اب چلے گی ڈیجیٹل کرنسی

دنیا بدل رہی ہے۔ انسان نے اس دنیا کے رنگوں میں کتنی تبدیلی کی ہے۔ شائد اسے جب اپنی ضروتوں کے لئے دیگر اشیاء کی طلب ہوئی تو سب سے پہلے اسے اس بات کی ضرورت محسوس ہوئی کہ اشیاء کا تبادلہ کیا جائے، لین دین کا یہ اصول ہی بعد میں سکے، روپیہ، پیشہ ، کرنسی کی بنیاد بنا۔لیکن اب کرنسی کے بارے میں بھی رائے تبدیل ہورہی ہے۔ لوگ پھر سے ایک ایسا دور چاہتے ہیں۔ جس میں سرے سے کوئی کرنسی ہی نہ ہو، کیا ایسا ممکن ہے۔ اگر ایسا ہوگا تو دنیا میں ایک سکون آجائے گا، چوری، لوٹ مار،دھوکہ دہی اور قتل و غارت گری کا شائد خاتمہ ہی ہوجائے۔حال ہی میں دنیا کے ممالک میں کرنسیوں پر ایک جنگ جاری ہے۔ مختلف ممالک کے مرکزی بینکوں کے حالیہ بیانات سے ماہرین اقتصادیات نے یہ اندازہ لگایا ہے کہ دنیا کرنسی کی جنگوں کے نئے دور کی دہلیز پر آن پہنچی ہے جس سے عالمی معیشت کو نیا خطرہ درپیش ہے۔ کئی ممالک اپنی قومی کرنسیوں کے مبادلے کی شرح میں زبردستی کمی کرنے لگے ہیں تاکہ اپنی معیشتوں کو تقویت پہنچا سکیں۔یہ طریقہ اپنائے جانے کی ایک وجہ انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ کی طرف سے جاری کردہ نئے اعداد و شمار اور پیشن گوئیوں سے متعلق نئی رپورٹ ہے۔ آئی ایم ایف کے مطابق دنیا کی مجموعی اندرونی پیداوار میں اضافے کی رفتار کم ہوتی جا رہی ہے، ترقی یافتہ ممالک میں افراط زر کی شرح بڑھ چکی ہے۔ اس پس منظر میں سرمایہ کاروں کی سرگرمیاں سست روی کا شکار ہیں جبکہ سرمایہ کاری معاشی ترقی کی اصولی شرط ہوتی ہے۔ حالات میں بہتری لانے کے لیے یورپی یونین کے مرکزی بینک نے اپنی مانیٹری پالیسی کو نرم کرنے کے بارے میں اعلان کیا ہے۔اب عالمی مارکیٹ میں ں ڈالر کے تناسب سے یورو کرنسی کی قدر انتہائی حد تک بڑھ گئی ہے۔ یورپی یونین کے مرکزی بینک کے علاوہ نیو زی لینڈ کے مرکزی بینک اپنی پالیسی تبدیل کر رہے ہیں۔ شرح سود میں کمی کی جا رہی ہے۔ تاکہ قومی کرنسی کی شرح پر قابو پایا جا سکے۔ کرنسی کی جنگیں دنیا کے مختلف علاقوں میں مسلسل جاری ہیں، ان کی اولین وجہ معاشی عدم توازن ہوتا ہے۔ عدم توازن کو دور کرنے کے لیے دنیا کے ممالک اپنی اپنی قومی کرنسیوں کے بارے میں پالیسی میں تبدیلی لاتے ہیں اور آئندہ بھی لاتے رہیں گے۔ تاہم اس طریقے کی کچھ خامیاں ہیں۔ اگر کسی کرنسی کی قدر میں اچانک بہت کمی آئے تو افراط زر میں بہت اضافہ ہو جاتا ہے جس سے معیشت پر ناگوار اثر پڑتا ہے۔ایک کرنسی کی قدر میں کمی سے دوسری کرنسی کی قدر میں اضافہ ہوتا ہے۔ خدشہ ہے کہ یہ ایک ناختم ہونے والا عمل ثابت ہوگا کیونکہ اپنی کرنسی کی قدر میں کمی کرنے کے لیے کچھ ممالک کے اقدامات کو دیکھتے ہوئے دیگر ممالک جوابی اقدامات کر سکتے ہیں۔ یوں بین الاقوامی تجارت کے حجم میں کمی آ سکتی ہے حتی کہ عالمی کرنسی نظام ختم ہو سکتا ہے۔ یاد رہے کہ سن 1944 میں قائم کردہ کرنسی نظام 70 کے عشرے کے اوائل میں ختم ہو گیا تھا جب امریکہ نے اپنی قومی کرنسی کی قدر میں انتہائی کمی کر دی تھی اور ڈالر کی قدر کو سونے کی قیمت سے منسلک کرنا بند کر دیا تھا۔ لیکن اب دنیا میں ایک نئی کرنسی وجود میں آ رہی ہے۔ جو بہت جلد عالمی کرنسی کو روپ دھار لے گی۔ یہ بٹ کوئین ہے۔ انٹر نیٹ کی دنیا کی کرنسی جس کا نہ کوئی بنک ہے نہ چیک بک ، پاس ورڈ کا یہ کھیل دنیا بھر میں چھا رہا ہے۔بٹ کوئنز دنیا کی پہلی ڈیجیٹل مگر انتہائی غیر مستحکم کرنسی ہے جس کا استعمال انٹرنیٹ پر خریداری کے لیے ہوتا ہے۔ چار برس قبل بٹ کوئن (bitcoin) ورچوئل کرنسی میں 22 امریکی ڈالر کی سرمایہ کاری کرنے والے ناروے کے ایک شہری کو اس وقت خوشگوار حیرت کا سامنا کرنا پڑا جب اس سرمایہ کاری پر اسے ساڑھے آٹھ لاکھ امریکی ڈالر کا فائدہ ہوا۔بٹ کوائنز کی قدر میں اس حیرت انگیز اضافے سے 29 سالہ کرسٹوفر کوچ اوسلو کے ایک مہنگے علاقے میں فلیٹ خریدنے کے قابل ہوئے۔ انھوں نے یہ فلیٹ اپنے پانچ ہزار بٹ کوائنز کا پانچواں حصہ بیچ کر حاصل کیکرسٹوفر کوچ نے کہا کہ انھیں ورچوئل کرنسی کی قدر میں اضافے کے بارے میں اخبار میں خبر پڑھ کر اپنی سرمایہ کاری یاد آئی۔انھوں نے کہا کہ انھیں اچانک معلوم ہوا کہ ان کے پانچ ہزار بٹ کوئنز یا سکوں کی مالیت ساڑھے آٹھ لاکھ امریکی ڈالر ہو گئی ہے۔ بٹ کوئین کو ورچوئیل کرنسی بھی کہا جاتا ہے۔اس کرنسی کو صارف اپنے فون یا کمپیوٹر پر موجود ’انکرپٹڈ والِٹ‘ میں رکھتا ہے۔ کوچ نے اس بات کا اعتراف کیا کہ انھیں اپنے سیف کا تالہ کھولنے کے لیے پاس ورڈ یاد کرانے میں خاصا وقت لگا۔ناروے کے میڈیا نے کوچ کے حوالے سے بتایا کہ ’میرے خواب و خیال میں بھی نہیں تھا کہ میری سرمائے کی قدر میں اس قدر اضافہ ہوگا۔انھوں نے کہا کہ’یہ بات عجیب ہے کہ نفسیاتی ردِعمل ہمیں کسی چیز کو اتنی اہمیت دینے پر مجبور کرتا ہے جس کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی۔‘کرسٹوفر کوچ نے کہا کہ سنہ 2009 میں انکرپشن پر تحقیق کرنے کے بعد انھوں نے ورچوئل کرنسی میں سرمایہ کاری کا فیصلہ کیا تھا۔ لیکن یہ کرنسی دنیا میں منی لانڈرنگ کا بھی سبب بن رہی ہے۔ منی لانڈرنگ اپنی ابتدا سے انتہا تک مغربی فساد ہے۔ صرف امریکا میں ہر برس 10 کھرب ڈالر جائز زر میں تبدیل کرکے ساری دنیا میں پھیلا دیے جاتے ہیں۔ بڑے بڑے منظم سینڈیکیٹ، مافیا اسلحہ اور منشیات دنیا بھر میں پھیلائے جارہے ہیں۔ ان کے بجٹ، ان کے منافع کئی چھوٹے ملکوں کے سالانہ بجٹ سے بھی زیادہ ہوتے ہیں۔یہ اتنے طاقتور ہیں کہ دنیا کی اور انسانی تاریخ کی طاقت ور ترین حکومتیں اور ادارے بھی ان کے سامنے بے بس نظر آتے ہیں۔ ناجائز ذرایع سے کمائی گئی ناجائز دولت کے کھربوں ڈالرز کو جائز بنانے کے لیے انھوں نے نت نئے طریقے اپنا رکھے ہیں۔ ابھی دنیا میں کرنسی کے مصائب کم نہیں ہوئے ہیں۔ کب کس کرنسی کی ویلیو گھٹ جائے اور کب کونسی کرنسی قیمتی ہوجائے، یہ حکومتوں کے کھیل ہیں۔ ’’ورچوئل کرنسی‘‘کے ذریعے لاکھوں ڈالرز کے کالے دھن کو سفید بھی کیا جاچکا ہے۔ 28 مئی کو ہفنگٹن پوسٹ، اے بی سی نیوز اور دیگر کئی عالمی خبر رساں اداروں نے رپورٹ دی کہ امریکی حکام نے ’’کوسٹاریکا‘‘ کی رقم منتقل کرنے والی ایک کمپنی کو بند کردیا ہے۔کمپنی کی ویب سائٹ بھی بند ہے۔ اس پر لکھا آرہا ہے کہ اس ’’ڈومین‘‘ کو امریکا کی ’’گلوبل ایلیٹ فنانشل ٹیم‘‘ نے بند کردیا ہے۔ کمپنی کا نام ’’لبرٹی ریزرو‘‘ ہے۔ بی بی سی کا کہنا ہے کہ امریکی حکام کے مطابق ’’لبرٹی ریزرو ڈیجیٹل منی سروس‘‘ 6 ارب ڈالر کی منی لانڈرنگ میں ملوث تھی۔ اب تک 5 گرفتاریاں عمل میں آچکی ہیں۔
 

image

گرفتاریوں میں کمپنی کے بانی آرتھر بڈاسکی بھی شامل ہیں جنھیں اسپین میں حراست میں لیا گیا۔ اب تک ڈھائی کروڑ ملین ڈالر کی رقم کے 45 بینک اکاؤنٹ منجمد کردیے گئے ہیں۔ انٹرنیٹ پر چلنے والے 5 ڈومین بھی بند کیے گئے ہیں۔ دنیا بھر میں 45 کے قریب افراد کی یا تو تلاش جاری ہے یا انھیں حراست میں لیا جاچکا ہے۔ 15 ممالک میں مدد کی 36 درخواستیں روانہ کی جاچکی ہیں۔ کہا جارہا ہے کہ یہ منی لانڈرنگ کی تاریخ کا اب تک کا سب سے بڑا واقعہ ہے۔ اوریہ بٹ کوئین کی بدولت ہی ہوا ہے۔اب کینیڈا میں دنیا کا پہلا بٹکوئن اے ٹی ایم کھول دیا گیا۔ بٹکوئن اے ٹی ایم کی سہولت سے اب کسٹمرز اپنے سمارٹ فونز کے ذریعے کافی اور کیک کاغذ کی روایتی کرنسی کے بغیرخرید سکیں گے۔

مذکورہ اے ٹی ایم وینکوور کی ایک ویویز نامی معروف کافی شاپ پر قائم کیا گیا ہے۔ بٹکوئن اے ٹی ایم مشین کو روبو کوب نے ڈیلیور کیا ہے۔ بٹکوئن دراصل روایتی کرنسی کے متبادل انٹرنیٹ ڈیجیٹل اور ورچوئل کرنسی ہے جو 2008ء میں کمپیوٹر سائنسدان سٹوشی ناکاموٹو نے متعارف کرائی۔اس ڈیجیٹل کرنسی کی سیکورٹی کے لئے کریپٹو گرافی استعمال کی جاتی ہے جس کی نقل یا جعل سازی فی الحال ناممکن ہے۔بٹکوئن استعمال کرنے والے ڈیجٹل والٹ رکھتے ہیں اور رقوم کی منتقلی کے لئے ڈیجیٹل دستخط جس کو ’’پبلک اینکرپشن کی‘‘ بھی کہا جاتا ہے سے تصدیق یا توثیق کی جاتی ہے۔بٹکوئن مائننگ پراسس کے ذریعے تشکیل دی جاتی ہے۔اس عمل سے فی الحال ہر دس منٹ میں 25 بٹکوئن تشکیل دئے جا سکتے ہیں قانون نافذ کرنے والے ایک اہل کار نے نیویارک ٹائمز کو بتایا کہ لبرٹی ریزرو بڑی بڑی رقمیں منتقل کرتا تھا اور بغیر کسی شناخت کے، کوئی بھی فرد اپنی شناخت بتائے بغیر کتنی ہی بڑی رقم کیوں نہ ہو دنیا میں کہیں بھی منتقل کرسکتا تھا۔ یہ مجرموں کے لیے ایک پے پال (رقم کی منتقلی کا برقی ذریعہ) تھا۔ یہ تمام تر سلسلہ کچھ یوں تھا کہ ’’ایل آر‘‘ کے نام کی ایک ڈیجیٹل کرنسی متعارف کروائی گئی تھی جس فرد کو ملک یا بیرون ملک کہیں بھی رقم منتقل کرنی ہوتی وہ ’’ایل آر‘‘ کے دفتر جاکر مقامی کرنسی کے عوض ’’ایل آر‘‘ کے یونٹ خریدتا تھا۔ یہ یونٹ کسی بھی مقدار میں خریدے جاسکتے تھے۔ امریکا آن لائن پیمنٹ کے حوالے سے اختیار کیے جانے والے طریقہ کار سے وابستہ خطرات کا جائزہ لے رہا ہے۔ ان میں پے پال اور بٹ کوائن جیسی کمپینوں کے ذریعے ادائیگیوں کا جائزہ لیا جا رہا ہے۔بعض بینکرز کی طرف سے اس بات پر پریشانی کا اظہار کیا گیا ہے کہ آن لائن مارکیٹ میں بعض نئی کمپنیوں کے مالیاتی نظام پر مضر اثرات ہو سکتے ہیں۔ اس حوالے سے فیڈرل ریزرو آفس کی نائب سربراہ جینیٹ یلین Janet Yellen کا کہنا تھا، ’’ہم اس حوالے سے بینکنگ کمپنیوں سے گزشتہ دو برسوں سے بات چیت کرتے رہے ہیں۔ ہم نہایت احتیاط کے ساتھ یہ سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ ادائیگی کے لیے نئے طریقہ ہائے کار کے حوالے سے کیا تحفظات ہو سکتے ہیں۔‘‘

پے پال دراصل امریکا کی معروف انٹرنیٹ ریٹیل سروس eBay کا حصہ ہے جو آن لائن ادائیگی کی سہولت فراہم کرتا ہے۔تاہم انہوں نے اس بات کی تردید کی کہ ایسی کمپنیاں بنا کسی قانونی دائرہ کار کے بغیر کام کر رہی ہیں۔ ان کا کہنا تھاکہ امریکا میں بہت سے لوگوں کی سوچ سے بھی زیادہ سخت ریگولیٹری ماحول موجود ہے، خاص طور پر صارف کے تحفظ کے حوالے سے۔ چین کے تجارتی مرکز شنگھائی میں ہونے والی انٹرنیشنل مانیٹری کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے جینیٹ یلین کا کہنا تھا، ’’اصل بات یہ ہے کہ امریکا میں ایسے قوانین موجود ہیں جو پے پال اور دیگر آن لان ادائیگی کی سروسز فراہم کرنے والوں پر اطلاق ہوتا ہے۔‘‘پے پال دراصل امریکا کی معروف انٹرنیٹ ریٹیل سروس eBay کا حصہ ہے جو آن لائن ادائیگی کی سہولت فراہم کرتا ہے۔ جینیٹ یلین کا مزید کہنا تھا کہ آن لائن ادائیگیوں کا سلسلہ امریکی حکومت کی نظروں میں ہے اور اس سے وابستہ خطرات کا محتاط جائزہ لیا جا رہا ہے۔
 

image

بٹ کوائن 2009 میں عالمی اقتصادی بحران کے دوران ایک نامعلوم پروگرامر کی طرف سے قائم کی گئی تھی گو کہ بہت سے صارفین اس سروس کو جائز کاموں جیسے دوستوں کو پیسے بھیجنے یا فری لانسرز کے کام کی قیمت چکانے کے لیے استعمال کرتے تھے وہیں سائبر جرائم میں ملوث افراد کی ایک بڑی تعداد بھی اس سروس کو رقوم کی منتقلی کے لیے استعمال کرتی تھی۔ڈیجیٹل کرنسی کی سروسز فراہم کرنے والی کوسٹا ریکا کی کمپنی Liberty Reserve کو قانون نافذ کرنے والے اداروں نے بند کر دیا اور اسکے مالک کو منی لانڈرنگ کے الزام میں سپین سے گرفتار کر لیا گیا۔ابتدائی معلومات کے مطابق کوسٹا ریکا کا شہری آرتھر بڈوسکی Liberty Reserve کے کاروبار کو منی لانڈرنگ کے لیے استعمال کرتا تھا۔ جس پر قانون نافذ کرنے والے اداروں نے کاروائی کرتے ہوئے کمپیوٹر سرورز کو قبضہ میں لے لیا اور اسکے دفاتر کی تالہ بندی کر دی۔دیگر ڈیجیٹل کرنسی سروسز جیسے PayPal کے مقابلے میں Liberty Reserve کا اکاؤنٹ بنانے کے لیے آپ کو نہ تو رجسٹرڈ پتہ کی ضرورت ہوتی ہے اور نہ ہی کسی کریڈٹ کارڈ کی۔ کوئی بھی شخص اپنا نام ، تاریخ پیدائش اور ای میل پتہ درج کرکے اکاؤنٹ کھول سکتا ہے اور اس اکاؤنٹ کو کریڈٹ کارڈ، منی آرڈر یا بینک ٹرانسفر کے ذریعے چارج بھی کیا جاسکتا ہے۔dollarsروس بند ہوجانے سے ہزاروں افراد متاثر ہوئے ہیں جن میں پاکستانی فری لانسرز کی ایک بڑی تعداد بھی شامل ہے، جنہوں نے اپنے اکاؤنٹ سے پیسے نہیں نکلوائے تھے۔ صارفین کمپنی بند ہوجانے سے بہت پریشان ہیں اور متعلقہ حکام سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ انہیں رقوم کی واپسی کا طریقہ کار بتایا جائے۔بعض ماہرین کو خطرہ ہے کہ ورچوئل کرنسی جرائم پیشہ افراد یا دہشت گردوں کے کام آ سکتی ہے یا یہ ہیکرز کے ہتھے بھی چڑھ سکتی ہے۔ گزشتہ ماہ امریکی حکومت نے کوسٹا ریکا میں قائم لبرٹی ریزرو نامی کمپنی کے خلاف غیر قانونی طور پر رقوم کی منتقلی کے الزامات کے تحت تحقیقات بھی شروع کی ہیں۔ اس پر الزام ہے کہ اس نے حکومتی کنٹرول سے باہر کہیں بڑی رقوم منتقل کی ہیں۔عموماً بڑی خریداریاں دیکھنے میں آتی رہیں۔ ’’ایل آر‘‘ کی خریداری کے لیے قطعی طور پر یہ ضروری نہ تھا کہ خریدار اپنی درست اور حتمی شناخت و ذرایع آمدنی بیان کرے۔ خریدار دنیا کے قریباً 17 ممالک میں موجود ’’ایل آر ‘‘ کی شاخوں سے یہ رقم وہاں کی مقامی کرنسی میں وصول یا کسی کو بھی ادا کرسکتا تھا۔ چونکہ یہ تمام تر لین دین ’’تھرڈ پارٹی‘‘ نظام کے تحت ہوتا تھا لہٰذا رقم بھیجنے یا وصول کرنے والے کو اپنی شناخت چھپانے کی مکمل آزادی تھی۔ استغاثہ کے مطابق کریڈٹ کارڈ کے فراڈ، شناخت کی چوری، سرمایہ کاری کے فراڈ، کمپیوٹر ہیکنگ، پورنو گرافی خاص کر چائلڈ پورنو گرافی اور منشیات کی ترسیل وغیرہ کی رقوم کی وصولی اور ادائیگی کا یہ ایک بڑا ذریعہ تھا۔جب کرنسی کا چلن شروع ہوا تھا تو اس وقت سے آج تک ماہرین کبھی بھی لین دین کے اس طریقے پر مکمل اعتماد کا اظہار نہیں کرپائے۔ ہر دور میں یہ کہا جاتا رہا ہے کہ یہ فطین افراد کی کارستانی ہے۔ ان فطین افراد نے دہرا وار کیا ہے۔ ایک جانب لوگوں سے ان کا اصل زر سونے اور چاندی کی شکل میں حاصل کیا تو دوسری جانب عالمی سطح پر حکومتوں کے زر کے مالک بھی بن بیٹھے۔ خاص کر امریکی ریزرو کے بارے میں بھی شدید تحفظات پائے جاتے ہیں۔ خیال کیا جارہا ہے کہ عالمی اصل زر یعنی سونے کے ذخائر آج غیر حکومتی قوتوں کے قبضے میں ہیں۔ بینکوں کا نظام ان کا ہراول دستہ ہے۔ یہ دستہ مصنوعی زر یعنی کرنسی نوٹ تخلیق کیے جارہا ہے لوگوں کو کاغذ کے چند چیتھڑے دے کر خوش کردیا جاتا ہے۔ اب دور مزید آگے بڑھ رہا ہے۔ اب ورچوئل کرنسی کا دور آگیا ہے۔اب ادارے آپ کو کاغذ بھی نہیں دیتے۔ صرف آپ کو چند ہندسے بتا دیے جاتے ہیں۔ آپ کی زندگی اب ان ہندسوں کو بڑھانے سے مشروط کردی گئی ہے۔ ہندسوں کے گھٹنے بڑھنے کا ایسا جال بن دیا گیا ہے کہ افراد اس میں پھنس کر رہ گئے ہیں۔ ذہنی طور پر ہمیں یہ سمجھا دیا جاتا ہے کہ ہندسوں کا نہ ہونا یا کم ہونا اچھی بات نہیں۔ آپ کی اور آپ کی آیندہ آنے والی نسل کی بقاء اسی سے مشروط ہے کہ آپ کے پاس بہت سارے ہندسے ہوں۔ اگر ایسا نہ ہوا تو آپ سسک سسک کر مرجائیں گے۔ انسان خوف اور لالچ کے خمیر سے بنا ہے۔ وہ ڈر جاتا ہے۔ دیکھا گیا ہے کہ روایتی تہذیبوں میں بھی امید اور ڈر ہوا کرتی تھی، لیکن اس دور کے لوگ زیادہ پرسکون اور خوش باش تھے۔ ان پر مصروفیت مشغولیت اور شدید ذہنی دباؤ اور تناؤ کا عذاب بھی مسلط نہیں تھا۔ایک ان دیکھی قوت پر تکیہ کرکے زندگی گزرا کرتی تھی۔ آج کا ایمان اور یقین چند ہندسوں پر آن ٹکا ہے۔ اگر بینک میں یا کسی بھی جگہ آپ کے پاس چند ہندسے ہیں تو آپ جی سکتے ہیں۔ آپ کسی بھی ریسٹورنٹ میں جاکر کچھ بھی کھا سکتے ہیں۔ کھانا کھانے سے توانائی ملی لیکن ہندسے کم ہوگئے۔ اب پھر جت جایئے ان ہندسوں کو بڑھائیے جو توانائی حاصل ہوئی ہے اسے صرف کیجیے۔ اسی طرح اگر آپ بیمار ہوجاتے ہیں تو آپ کو علاج کی اشد ضرورت ہے۔ اگر آپ نے علاج نہ کروایا تو مرجائیں گے۔ اور مرجانا تو بہت ہی بری بات ہے۔آپ کے اکاؤنٹ سے چند ہندسے پھر کسی بڑے اکاؤنٹ میں منتقل ہوچکے ہوں گے۔ اب پھر فوراً جت جائیے اپنے کم ہونے والے ہندسوں کو بڑھانے کے لیے۔ آپ کو بتایا جارہا ہے کہ آپ کی زندگی کے لیے ایک عمدہ گھر یا فلیٹ بھی بہت ضروری ہے۔ آپ کے لیے گاڑی اور ایک بڑی اسکرین کا ٹی وی بھی ضروری ہے۔ کمپیوٹر کا دور ہے اب لیپ ٹاپ اور آئی پیڈ کے بغیر گزارا نہیں۔ آپ کو کتابیں پڑھنے کا چسکا ہے۔ کینڈل لے لیجے۔ اب اس کے بغیر کیا کتاب پڑھنا۔ غرض شدید قسم کی محنت مزدوری کرکے آپ نے جو چند ہندسے جمع کیے وہ بھی اکثر آنے سے پہلے ہی غائب ہوگئے۔

آپ کے پاس نہ اپنے لیے وقت ہے نہ اپنی بیوی کے لیے نہ اولاد کے لیے نہ والدین کے لیے۔ بچے اول تو پیدا ہی کم کیے جائیں جو اس دنیا میں آ بھی جائیں تو وہ ماں باپ کے سینے پر کھیلنے اور پلنے کے بجائے ڈے کیئر سینٹر میں ڈال دیے جاتے ہیں۔ والدین کے جسم کا لمس اور والدین کے جسم کی خوشبو انھیں زندگی بھر نہیں ملتی۔ نتیجے کے طور پر ان میں کبھی والدین کی خدمت کا جذبہ بھی نہیں ابھرتا۔ ان کے والدین کی اخیر عمر اولڈ ایج ہاؤسز میں ہی سسکتے بلکتے ختم ہوتی ہے۔ یہ مادیت کی وہ ورچوئل دنیا ہے کہ جہاں جذبات اور احساسات ایک قدر زائد سے زیادہ نہیں۔ ورچوئل دنیا کی ورچوئل کرنسی نہ جس کے مالکوں کا پتا ہوتا ہے اور نہ جس کے اصل فائدہ اٹھانے والوں کا علم۔اس سنجیدہ معاملے کا تاریک ترین پہلو یہ ہے کہ اسلحہ، منشیات اور پورنو گرافی پر قدغن عائد کرنے میں کوئی سنجیدہ نہیں۔ شاید اس لیے بھی کہ جمہوریت اور سرمایہ داریت کے فروغ کے لیے کرپشن بہرحال ضروری ہے
Ata Muhammed Tabussum
About the Author: Ata Muhammed Tabussum Read More Articles by Ata Muhammed Tabussum: 376 Articles with 387902 views Ata Muhammed Tabussum ,is currently Head of Censor Aaj TV, and Coloumn Writer of Daily Jang. having a rich experience of print and electronic media,he.. View More