں ؟
چلیئے آپکو بتاتا ہوں کہ طلباء پرئیوٹ کالجز کا رخ کیوں کرتے ہیں ، کیوں کہ
انہیں مجبور کیا جاتا ہے بلا واسطہ طور پہ کہ گورنمنٹ کالج نہ آئیں اور
انکے پاس پرائیوٹ تعلیم حاصل کریں ، اور اس کہ لیئے دانستہ طور پر اکثر
گورنمنٹ کالجز میں لکچرز ہی نہیں لگائے جاتیتا کہ طالب علم تنگ آ کر تعلیم
جاری رکھنے کے لئے انکے پرائیوٹ کالجز میں خطیر رقم بھر کر تعلیم حاصل کریں
اور افسوس کی بات یہ ہے کہ یہاں وہی استائذہ تعلیم دے رہے ہیں جو اپنی
سرکاری مصروفیات کو بالا ئے طاق رکھ کر یہاں تعلیم دے رہے ہیں بلکہ بلا
واسطہ رشوت لے کر تعلیم بیچ رہے ہیں ، کیا یہ رشوت نہیں ؟کیا اس پر اس آیت
کا اطلاق نہیں ہوتا کہ ترجمہ: رشوت لینے والا اور دینے والا دونوں جہنمی
ہیں ۔
اپنی آخرت کے ساتھ ساتھ آپ مجبو ر طلباء کی بھی آخرت خرا ب نہیں کر رہے ؟
اس بات سے قطع نظر کہ کس مجبوری میں انکے والدین اپنا گھر کا بجٹ خراب کر
کہ آپکی فیس بل کہ (رشوت) بھر رہے ہیں ؟ حکومت وقت سے آپ ہزاروں روپے حتیٰ
کہ لاکھوں روپے لے کر بھی آپ اس گناہ میں شریک ہو رہے ہیں ؟
ترجمہ: مومن وہ ہے جس کہ ہاتھ و زبان کے (شر)سے دوسرا مسلمان محفوظ ہو ۔بتایئے
کہ کیا آپ استائذہ کے مقدس پیشہ کا حق ادا کر رہے ہیں ؟ کیا آپ مزید چند
ہزار کہ لئیے اپنی اولاد اپنے خاندان کو رزق حلال کی بجائے رزق حرام نہیں
کھلا رہے ؟ ذرا غور کیجئے ، آپکو پرایؤٹ کالج بنانے یا ان میں پڑھانے سے
نہیں روکا جا رہاصرف گزارش ہے کہ گورنمنٹ کالج میں بھی اپنی ڈیوٹی سر انجام
دیں پھر چاہے جدھر پڑھائیں۔پانچ انگلیاں ایک سی نہیں ہوتیں آج بھی انہی
گورنمنٹ کالجز میں ایسے استائذہ موجود ہیں جو اپنی ڈیوتی بھی سر انجام دے
رہے ہیں بلکہ بلا معاوضہ اپنے مقررہ وقت سے بھی زائد وقت طلباء کی مفت
راہنمائی کرتے ہیں اور پڑھاتے بھی ہیں مفت اوور ٹائم بھی کرتے ہیں اور
مقررہ وقت تک کالج بھی موجود رہتے ہیں اور ایک بھ طالب علم آئے تو اسے بھی
اسی شفقت اور محنت سے پڑھاتے ہیں۔ایسے استائذہ کے لئیے میں فقیر ہمیشہ
بھلائی کا دعا گو ہوں۔ آ ج گورنمنٹ کالج کے پرنسپل صاحب طلباء کا تعلیمی
حرج کروا کر انہیں ریلی میں شرکت کے لئیے لے گئے ہیں جس کا عنوان تھاہفتہ
انسداد رشوت ریلی، اور موصوف ہی اپنا پرائیوٹ کالج چلاتے ہیں اور طلباء کو
گورنمنٹ کالج کی بجائے اپنے کالج بھیجتے ہیں یہ کہ کر کہ گورنمنٹ کالج تو
استائذہ ہی نہیں یہاں بس آپکا داخلہ ہو گیا ہے،آپ پرایؤٹ پڑھیں اور حیرت کی
بات کہ اسی گورنمنٹ کالج کے استائذہ اپنی سرکاری ڈیوٹی کہ وقت میں انکی سر
پرستی میں موصوف کے پرائیوٹ کالج حاضری دیتے ہیں۔ مری زباں پہ خود بخود یہ
شعر آ گیا کہ
کتنے معصوم ہیں ترے شہر کے لوگ
قتل کر کے پوچھتے ہیں جنازہ کس کا ہے
مجھے یہ ریلی اس جنازے کی طرح لگی جس میں قاتل خود مقتول کی میت کو کاندھا
دے کہ مگر مچھ کے آنسو بہائے، رشوت کی اتنی بڑی واردات کر کہ عزت مآب
پرنسپل صاحب ریلی کی قیادت کرتے ہے فرماتے ہیں کہ رشوت دینے والا اور لینے
والا دونوں جہنمی ہیں۔ کوی بات بر لگی کسی کو تو معذرت،مقصد تنقید نہیں
اصلاح تھا۔
وائے قسمت قاتل نے تھاما ہے جنازہ مرا احمدؔ
خدا جانے کس کہ ہاتھ پہ میں اپنا لہو تلاش کروں فقیر : سید فہد الطاف احمدؔ |