جہاں نرمی سے کام لینا ہوتا ہے وہاں ہم گرمی دکھاتے ہیں
اور جس موقع پر تشدّد کی لاٹھی چلانا ہوتی ہے اس موضع پر ہم تعطّف کو آواز
دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہم روز اوّل سے اپنے اہداف کے حصول میں ناکامی کا
منہ دیکھ رہے ہیں۔ مہنگائی روز بروز بڑھتی چلی جارہی ہے، بدامنی کا بھوت سر
چڑھ کر بول رہا ہے، بیرونی طاقتیں سازشوں کا شکنجہ کس رہی ہیں اور ہم ہیں
کہ لکیر کے فقیر بنے بیٹھے ہیں۔
آپ کا تعلّق پولیس یافوج کے ساتھ ہے، آپ رات گھپ اندھیرے میں کسی گھر کا
دروازہ کھٹکھٹاتے ہیں۔ اس گھر کا سربراہ حقیقتاًشریف شہری ہیں جس کا گواہ
پورا محلّہ اور خاندان ہے۔ آپ سے جب پوچھاجاتا ہے آپ کون ہے ، کیوں آئے
ہیں؟جواب میں آپ دھاڑتے ہیں دروازہ کھولو ورنہ توڑدیں گے ۔ وہ بے
چاراہانپتے کانپتے دروازہ کھولتا ہے جس نے اپنی ساٹھ سالہ زندگی کسی کیس کا
سامنا نہیں کیاہوتا، جیل کی ہواتو بعید کسی قیدی کی زیارت بھی نہ کی ہوتی۔
وہ باہر نکلتاہے ، آپ اسے دھمکی دیتے ہیں کہ اپنا بیٹا ہمارے حوالے کرو
ورنہ ہم تمہیں اٹھالے جائیں گے، وہ گھر جاکر تلاش کرتا ہے، بیٹا گھر میں
نہیں ہوتا۔ آپ اسے اپنے ساتھ لے جاتے ہیں۔ اس کے گھر والوں کو کچھ نہیں
بتاتے کہ ہم اسے کیوں اور کہاں لے کر جارہے ہیں۔صبح اس کے بیٹے کبھی ایک
تھا نہ میں ڈھونڈتے ہیں ، کبھی دوسرے تھانے میں جہاں کا عملہ ان کے ساتھ بد
اخلاقی کے اعلیٰ معیار کے ساتھ پیش آتا ہے۔ اس کے بیٹوں کا تعلّق کسی سیاسی
تنظیم کے ساتھ ہوتا ہے اور نہ ہی مذہبی تنظیم سے۔پورے دن دربدر پھرنے کے
بعد جب مایوس گھر آتے ہیں، اخبار کھول کر دیکھتے ہیں کہ ایک دہشت گرد تنظیم
سے تعلق رکھنے والوں کی پولیس آؤبھگت کررہی ہیں تو ویہ سوچنے پر مجبور
ہوجاتے ہیں کہ ہم آج تنظیم سے نتھی نہ ہونے کی سزا بھگت رہے ہیں۔
آپ محرم الحرام سے قبل بے گناہ شہریوں کو پکڑتے ہیں جن کے خاندان والے پانچ
دن تک مارے مارے پھرتے ہیں، کوئی سراغ نہیں ملتا، چھٹے دن جب وہ کسی طرح
معلوم کرتے ہیں کہ ان کاوہ پیارا آپ کی قید میں ہے جس کے ہاں چند دن قبل
بچی کی پیدائش ہوئی ہے جو اسے جان سے بھی عزیز ہے ، کام سے لوٹتے ہی پورے
دن اسے گود میں لیے پھرتا ہے، دنیا جہاں کی باتیں اپنے نئے مہمان کے ساتھ
کرتا ہے۔ وہ کہتا ہے کتنی پیاری ہے میری معصوم بیٹی۔ بیٹی باپ کی طرف یوں
دیکھتی ہے، گویاکہہ رہی ہو آپ مجھے مہمان سمجھ رہے ہیں، مہمان توآپ ہیں،
کیوں مجھ سے اتنی محبت کررہے ہیں، کیاآپ کے جانے بعد مجھے اتنی محبت کوئی
دے پائے گا؟
اس کے خاندان والے آپ سے رابطہ کرتے ہیں، آپ کہتے ہیں بے فکر رہیں، آپ
کارشتہ دار خیریت سے ہیں، ہم چند دن میں تفتیش کے بعد اسے چھوڑدیں گے۔
خاندان والے آپ کی باتوں میں آکر مطمئن ہوجاتے ہیں۔ لیکن ان کا یہ اطمینان
نقش برآب ثابت ہوتا ہے۔ دس محرم الحرام سے قبل اخبار میں ایک خبر شہ سرخی
میں چھپی ہوتی ہے پولیس نے مقابلہ میں۔۔۔۔۔دہشت گردوں کو ہلاک کرڈالا، اور
مقابلہ کی نوعیت جلد ہی عیاں ہوجاتی ہے۔آپ نے اسی باپ کی جان لے لی جو شریف
شہری بن کر جی رہا تھا، روز رزق کی تلاش میں سینکڑوں میل کا سفر
کرتاتھا،ابھی تو اس نے اپنے مہمان سے ڈھیر ساری باتیں کرنا تھیں، قید
تنہائی میں وہ رہائی کے خواب دیکھا کرتا جس میں اپنی معصوم پری کو گود میں
لیے کہانیاں سنارہاہوتاہے۔ آپ نے معصوم بچی سے اس کا باپ اس کے پہچاننے سے
پہلے ہی چھین لیا۔
آپ کیا سمجھتے ہیں اس طرح آپ امن قائم کرلیں گے، سکھ چین کی نیند سوسکیں گے
، کیا ان ماؤں، بہنوں، بیٹیوں،بیواؤں اور بوڑھے باپ کی آہیں آپ کا پیچھا
چوڑدیں گی ، ان کے خاندان کے نوجوانوں کو آپ یہ سوچ نہیں دے رہیں کہ وہ بھی
اپنا تعلّق کسی سیاسی یامذہبی تنظیم سے ناتا چوڑکرآپ کے خلاف صف آراہوں۔
خدارانفرتوں کو بڑھاوانہ دیں، نفرتوں کا گھٹاتوپ اندھیرا پہلے ہی بہت چھایا
ہوا ہے۔ بہارت کی پولیس اگر ڈاکوؤں کی ملکہ پھولن دیوی کے ساتھ کچھ لو کچھ
دو کی پالیسی اپناکراسے عام شہری بناسکتی ہے تو آپ
عزیربلوچ،بابالاڈلا،طالبان یااپنے دیگر دشمنوں پرحکمت کا پتّاکیوں نہیں
پھینکتے۔ |