ڈاکٹروں کی ہڑتال ختم' کیا مریضوں کی مشکلات بھی ختم ہوگئیں؟

 وزیر اعلیٰ کی طرف سے مطالبات کی منظوری اور تحفظ فراہم کرنے کے ساتھ اقدامات کی یقین دہانی کے بعد ڈاکٹروں نے اپنی ہڑتال ختم کردی لیکن کیا ہڑتال ختم ہونے سے پشاور کے شہریوں کی مشکلات ختم ہوگئیں؟ ان مریضوں اور لواحقین کی پریشانی کا ازالہ ہوگیا جو اس ہڑتال کے دوران متاثر ہوئے یا انہیں مالی نقصان اٹھانا پڑا! وہ مریض مہینوں نے گھروں میں تڑپتے ہوئے جان دیدی ان کو دوبارہ زندگی مل جائے گی یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا جواب کوئی بھی نہیں دے گا اور نہ ہی دے سکے گا ڈاکٹروں کا عمل ہو یا حکومت کا انتظامیہ ہو سیاسی قائدین وہ جوابدہ ہیں لیکن سب ہی لوگ خود کو اس سے مبرا سمجھتے ہیں کیونکہ ہمارے ہاں ہر شخص خود کو قانون اور اخلاقی اقدام سے مبرا سمجھتا ہے جبکہ دوسروں کو اس کیلئے مورد الزام ٹھہراتا ہے خود کو کسی قاعدے قانون کا پابند نہیں جبکہ دوسروں سے اس کی پابندی کی توقع رکھتا ہے۔ دنیا میں دو شعبے ایسے ہیں جن کا زیادہ احترام کیا جاتا ہے ان میں ایک صحت کا شعبہ اور دوسرا معلمی کا ہے صحت کے شعبے سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو زندگی دینے کی کوشش کرتے ہیں زندگی اور موت کا اختیار تو انسان کے پاس نہیں تاہم بیماری کی صورت میں صحت یابی کا معاملہ انسان کے ہاتھ میں دیدیا گیا اس شعبے میں آنے والی شخصیات کا اپنا ایک کردار ہوتا ہے کیونکہ وہ انسانیت کی خدمت کر رہے ہوتے ہیں ان کا کردار اس قدر مضبوط ہوتا ہے کہ وہ نہ تو لالچ میں آتے ہیں اور نہ دھونس اور دھاندلی سے متاثر ہوتے ہیں لیکن ہمارے یہاں معاملہ اس کے بالکل برعکس ہے یہاں کئی کیسوں میں عقل کی بجائے بوٹی یا سفارش چلتی ہے اسی لئے ان کے ہر عمل میں لچک ہوتی ہے اور یہ عمل ہمارے صوبے میں کئی مرتبہ دہرایا گیا ڈاکٹر تقویم الحق کاکا خیل کے اغواء کے بعد جہاں ڈاکٹروں نے ہڑتال کردی انہوں نے ہسپتالوں میں ''نظام صحت کو مفلوج کردیں گے'' کے پوسٹر لگادئیے اور اس پر عمل بھی کر کے دکھادیا ہسپتالوں سے پورے وارڈ کے وارڈ خالی کرالئے گئے مریضوں کو دھکے دے کر وارڈ سے نکال کر وارڈوں کو تالے لگا دیئے گئے جن وارڈوں میں مریض پڑے رہے وہ سسکتے اور بلکتے رہے انسانیت کی خدمت کے دعوے کرنے والوں نے ان کی خبر تک نہیں لی ہر شعبہ زندگی کی طرح ڈاکٹروں کا تحفظ بھی ضروری ہے اغواء کی صورت میں ہڑتال بھی ان کا حق ہے اپنے غم وغصہ کے اظہار میں بھی وہ حق بجانب ہیں لیکن اس کا کیا جواز تھا کہ انہوں نے مریضوں کو وارڈوں سے نکال دیا' ان سے بدتمیزی کی گئی اور مریضوں کو ان کے حال پر چھوڑ دیا گیا ان کا قصور کیا تھا کہ کیا ڈاکٹروں کے اغواء میں ان مریضوں کا ہاتھ تھا وہ اس میں ملوث تھے یا پھر وہ ڈاکٹروں کے اغواء پر خوش تھے؟ اگر اس سوال کا جواب مثبت ہے تو پھر ڈاکٹروں کے ردعمل کو کسی حد تک درست تسلیم کیا جاسکتا ہے اور اگر نہیں تو پھر ان کو سسکتا بلکتا چھوڑ دینے کے عمل کی ذمہ داری کس پر ڈالی جائے ڈاکٹروں کے اس عمل کی وجہ سے وہ معاشرے میں تنہا رہ گئے تھے کسی بھی شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والوں نے ان کا ساتھ نہیں دیا اگر وہ پر امن احتجاج کرتے تو ہر طبقہ زندگی سے تعلق رکھنے والوں کی ہمدردیاں حاصل کرلیتے ان کے عمل سے جہاں مریضوں اور ان کے لواحقین کو پریشانی ہوئی وہاں عام آدمی نے بھی اس حوالے سے جو تاثر لیا وہ ان کی اپنی غلطی کی وجہ سے مزید خراب ہوگیا ہے انسانیت اور دکھی انسانیت کی خدمت کے جس شعبہ سے ان کا تعلق ہے اس میں بڑی بردباری اور تحمل اور برداشت کی ضرورت ہوتی ہے شاید انہیں ہڑتال میں اس بات کا احساس ہوگیا ہوگا ضرورت اس امر کی ہے کہ جہاں عام آدمی مسائل میں مبتلا اور سرگرداں ہے تو اسے مزید سرگرداں اور پریشان کرنے کی بجائے اس کے مسائل حل کرنے کی سوچ اپنائی جائے وہاں حکومت کا بھی یہ فرض ہے کہ وہ امن وامان کی صورتحال کو بہتر بنائے ڈاکٹروں سمیت ہر شعبے زندگی کے لوگوں کو تحفظ فراہم کرے یقیناً دہشتگردی کی وجہ سے حکومت اور سیکورٹی فورسز مصروف ہیں تاہم اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ صوبے اور خصوصاً پشاور میں جنگ کا قانون ہو شرپسندوں کو کھلی چھٹی دی جائے اور وہ جس کو چاہیں اغواء کریں اور جس کو چاہیں قتل کردیں اس سلسلے میں حکومت کو بھی اپنی ذمہ داریاں پوری کرنی ہوںگی اور ان اہم عناصر کو بھی بے نقاب کرنا ہوگا جن کی آشیرباد سے یہ سب کچھ ہو رہا ہے جب تک صورتحال بہتر نہیں ہوگی اس قسم کی وارداتیں ہوتی رہیں گی اور اس کا ردعمل اتنا ہی شدید ہوگا جس طرح ڈاکٹروں کا ردعمل سامنے آیا اور وہ اس میں حق بجانب بھی ہوں گے۔
SULTAN HUSSAIN
About the Author: SULTAN HUSSAIN Read More Articles by SULTAN HUSSAIN: 52 Articles with 48187 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.