یقین مانیے پچھلے دودن سے نہ سوچ قابو میں ہے نہ قلم۔قلم
اٹھاتا ہوں تو دماغ سائیں سائیں کرنا شروع کر دیتا ہے۔ بے بسی میں قلم نیچے
رکھ دیتا ہوں۔دماغ سوچنے سمجھنے کے قابل ہو تو ہاتھ لکھنے سے منکر ہو جاتے
ہیں۔عجیب سی یبوسیت اور نحوست کا شکار ہوں۔اس کیفیت کی وجہ ملا عبدالقادر
کی پھانسی نہیں ۔نہ ہی کال کو ٹھڑی میں موت کی بے رحم اور ظالم آہٹوں کی
چاپ سنتے صلاح الدین کی بے بسی۔مجھے حسینہ واجد کی اسلام دشمنی اور اس کے
اندر چھپی نفرت اس کے بغض اور کینے سے بھی کوئی سروکار نہیں۔میرا مسئلہ یہ
بھی نہیں بھارت پاکستان کی رہی سہی محبت کو بھی بنگالیوں کے دل سے کھرچنے
کی کوشش کر رہا ہے۔نہ ہی مجھے بنگلہ دیش کی خالدہ ضیاء اور جماعت اسلامی سے
ہمدردی ہے کہ جن کے اکثر لیڈر پاکستان کے ساتھ اچھے تعلقات رکھنے کی خواہش
میں قیدو بند کی صعوبتیں برداشت کر رہے ہیں اور کچھ پھانسیوں کے منتظر
ہیں۔میرا وطن تو پاکستان ہے۔مجھے پاکستان سے غرض ہے۔بنگلہ دیش میں جو کچھ
ہو رہا ہے وہ بنگلہ دیش کا اندرونی معاملہ ہے۔
مجھے میرے عظیم وطن کے عظیم سفارتکاروں نے یہی بتایا ہے کہ عبدالقادر ملا
کی پھانسی کا پاکستان سے کوئی تعلق نہیں۔یہ الگ بات کہ ان لوگوں کا جو جرم
بتایا جا رہا ہے وہ آج سر زد نہیں ہوا بلکہ بیالیس سال پرانا ہے۔ اب یہ تو
نرا اتفاق ہے کہ اس زمانے میں ہماری فوج کا ایک ڈویژن بھی وہاں بری طرح
پھنسا ہوا تھا۔حسینہ ان پہ الزام لگاتی ہے کہ یہ لوگ بنگلہ دیش کے غدار ہیں
کہ انہوں نے اس سمے پاکستان کی حمایت کی تھی اور پاکستانی فوج کے ساتھ مل
کے مکتی باہنی اور بھارت کی اس فوج کے ساتھ لڑے تھے جو بنگلہ دیش کو آزادی
دلانے آئی تھی۔انہوں نے لوگوں کو پاکستان کی حمایت میں تہہ تیغ کیا تھا اور
جنگی جرائم کے مجرم ہیں۔پاکستان کے دفتر خارجہ کی نئی ترجمان لیکن کہتی ہیں
کہ ہم عالمی رد عمل پہ نظر رکھے ہوئے ہیں۔اسے کہتے ہیں کہ کیا پدی اور کیا
پدی کا شوربہ۔جو اپنے دارالحکومت میں ایک ذہنی مریض پہ نظر نہیں رکھ سکتے
وہ عالمی ردِ عمل پہ نظر رکھیں ہوئے ہیں۔پاکستان کی حمایت میں اور طالبان
کے خلاف لکھنے والے بھی پاکستان کے ان بزرجمہروں کے بیانات پہ نظر رکھیں
جیسے بنگلہ دیش میں پاکستان کی حمایت میں کٹ مرنے والوں کے پاکستانی وارثوں
نے رکھی ہوئی ہے۔
میری بے بسی کی وجہ یہ ہے کہ جب امریکہ کو کسی جنگ میں افرادی قوت کی ضرورت
پڑتی ہے تو وہ فوراََ ہمیں مسلم امہ کا کاشن دیتا ہے اور ہم لائن بنا کے
بلا سوچے سمجھے اس کے اشاروں پہ ناچنے لگتے ہیں لیکن جب امہ کے اندر ہی امہ
کا ناس مارا جا رہا ہوتا ہے تو طالبان کی حمایت میں پیش پیش وہ لوگ جو
پاکستان میں اپنے آپ کو فکر مودودی کا وارث کہتے اور عافیہ صدیقی کی رہائی
کے لئے ریلیاں نکالتے ہیں کیا انہیں اپنے ان روحانی بھائیوں کی مصیبتیں نظر
نہیں آتیں کہ وہ ان کے لئے بھی قبل از پھانسی کوئی کمزور سی ہی سہی آواز تو
اٹھاتے۔کہیں ایسا تو نہیں کہ یہ آواز اس لئے بلند نہیں ہوئی کہ بنگلہ دیش
کی جماعت اسلامی کی پاکستان بارے سوچ پرانی ہو گئی ۔ مولٰنا مودودی کے
منصورہ والے منبر پہ براجمان مفتی کا فتویٰ تو اب اس فوج کے حق میں نہیں جس
کے لئے بنگلہ دیش کے مجاہد سولی پہ چڑھ رہے ہیں۔قصور منصورے والوں کا بھی
نہیں۔وہ بھی اب سیانے ہو گئے ہیں۔انہوں نے سبق سیکھ لیا ہے کہ جو پاکستان
کی حمایت میں بولتا ہے،بھلے بیالیس سال بعد ہی کیوں نہ ہو اسے پھانسی پہ
جھولنا ہی پڑتا ہے۔کل کلاں کو طالبان بر سر اقتدار آگئے تو ہمیں بھی غدار
کہہ کے کہیں چوکوں میں نہ لٹکا دیا جائے کہ وہ تو ٹریبیونل اور مقدمے کا
تکلف بھی نہیں کرتے۔نہ کوئی وکیل نہ اپیل"دا گز دا مدان اور ٹوپک زما
قانون"اﷲ اﷲ خیر صلا۔یعنی گھوڑا بھی حاضر اور میدان بھی اور اس کے بعد
بندوق کی گولی میرا قانون۔
امہ ،مسلم امہ کی کہانیاں بیچنے والوں سے میرا یہ سوال پوچھنے کو دل چاہتا
ہے کہ جس مسلم امہ کی آپ ہمیں کہانیاں سناتے ہیں۔جس کے آپ ہمیں صدقے واری
جانے کو کہتے ہیں وہ ہمیشہ ہمارے دشمنوں ہی کے ساتھ کیوں کھڑی ہوتی ہے۔ہم
فلسطین کا نام سنتے ہی رکوع میں چلے جاتے ہیں کہ ہم سے ہمارے فلسطینی
بھائیوں کا دکھ دیکھا نہیں جاتا لیکن یاسر عرفات ساری زندگی بھارت ہی کے گن
کیوں گاتا رہا۔ہمیں تو کبھی کسی نے کشمیر پہ کھل کے سپورٹ نہیں کیا۔ایران
سمیت ہر اسلامی کہلانے والا ملک آخر بھارت ہی کی طرفداری کیوں کرتا ہے۔ہم
کمزور سہی،کرپٹ سہی اور نالائق بھی لیکن یہ طاقتور ملک اسلامی اقوام متحدہ
کیوں نہیں بناتے۔عالمی اسلامی بنک کی تشکیل کیوں نہیں کرتے۔اسلامی افواج کو
ایک جھنڈے کے نیچے کیوں جمع نہیں کرتے۔اگر عیسائیوں کی چالیس ملکوں کی
فوجیں مل کے ایک اسلامی ملک پہ حملہ آور ہوتی ہیں تو ہمارا برادر ملک ترکی
ان کی فوجوں کا حصہ کیوں بنتا ہے؟آپ کہیں گے کہ ان ممالک کے اپنے اپنے بلاک
اور اپنے اپنے مفادات ہیں۔دلیل درست تو یہ دلیل پاکستان پہ لاگو کیوں نہیں
ہوتی؟
مجھے مسلم امہ کے تصور سے کوئی پرخاش ہو نہیں سکتی کہ میں محمد عربی ﷺ کا
پیرو ہوں اور انہوں نے تمام مسلمانوں کو جسدِ واحد قرار دیا ہے لیکن کیا
ہمارے یہ مسلما ن بھائی ہمیں مسلمان سمجھتے ہیں یا بھارت کو۔کیا جسد واحد
کا حکم صرف" رفیقوں" کے لئے ہے یا پھر اس کا اطلاق ہمارے " حبیبوں اور
صدیقوں "پہ بھی ہوتا ہے ۔ہم نے کل لٹے پٹے افغانیوں کو انصار بن کے پناہ دی
تھی۔ آج وہ ہمارے ملک کی ہر شے پہ قابض ہیں۔ہمارے معاشرے کا توازن انہوں نے
بگاڑ کے رکھ دیا ہے۔ملک کے طول وعرض میں پھیلے ہمارے یہ زبردستی کے بھائی
ہماری نسلیں ختم کرنے کے درپے ہیں۔کیا یہ بھی جسد واحد کا حصہ ہیں؟
پاکستان اس وقت ۱۹۷۱ء جیسے حالات ہی کا شکار ہے۔ابوالاعلیٰ مودودی کے وارث
اب کی بار فوج کے نہیں طالبان کے ساتھ ہیں۔جب پاکستان بنا تو وہ آزادی کے
مخالف تھے۔پھر پاکستان بن گیا۔ جب بنگلہ دیش بنا تو وہ بنگلہ دیش کے مخالف
تھے،پھر بنگلہ دیش بن گیا۔شکر ہے اب کی بار وہ طالبان کے ساتھ ہیں اور یہی
اک بات حوصلہ دیتی ہے کہ شاید پاکستان بچ جائے۔آج عبدالقادر ملا کے غائبانہ
جنازے پڑھتے اور ریلیاں نکالتے ان بے عمل اور فاتر العقل لوگوں سے کوئی
پوچھے کہ لکیر پیٹنے کا فائدہ؟آج سے تین سال پہلے جب یہ سارا کچھ نوشتہ
دیوار تھا تو آپ نے ریلیاں کیوں نہیں نکالیں؟امہ کو اس وقت بیدار کیوں نہیں
کیا اب اماں اماں پکارتے پھرتے ہو۔کہیں یہ بھی پاکستانی دفترِ خارجہ کی طرح
عالمی ردعمل کا ہی تو مشاہدہ کرتے نہیں رہ گئے؟ |