فرقہ واریت کی آگ

اسلام امن و سلامتی کا دین ہے اور اسکی تعلیمات تمام بنی نوع انسانیت کے لئے ہیں۔ زندگی کے ہر طبقہ اور شعبہ کے لئے اسلام کے اصول و ضوابط واضح ہیں اور زندگی کے معاملات میں ان کو کسی طور بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ہے۔اسلام کی تعلیمات پر اگر درست طور پر عمل کیا جائے تو کسی بھی فرد کے لئے کوئی مسئلہ کسی اعتبار سے پیدا نہیں ہوتا ہے۔اسلام کی تعلیمات پر عمل کرنے کا اولین حق تو مسلمانوں کا بنتا ہے لیکن گزشتہ چند دہائیوں سے مسلمان دین سے دور ہوتے جا رہے ہیں اور اسلام کی تعلیمات پر ہم مسلمانوں سے زیادہ غیر مسلم عمل کر رہے ہیں اور اس پر ہم کسی طور پر شرمسار نہیں ہیں؟ اگر ہوتے تو آج مسلمان یوں دنیا بھر میں اپنے اعمالوں سے یوں مختلف مسائل میں گھرے نہ ہوتے؟ غیر مسلموں کے لئے اسلام ایک ڈر و خوف کی علامت بن چکا ہے اور وہ آئے دن مسلمان اور اسلام کے نام پر مختلف قسم کے اقدامات کرتے رہتے ہیں؟ لیکن ہم اس بات کو تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہیں کہ ہم میں سے چند افراد(نام کے مسلمان ہی سہی) ایسے اقدامات سرانجام دیتے ہیں کہ ہم کو انکے مسلمان ہونے پر شک وشبہ سا ہو جاتا ہے۔ وہ اپنے مذموم مقاصد کے لئے دوسروں کے آلہ کار بن کر مقاصد کے حصول کی کوشش کرتے ہیں اور اسلام کو بدنام کرتے ہیں۔

اسلام کو بدنام کرنے والوں میں فرقہ بازی کو فروغ دینے والے اہم کردار سرانجام دے رہے ہیں، اسلام تو دل آزاری سے منع کرتا ہے مگر ہمارے چند نام نہاد علما حضرات اس سسللے بڑھ چڑھ کر حاصل لیتے ہیں جس کی وجہ سے عقیدے میں فرق کو یوں بیان کیا جاتا ہے کہ مسلمان ایک دوسرے کا گلہ کاٹنے پر مجبور ہو رہے ہیں اور ایک دوسرے پر کافر ہونے کا فتوی لگا رہے ہین اور اس تمام تر صورتحال سے عیار اسلام دشمن لوگ فائدہ آٹھا رہے ہیں اور اسلام کو متنازعہ دین بنانے کی کوششیں کر رہے ہیں۔ ابھی محرم کے بعد سے ہونے والے قتل وغارت کو ہی دیکھ لیں کہ سنی،شیعہ لڑائی کو ملک کے طول و عرض میں پھیلایا جا رہا ہے اور ایک دوسرے کے عالم دین حضرات کو چن چن کر مارا جا رہا ہے؟

ابھی آپ علامہ ناصر عباس کی شہادت کے واقعے کو ہی لے لیں کہ اس طرح اگر عالم حضرات کو صفحہ ہستی سے مٹانے کی کوشش کی جاتی رہی تو پورے پاکستان میں یہ فرقہ واریت پھیل جائے گی اور ملک میں انتشار پھیلا جائے گا،ابھی دسمبر کے ماہ میں سقوط ڈھاکہ کا درد دل میں محسوس ہو رہا ہے اور ساتھ میں اسی ماہ شہادت کے رتبے پر فائز ہونے والے عالم حضرات کے قتل پر بھی افسوس ہو رہا ہے کہ ہم کس طرح مسلمان ہیں جو ایک دوسرے کے گلے کاٹ کر بھی اپنے آپ کو مسلمان کہلوا رہے ہیں؟ ہمیں اس بارے میں خود سوچنا ہوگا اور مسلکی اختلاف کو روز محشر تک بھول جانا ہوگا کہ اس روز ہر بات کا حساب ہونا ہے تو پھر ہم آج کیوں ایکدوسرے کے ساتھ دست و گربیان ہو رہے ہیں؟

اس سلسلے میں تمام مسلک کے عالم حضرات، حکومت وقت اور عوام کو ایک ہونے کی ضرورت ہے اور اس مسئلے کو حل کرنا ہوگا وگرنہ وہ وقت دور نہیں ہے جب ہر شخص ہاتھ میں چھری لئے دوسرے کو قتل کرنے پر آمادہ ہوگا،اسکے ساتھ والدیں کو بھی بچوں کے دل میں دوسرے مسلک کا احترام اجاگر کرنا ہوگا تاکہ وہ باشعور ہو کر کسی بھی نا عاقبت اندیش شخص کا آلہ کار نہ بن سکیں۔
Zulfiqar Ali Bukhari
About the Author: Zulfiqar Ali Bukhari Read More Articles by Zulfiqar Ali Bukhari: 392 Articles with 481807 views I'm an original, creative Thinker, Teacher, Writer, Motivator and Human Rights Activist.

I’m only a student of knowledge, NOT a scholar. And I do N
.. View More