دنیا کے ہر مذہب میں عبادت کا کوئی نہ کوئی طریقہ ہو
اکرتا ہے اور اس عبادت کو انجام دینے کے لیے مخصوص جگہیں اور مقامات ہوا
کرتے ہیں جو عبادت گاہیں کہلاتی ہیں اور ہر مذہب میں جتنی اہمیت عبادت
اورطریقہِ عبادت کی ہوا کرتی ہے اتنی ہی اہمیت عبادت گاہوں کی بھی ہوا کرتی
ہے ۔ہندﺅں کے لیے مندر،مانویوں کے لیے خانقاہ،یہودیوں کے لیے بیعہ،عیسائیوں
کے لیے کلیسا،سکھوں کے لیے گردوارہ اور مسلمانوں کے لیے مساجد انتہائی مقدس
مقامات ہیں ۔اور ہر قوم کے نزدیک اپنے ان عبادت گاہوں کی اتنی اہمیت ہے کہ
خواہ وہ زندگی بھر عبادت کریں یا نہ کریں مگر اپنی عبادت گاہوں کا احترام
انکے دلوں سے محو نہیں ہوتا اور نہ ہی وہ انکے نقصان کو برداشت کر سکتے ہیں
اور نہ ہی بے حرمتی گوارا کر سکتے ہیں یہ ایک فطری بات ہے۔
اللہ تعالی کا پسندیدہ مذہب اسلام ہے اور اسلامی نظامِ زندگی میں بنیادی
چیز عبادت ہی ہے اورانسان کا وجود ہی اسی لیے ہے جیسا کہ اللہ تعالی قرآن
کریم میں ارشاد فرماتا ہے﴾ وما خلقت الجن و الانس الا لیعبدون ﴿ سورة
الذریات:۶۵(میں نے جنوں اور انسانوں کو اس کے سوا کسی کام کے لیے نہیں پیدا
کیا ہے کہ وہ میری عبادت کریں)
اسلام میں لفظ عبادت ایک وسیع اور جامع معنی میں استعمال ہوتا ہے۔عبادت کے
اس وسیع تصور نے عبادت گاہ یعنی مساجد کو بھی ایک خاص اہمیت عطا کی ہے ۔اور
مسجدیں اسلامی مذہب کا شعار ہی نہیں بلکہ در حقیقت یہ مسجدیں اسلامی تہذیب
و تمدن اور ثقافت کی نقیب بھی ہیں اور ان مساجد کا پورے اسلامی نظامِ حیات
سے ایک خاص تعلق ہوتا ہے۔مگر امتِ مسلمہ کا ایک بڑا طبقہ اپنی مساجد کی
دینی اہمیت اور اسکے تقاضوں سے ناواقف ہے ۔مسجدوں کو احترام و عزت کی نگاہ
سے دیکھا ضرور جاتا ہے مگر اسکے حقوق کی ادائیگی کی فکر نہیں کی جاتی
ہے۔مسجدوں کو کامیابی کا ضامن تو مانا جاتا ہے مگر نماز کے لیے پابندی
ضروری نہیں سمجھی جاتی ہے ۔(تبھی عموما نوجوانوں کا ایک بڑا طبقہ اپنے اپنے
اکزامس یا خصوصی ضرورت کے وقت مسجد میں حاضر ہوتا ہے اور کام پورا ہوتے ہی
غائب ہو جاتا ہے)۔مسجد کے نام پر سر کٹانے کا حوصلہ تو ہوتا ہے مگر مسجد
میں سر جھکانا بے حد گراں گزرتا ہے ۔مسجد کی روح تو نماز ہے مگر اب ترکِ
نماز ایک فیشن بن گیا ہے ۔مسلم اور کافر کے درمیان پہلے فرق نماز ہی کا
تھامگر اب فرق صرف گوشت خوری اور ناموں میں ہے۔پہلے لوگ دور جایا کرتے تھے
کہ ہر قدم پر نیکی ہے اور اب مسجد کے باہر ہی کھڑے رہتے ہیںاور گپ شپ ہوتی
رہتی ہے مگر نماز کی توفیق نہیں ہوتی ہے۔تین سے چار گھنٹہ فیس بک،ٹیوٹر اور
چیٹنگ میں گزار دیا جاتا ہے مگر مسجد میں بمشکل ایک گھنٹہ پانچ وقت کی نماز
کے لیے نہیں آ سکتے اور ہماری نمازیں رسم بن کر رہ گئی ہے۔نمازیں بے حیائی
اور برے کاموں سے روکتی ہیں مگر ہم پر اسکا کوئی اثر نہیں ہوتااورنہ ہی
مسجد کے باہر ہماری عمومی زندگی پر اسکا کوئی اثر پڑتا ہے۔حقیقت یہ ہے کہ
آپﷺ کی پیشین گوئی پوری ہو رہی ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا ﴾ سیاتی علی الناس
زمان لا یبقی من الاسلام الا اسمہ و لا یبقی من القرآن الا رسمہ مساجدھم
عامرة خراب من الھدی ﴿ (لوگوں پر وہ وقت بھی آئے گا جب اسلام کا صرف نام رہ
جائے گا او ر قرآن کا صرف رسم الخط رہ جائے گا ۔مسجدیں آباد ہوں گی مگر
ہدایت سے خالی ہوں گی)
ایک عجیب دو رخی نظریہ ہماری عملی زندگی میں شامل ہو گیا ہے جب تک ہم اس کو
دور نہیں کریں گے کسی کامیابی کی امید نہیں کی جا سکتی۔اس پر سے مزید ستم
یہ ہے کہ اس وقت ہم مسلمان اپنی فکری و عملی بے راہ روی کی وجہ سے جتنے خود
مسائل کا شکار ہیں اتنا ہی مسجدوں کو بھی مسئلہ بنا رکھا ہے۔ چنانچہ فرقے
اور مسلک کی بنیاد پر ،عہدہ اور اقتدار کی بنیاد پر،امامت اور تولیت کی
بنیاد پر اور مذہب اور سیاست کی تفریق کی بنیاد پر الگ الگ مساجد قائم ہو
رہی ہیں اور مسلمان اپنے مسلمان بھائی ہی کو مسجد میں داخل ہونے سے روک رہا
ہے ۔البتہ ایک چیز میں سب میں یکسانیت مل جائے گی یعنی مسجد کی ظاہری زیب
وزینت پر خاص توجہ دینا ۔لیکن دل یادِ خدا سے غافل ہو رہے ہیں اور مسجدوں
کو سجایا اور چمکایا جا رہا ہے اور آباد کرنے کی طرف توجہ نہیں دی جا رہی
ہے جسکا نتیجہ یہ ہو رہا ہے کہ ع
مسجدیں مرثیہ خواں ہیں کہ نمازی نہ رہے
تاریخی اعتبار سے سب سے پہلا عبادت کاگھر حضرت آدمؑ کا تعمیر کردہ بیت اللہ
یعنی خانہ کعبہ ہے ۔جو روئے زمین کی تمام مساجد کا قبلہ اور سمت ہے ۔قرآن
کریم میں اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے﴾ ان اول بیت وضع للناس للذی ببکة
مبارکا و ھدی للعالمین ﴿ سورة آلِ عمران :۶۹(بےشک سب سے پہلی عبادت گاہ جو
انسان کے لیے تعمیر ہوئی وہ وہی ہے جو مکہ میں واقع ہے ،برکت والی اور تمام
جہاں کے لوگوں کے لیے مرکز ہدایت ہے)
حضرت ابوذرؓ نے جب آپﷺ سے دریافت کیا کہ زمین کی پہلی مسجد کون سی ہے؟ تو
آپﷺ نے فرمایا ’المسجد الحرام‘ یعنی خانہ کعبہ۔جسے آج سے تقریبا چودہ سو
سال پہلے زمانہ جاہلیت میں مشرکین نے بت خانہ بنا رکھا تھا۔اور پھر آپﷺ نے
فتح مکہ کے موقع پر اللہ کے اس گھر کو بتوں سے پاک کیا۔اس لیے مسلمانوں کو
فخر حاصل کرنے کا حق ہے کہ وہ دنیا کی قدیم ترین تہذیب کے علم بردار ہیں۔
یہ مسجدیں انسانی زندگی کے ہر پہلوچاہے وہ روحانی ہو یاثقافتی،سماجی،سیاسی
ہو سب پر اثر انداز ہوتی ہیں۔اور سب سے پہلا اثر جو انسانی زندگی پر پڑتا
ہے وہ’ اجتماعےت کا جذبہ اور احساس‘ ہے۔اذان مومنوں کو تجدیدِ ایمان کی طرف
بلاتی ہے اور حکم ہے کہ جب اذان کی آواز سنو تو سارے کام چھوڑ کر مسجد کا
رخ کرو ۔اس میںنظم و ضبط،ڈسپلن اطاعت و فرمابرداری کی تعلیم دی گئی ہے اور
جماعت کے لیے مسجد میں آنے والے جب پانچوں وقت ایک دوسرے کو دیکھتے ہیں تو
ان میں تعلقات پیدا ہوتے ہیں اور باہمی تعاون اور خیر خواہی کا جذبہ پیدا
ہوتا ہے۔ایک دوسرے کے دکھ درد میں شریک ہوتے ہیں ۔اور مساوات و اخوت کا عمل
فروغ پاتا ہے ۔امیر غریب اور عالم جاہل سب صف میں برابر سے کھڑے ہوتے ہیں ۔کسی
کو کسی پر فوقیت نہیں ہوتی ہے۔قیام و سجوداور تمام حرکات و سکنات ایک ساتھ
ہوتے ہیں ۔حتی کہ دعا بھی ایک ساتھ مانگی جاتی ہے۔یہاں پر امیر کو اپنی
دولت کا زعم نہیں رہتا اور نہ ہی غریب کو اپنی غربت کا احساس ہوتا ہے۔اور
منظر یہ ہوتا ہے کہ
ایک ہی صف میں کھڑے ہو گئے محمود و ایاز
نہ کوئی بندہ رہا اور نہ کوئی بندہ نواز
بندہ وصاحب و محتاج و غنی ایک ہوئے
تیرے دربار میں پہنچے تو سبھی ایک ہوئے
دوسرا اثر یہ کہ انسان کو ’روحانی قوت‘ ملتی ہے جس سے ایمان کی طاقت بڑھتی
ہے ۔دوسرے مذاہب کی عبادت گاہیں عموما بدکاری اور فحاشی کا اڈہ ہوا کرتی
ہیں۔اگر مذہب میں ممنوع ہے توبھی عبادت گاہوں میں عریانیت ،فحاشی اور غیر
اخلاقی حرکتیں ہوتی ہیں ۔مگر مسجدیں ان تمام چیزوں سے پاک ہیں۔اور دوسرے
مذاہب میں چند مخصوص لوگ عبادت گاہوں کے محافظ ہوتے ہیں اور وہی
فریضہءعبادت انجام دیتے ہیں ۔عام لوگ اپنی ضرورتوں کے وقت معابد کا رخ کرتے
ہیں اور یہ انکی زندگی کا نجی معاملہ ہوا کرتا ہے ۔مگر اسلام میں ہر مسلمان
کو دن میں پانچ مرتبہ اپنی مشغول ترین زندگی میں سے نکال کر حاضر ہونا ہی
ہے۔ ارشادِ باری ہے ﴾ فی بیوت اذن اللہ ان ترفع و یذکر فیھا اسمہ یسبح لہ
فیھا بالغد و الاصال۔رجال لا تلھیھم تجارة و لا بیع عن ذکراللہ و اقام
الصلوة و ایتاءالزکوة یخافون یوما تتقلب فیہ القلوب و الابصار ﴿ سورة
النور:۶۳،۷۳(اللہ کے نور سے ہدایت پانے والے ان گھروں میں پائے جاتے ہیں
جنہیں بلند کرنے کا اور جن میں اپنے نام کی یاد کا اللہ نے اذن دیا ہے ۔ان
میں سے ایسے لوگ صبح و شام اس کی تسبیح کرتے ہیں جنہیں تجارت اور خرید و
فروخت اللہ کی یاد اور اقامت ِ نماز سے غافل نہیں کرتی)
اور تیسرا اثریہ کہ انسان کو’ غیر معمولی اطمینان و سکون‘ حاصل ہوتا ہے
۔سکونِ قلب کے لیے انسان لاکھوں روپئے کی دوائیں خریدتا ہے اور مختلف
مقامات کی زیارت کرتا ہے مگر تب بھی سکون حاصل نہیں ہوتا۔قرآن کہتا ہے کہ
خدا کی یاد سے اطمینانِ قلب ہوتا ہے اور اسی کی ایک شکل نماز ہے۔اللہ تعالی
کا ارشاد ہے﴾ اقم الصلوة لذکری ﴿ سورة طہ:۴ (میری یاد کے لیئے نماز قائم
کرو) اور ’اقامتِ الصلوة ‘ کا تصور مسجد ہی سے ہے۔تو معلوم یہ ہو کہ سکونِ
قلب اگر مل سکتا ہے تو مسجد ہی میں ملے گا۔
چوتھا اثر یہ کہ اس کے ذریعے’ تعلیم ‘ملتی ہے۔مسجدوں کے ساتھ عام طور پر
مدرسے پائے جاتے ہیں ۔بچوں کی تعلیم کی شروعات عموما مسجد سے ہی ہوا کرتی
ہے۔بہت سی مسجدوں میں کتب خانوں کا بھی نظم ہے اور اگر لائبریری نہیں تو کم
از کم قرآن کریم ،احادیث کا مجموعہ اور کچھ دینی کتابیں ضرور ہوا کرتی ہیں
۔ جس کا فائدہ لوگ اٹھاتے رہتے ہیں۔
اور سب سے اہم اثر مسجد کا انسانی زندگی میں ’طہارت اور نفاست ‘کا ہے ۔نماز
کے لیے وضو کرنا ضروری ہے اور جمعہ کے دن غسل کرنا ضروری ہے۔تو اگر کوئی دن
میں پانچ بار وضو کرتا ہو اور لباس پاک رکھتا ہو تو پاکی اور صفائی کے
معاملے میں وہ ہر قوم سے ممتاز ہو گا۔
چنانچہ مسجد ایک ایسی تربیت گاہ ہے جہاںانسان کی اجتماعی ،روحانی،ثقافتی
اور اخلاقی تربیت ہوتی ہے ۔مگر افسوس یہ ہے کہ اسلام میں مسجد کو جو مقام و
ادب حاصل ہے وہ مسلمانو ں کی غفلت کی وجہ سے متاثر ہو رہا ہے۔خصوصا چند
چیزیں قابلِ توجہ ہیں۔
۱۔ مسجد کو صاف ستھرا ررکھنا: حدیث میں ہے کہ آپﷺ نے فرمایا !مسجدوں کو صاف
رکھا جائے اور ان میں خوشبوئیں لگائی جائیں۔(ترمذی و ابوداﺅد)۔آجکل جیسے ہر
کام میں افراط و تفریط ہے ویسے ہی مسجد کی صفائی میں بھی یہی آفت پیش آئی
ہے۔بعض مسجدیں طرح طرح کی’ گل کاریوں ،بیل بوٹوں‘ سے سجی نظر آتی ہیںجو کہ
مکروہ اور ممنوع ہے۔ابن عباس سے روایت ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا !مجھے اونچی
اونچی مسجدیں بنانے کا حکم نہیں دیا گیااور حضرت ابن عباسؓ کہتے ہیں کہ’ تم
لوگ بھی مسجدوں کو اسی طرح آراستہ کرو گے جس طرح یہود ونصاری نے کیا
تھا‘۔اور بعض مسجدیں ایسی ہیں کہ جالے لٹکے ہوئے ہیں ،گرد وغبار سے اٹی
ہوئی ہیںاور دیوار یں اور فرش تیل کے بدنما دھبوں سے داغدار ہیں۔اور مسجدوں
ہی میں استنجاءخانے بنے ہوئے ہیں جن سے بدبو کے پھبکے داخل ہوتے ہی ناک میں
گھستے ہیں۔یہ سب یقینا مسجد کی بے حرمتی ہے۔آپﷺ اور صحابہ کرام مسجدوں کی
صفائی کیا کرتے تھے اور اسکا بہت ثواب بھی ہے۔حضرت ابوذرؓ سے روایت ہے کہ
آپﷺ نے فرمایاکہ میرے سامنے میری امت کے اچھے اور برے اعمال پیش کیے گئے تو
میں نے اچھے اعمال میں راستہ سے تکلیف دہ چیزوں کو ہٹانا پایا اور برے
اعمال کو مسجد میں تھوکنا پایا(مسلم)۔اور حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ آپﷺ نے
فرمایا میری امت کے ثواب میرے سامنے پیش کیے گئے یہاں تک کہ ایک تنکا جسکو
کسی شخص نے مسجد سے نکال دیا ہو اسکا بھی ثواب پیش کیا گیا(ابوداﺅد)۔اور ہم
لوگ کا حال یہ ہے کہ مسجد کی صفائی ’موذن یا امام ‘ہی پر فرض سمجھتے ہیں
۔کیا عام اور کیا علمائے کرام سب ہی مسجد میں جھاڑو لگانا اور صفائی کرنا
اپنی شان کے خلاف سمجھتے ہیں۔الا ماشاءاللہ۔البتہ مسجد گندی ضرور کرتے
ہیں۔جوتا رکھنے کی جہاں جگہ ہے وہاں نہیں رکھیں گے بلکہ مسجد کے اندر صف کے
کنارے رکھیں گے کہ چوری نہ ہو جائے۔(دل جوتے ہی میں اٹکا رہتا ہے) اگرچہ
گندگی ہو تو ہوا کرے۔
۲۔ مسجد آتے ہوئے کپڑوں کا خیال:مسجدیں صرف پاکی اور صفائی کا مطالبہ نہیں
کرتیں بلکہ اس سے بڑھکر انسان سے زیب و زینت کا بھی تقاضا کرتی ہیں کہ نما
ز کے وقت کپڑے ساتر اور اچھے ہوں۔قرآن کریم میں اللہ تعالی ارشاد فرماتے
ہیں ﴾ یا بنی آدم خذوا زینتکم عند کل مسجد﴿ سورة الاعراف:۱۳( ائے بنی آدم
ہر مسجد کے وقت اپنی زینت سے آراستہ رہو)مگر ہم مسلمانوں کا یہ حال ہے کہ
اسکا کوئی اہتمام نہیں کرتے ۔جس حال میں ہوں اٹھ کے چلے آتے ہیں ۔تصویریں
چھپی ہوئی ٹی شرٹ جن پر کفریہ اور شرکیہ جملے بھی لکھے ہوتے ہیں اور ہاف
پینٹ،لوور،لوویسٹ جینس کہ رکوع و سجدے میں ستر کھل جاتی ہے اپنی تو اپنی
پیچھے والے کی بھی نماز خراب ہوتی ہے۔اور موزے بدبو کرتے ہیں خصوصا سردی
میں۔اس پر توجہ نہیں دی جاتی ہے اور جب یہی لوگ شادیوں یا آفس اور انٹریو
کے لیے جاتے ہیں تو ایک دم ’اپ ڈیٹ ‘ہو کر جاتے ہیں۔تب اس طرح کے ڈریس نہیں
پہن کر جاتے ہیں ۔کیا اللہ تعالی سے بڑھ کر کوئی ہے؟؟ جس کے لیے زیب و زینت
اختیار کی جائے؟
۳۔ مسجد میں دنیاوی باتوں سے اجتناب:مسجدیں اللہ تعالی کی عبادت و اذکار کے
لیے ہیں ۔اسمیں دنیاوی گفتگو کرنا صحیح نہیں ہے۔حضرت واثلہ بن اسقع سے
روایت ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا! بچاﺅ اپنی مسجدوں کو ناسمجھ بچوں سے اور
دیوانوں سے اور خرید و فروخت سے اور اپنے جھگڑوں سے اور آوازیں بلند کرنے
سے اورحدود قائم کرنے سے اور تلوار سوتنے سے اور مسجد کے دروازوں پر طہارت
کی جگہ بناﺅ اور جمعہ کے دن مسجد کو دھونی دو(سنن ابن ماجہ:۰۵۷) آج
مسلمانوںکا ایک بڑا طبقہ مسجد میں اگر پہلے آجاتا ہے تو آرام سے آپس میں
باتیں کرتا رہتا ہے ۔آپ لوگ اسکی مثالیں پنج وقتہ نمازوں، جمعہ کے خطبے کے
دورا ن او ررمضان میں تراویح کے دوران دیکھ سکتے ہیں۔ اور اسمیں عام لوگ کے
ساتھ علمائے کرام بھی شامل ہیں۔اور یہ خرابی پڑھے لکھے اور دینی تعلیم حاصل
کیے ہوئے لوگوں میں زیادہ ملے گی اور یہ اسکو غلط بھی نہیں سمجھتے ۔ مسجد
میں ثواب لینے جاتے ہیں اور وہاں سے فرشتوں کی بد دعائیں لے کر آتے
ہیں۔کیونکہ جب کوئی شخص مسجد میں دنیا کی باتیں کرتا ہے تو فرشتے پہلے کہتے
ہیں ’اسکت یا بغیض اللہ‘ (ائے اللہ کے دشمن چپ رہ)۔پھر اگر وہ شخص اس سے
بھی آگے بڑھتا ہے تو فرشتے کہتے ہیں ’اسکت لعنت اللہ علیک‘ (تجھ پر خدا کی
لعنت چپ رہ)ابن ماجہ۔ہمیں غور کرنا ہوگا کہ کہیں ہم بھی تو ان میں سے نہیں
ہو جاتے ہیں جن پر فرشتے اللہ کی لعنت بھیجتے ہیں؟علامہ ابن حمام فتح
القدیر میں لکھتے ہیں کہ مسجد میں دنیا کی باتیں نیکیوں کا اس طرح سے صفایا
کردیتی ہیں جس طرح چوپائے گھاس کھا جاتے ہیں ۔
۴۔ مسجد میں موبائل سے اجتناب:یہ ایک نیا وائرس ہے جو امتِ مسلمہ میں سرایت
کر گیا ہے۔کچھ سالوں پہلے تک مسجد ہی ایسی جگہ باقی بچی تھی جہاں میوزک یا
گانے کی آواز نہیں سنائی دیتی تھی مگر جب سے موبائل عام ہو اہے اب مسجدوں
میں بھی میوزک، گانے اور مختلف طرح کی ٹون سنائی دینے لگی ہے۔جس سے نہ صرف
مسجدوں کی بے حرمتی ہوتی ہے بلکہ نمازیںبھی خراب ہو رہی ہیں ۔لاکھ تاکید
کرنے اور نماز سے پہلے اعلان کرنے اور مسجد میں پوسٹر لگانے کے باوجود نماز
کے درمیان موبائل بجتے رہتے ہیں ۔اب تو لوگوں نے کہنا ٹوکنا ہی چھوڑدیا
ہے۔افسوس اس بات پر ہوتا ہے کہ یہی لوگ جب عدالت،امتحان حال ،مخصوص آفس یا
انٹریو کی حالت میں ہوتے ہیں تو اس بات کا پورا خیال رکھتے ہیں کہ کہیں
موبائل نہ بج جائے تو پہلے ہی بند کر لیتے ہیں۔تب نہیں بھولتے۔اصل بات یہ
ہے کہ ہم جس چیز کو اہمیت دیتے ہیں وہی ہمیں یاد رہتاہے۔اور ہم مسجد کے
احترام سے غافل ہیں تو ہمیں نہیں یاد رہتاہے۔اور خاص کر نوجوان طبقہ اگر
اتفاق سے مسجد میں پہلے آجاتا ہے تو موبائل سے ’گیم یا چیٹنگ‘ کرنے لگتا
ہے۔اس سے ہمیں اجتناب کرنا ہوگا۔
۵۔ نمازیوں کے آگے سے گزرنے سے اجتناب:نمازی کے سامنے سے گزرنے سے اجتناب
کرنا چاہیے کیونکہ اس پر سخت گناہ ہے۔ایک حدیث میں آپﷺ نے فرمایا کہ اگر
نمازی کے آگے سے گزرنے والا شخص جان لیتا کہ اس پر کتنا گناہ ہے تو اسکو
نمازی کے سامنے سے نکلنے سے چالیس سال کھڑا رہنا زیادہ پسند ہوتا ۔راوی کو
شبہ ہے کہ آپﷺ نے ۰۴دن یا۰۴ماہ یا۰۴ سال کہا۔(صحیح بخاری:۴۸۴) ہم میں سے
اکثریت اسکا خیال نہیں رکھتی ہے۔نماز مکمل ہوتے ہی پیچھے جانے کی کوشش کرتی
ہے یا نماز پڑھ رہے لوگوں کے سامنے کھڑی انکے سلام پھیرنے کا انتظار کرتی
ہے جس سے سامنے والا ڈسڑب ہوتا ہے اور وہ جلدی جلدی نماز پڑھ کر سلام
پھیرنے کی کوشش کرتا ہے۔ایسا کرنا صحیح نہیں ہے ۔ہم لوگوں کو اسکا خیال
رکھنا ہو گا۔
۶۔ امامت اور موذن کا مسئلہ:اس وقت نماز کی امامت بھی اصلاح کے لائق ہے۔عام
طور پر مسجدوں میں ایسے حضرا ت مقرر کیے جاتے ہیں جنکو نہ تو دنیا اور نہ
ہی دین کا پورا علم ہوتا ہے۔اور یہ لوگ امامت کے علاوہ اور کوئی دوسرا کام
انجام نہیں دے پاتے تو اس میدان میں آجاتے ہیں۔اور ایسا نہیں ہے کہ امامت
کے اہل لوگوں کی کمی ہے لیکن اصل بات یہ ہے کہ مسلمانوں کا ایک عام رجحان
بن گیا ہے کہ امام اور موذن تو’ سماجی اور معاشی ضرورتوں‘ سے بے نیاز ہوتے
ہیں۔اور انکی ،انکی بیوی بچوں کی کوئی خواہش تو ہوتی ہی نہیں ہے چنانچہ
جوتنخواہ آج سے بیس سال پہلے کی تھی وہی آج بھی ہے۔اور خلوص تو پوری قوم
میں سے اب غائب ہے مگر امام اور موذن سے مسلمان خلوص کی امید لگائے بیٹھا
ہے۔اگر خلوص ہوتا تو امام اور موذن تنخواہ پر رکھنے کی نوبت ہی نہ آتی۔اور
تنخواہ اتنی کم دی جاتی ہے کہ پھر ویسے ہی لوگ امام بنتے ہیں۔اسی کو دیکھ
کے علامہ اقبالؒ نے کہا تھا
قوم کیا چیز ہے قوموں کی امامت کیا ہے
اسکو کیا جانیں بے چارے دو رکعت کے امام
امام ایسے شخص کو ہونا چاہیے جو لوگوں کی دینی و اخلاقی تربیت کر سکے۔سماجی
امور میں رہنمائی کر سکے اور اختلافی مسائل میں فیصلہ کر سکے۔اور سماج میں
اسکا مقام منصبِ امامت کے شایانِ شان ہو۔مگر ہم میں سے اکثر لوگ امام اور
موذن کو حقیر سمجھتے ہیں ۔اور انکے ساتھ حقارت سے پیش آتے ہیں۔جب کہ حضرت
ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ آپﷺ نے فرمایاجس شخص نے اذان کے کلمات قلب سے
یقین کر کے کہا تو وہ شخص جنت میں داخل ہو گا ۔(سنن نسائی:۷۷۶) اور حضرت
معاویہؓ سے روایت ہے کہ آپﷺ نے فرمایا کہ موذن قیامت کے دن لمبی گردنوں
والے ہوں گے۔(صحیح مسلم:۷۴۸)
۷۔ متولیان کا مسئلہ: جب سے مسلمانوں میں عہدہ او ر اقتدار کی حرص پیدا
ہوئی ہے تب سے مسجد کی تولیت بھی ایک مسئلہ بن چکا ہے ۔آج کل متولی وہ لوگ
بنائے جاتے ہیں جو مالدار ہوں یا جاہ ومنصب والے ہوں اگرچہ ان لوگوں کو
مسجد میں باجماعت نماز ادا کرنے کی فرصت نہ ہو اور نہ ہی یہ لوگ نماز اور
جماعت کی روح سے آشنا ہوں۔اور اسکا نتیجہ یہ ہے کہ دوسرے اداروں کی طرح
مسجد کی تولیت کو لیکر آپس میں جھگڑا فساد اور مقدمہ بازی ہوتی رہتی ہے۔بعض
دفعہ پولیس آجاتی ہے اور مسجد میں تالا لگ جاتا ہے۔اور آپس میں اختلاف اس
حد تک ہو جاتا ہے کہ اسکی بنا پر اس مسجد میں آنا چھوڑ دیا جاتا ہے۔
حالانکہ امامت کی طرح تولیت کا حق بھی متقین اور صالحین کو ہی پہنچتا ہے جو
دین کے عالم ہوںاور جن کے دلوں میں خدا کا خوف ہو اور جو امت کی رہنمائی کر
سکیںاسی لیے اللہ تعالی نے مساجد کی تعمیر کا حق ان لوگوں کو دیا ہے جو
ایمان ،نیک اعمال اور تقوی کے حامل ہوں۔اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے﴾ انما
یعمر مسجد اللہ من امن باللہ و الیوم الآخر و اقام الصلوة و اتی الزکوة و
لم یخش الا اللہ ﴿ سورة توبہ:۸۱(اللہ کی مسجدوں کے آباد کار تو وہی لوگ ہو
سکتے ہیں جو اللہ اور آخرت پر ایمان لائیں اور نماز قائم کریں اور زکوة دیں
اور اللہ کے سو ا کسی سے نہ ڈریں)
اور مسجدوں کا انتظام یا تولیت بھی متقیوں کو دیا گیا ہے۔چنانچہ ارشادِ
ربانی ہے ﴾ وما لھم الا یعذبھم اللہ و ھم یصدون عن المسجد الحرام و ما
کانوا اولیاءہ ان اولیاءہ الا المتقون و لکن اکثرھم لا یعلمون ﴿ سورة
الانفال:۴۳(اب کیوں نہ اللہ ان پر عذاب نازل کرے جب کہ وہ مسجد حرام کا
راستہ روک رہے ہیں حالانکہ وہ اس مسجد کے جائز متولی نہیں ہیں اسکے جائز
متولی تو صرف اہلِ تقوی ہی ہو سکتے ہیں)اور ہمارے زوال کا یہ عالم ہے کہ
الیکشن میں ووٹ دینے کی بنا پر مسلمانوں میں جمعہ دو مسجد میں ہونے لگا ہے
۔ایک پارٹی ایک مسجد میں اور دوسری پارٹی دوسری مسجد میں جمعہ پڑھ رہی
ہے۔اور بعض جگہوں پر درسِ قرآن اور فضائلِ اعمال پڑھنے کو لیکر مسجد ہی میں
لڑائیاں اور بحثیں ہو رہی ہیں۔اور اس میں عام انسان سے زیادہ علماءملوث
ہیں۔
۸۔ بچوں کا مسئلہ:مسجدوں میں لوگ اپنے چھوٹے بچوں کو لاتے ہیں اور یہ بچے
پھر پوری مسجد میں دوڑتے اودھم مچاتے پھرتے ہیں ۔پنج وقتہ نمازوں میں کم
،جمعہ اور رمضان کی تراویح میں (تراویح میں توبڑے بھی اس کام میں ملوث نظر
آتے ہیں) مسجد میں بچوں کا طوفان برپا رہتا ہے اور اگر کسی نے غلطی سے ٹوک
دیا تو لڑنے پر اتر آتے ہیں۔ جبکہ آپﷺ فرماتے ہیںبچاﺅ اپنی مسجدوں کو
ناسمجھ بچوں سے اور دیوانوں سے اور خرید و فروخت سے اور اپنے جھگڑوں سے اور
آوازیں بلند کرنے سے اورحدود قائم کرنے سے اور تلوار سوتنے سے اور مسجد کے
دروازوں پر طہارت کی جگہ بناﺅ اور جمعہ کے دن مسجد کو دھونی دو۔(سنن ابن
ماجہ:۰۵۷)۔اورہم لوگوں کو بچوں کو لانے میں بڑی دلچسپی ہوا کرتی ہے مگر یہی
بچے جب بڑے ہو جاتے ہیں تو پھرنماز کی تاکید کرنے اور مواخذہ کرنے کی فرصت
نہیں رہتی ہے ۔ا ور بچے تو خیر بچے ہیں جیسی انکی تربیت ہو گی ویسے ہی انکا
مزاج ہوگا۔غلطی تو والدین کی ہے کہ وہ اپنے بچوں کو ساری تربیت دیتے ہیں کہ
’گڈمارننگ ،ہیلو،ہائے اور بائے ‘کیسے کہنا ہے مگر یہ سکھانا ضروری نہیں
سمجھتے کہ مسجد کے کیا آداب ہیں،مسجد میں کیسے رہنا ہے اور اسکا کیا ثواب
ہے اور اس پر کتنا گناہ ہے۔
یہ تو اپنوں کا حال تھا اور غیروں کا رویہ دیکھا جائے تو عالم یہ ہے کہ
ہندوستان میں بہت سی مسجدوں کو آثارِ قدیمہ کے نام پر بند کر دیا گیا ہے
۔اور وہ مسجدیں پورے طور پر ویران ہیں وہاں صرف زائرین اور سیاحوں کو جانے
کی اجازت ہے اور نمازو قرآن پڑھنے پر پابندی ہے ۔جبکہ مساجد عبادت کے لیے
ہوتی ہیں انکو آثارِقدیمہ کے نام پرتالا لگا نا اور اس میں نماز و اذکارادا
کرنے سے روکنا ظلم ہے اور یہ اتنا ہی بڑا ظلم ہے جتنا بڑا ظلم مسجدوں کو
شہید کرنا ہے ۔قرآن کریم میں ارشادِ ربانی ہے﴾ و من اظلم ممن منع مسجد اللہ
ان یذکر فیھااسمہ وسعی فی خرابھا اولئک ما کان لھم ان یدخلوھا الا خائفین
لھم فی الدنیا خزی و لھم فی الاخرة عذاب عظیم ﴿ سورة البقرة:۴۱۱(اور اس شخص
سے بڑھ کر ظالم اور کون ہو گاجو اللہ کی مسجدوں میں اسکے نام کی یاد سے
روکے اور انکی ویرانی کے درپے ہو؟ایسے لوگ اس قابل ہیں کہ ان عبادت گاہوں
میں قدم نہ رکھیں اور اگر وہاں جائیں بھی توڈرتے ہوئے جائیں انکے لیے تو
دنیا میں رسوائی ہے اور آخرت میں عذابِ عظیم)۔
اورکچھ مسجدوں کو مندر میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔جبکہ ایسی مسجد جو کسی کی
غصب کی ہوئی زمین پر تعمیر نہ کی گئی ہو اور نہ ہی کسی فتنہ اور فریب کی
خاطر بنائی گئی ہو بلکہ وہ خلوص ِ نیت کے ساتھ اللہ کی بندگی کے لیے بنائی
گئی ہو تو وہ ہر حال میں مسجد ہی رہے گی اور وہاں غیر اللہ کی پرستش کبھی
نہ ہو گی ۔اور مسلمانوں کے لئے صحیح نہیں کہ وہ مسجد سے دست بردار ہو جائیں
یا خاموش ہو جائیںیا اسکے بدلے میں دوسری جگہ یا عمارت قبول کرلیں ۔چنانچہ
علامہ محمد بن عبداللہ زرکشی لکھتے ہیں ”اذا تعطل المسجد بتفرق الناس عن
البلد او خرابھا او بخراب المسجد فلا یعود مملوکا“(اعلام المساجد باحکام
المساجد،۵۴۳) ۔(جب کوئی مسجد مسلمانوں کے شہر سے چلے جانے یا اس کے کھنڈر
ہو جانے کی وجہ سے معطل ہو جائے تو وہ کسی کی ملکیت نہیں ہو سکتی ہے)۔ مگر
ہم مسلمان مسجدوں سے غافل ہیں اور مسجدوں کو ایک ایک کر کے شہیدیا قبضہ کیا
جا رہا ہے۔چاہے وہ بابری مسجد کا معاملہ ہو یا اکبری مسجد کا اور ہم میں سے
بعض کہتے ہیں ارے جانے دو ،اور دوسری مسجدیں تو ہیں ہی ان کو آباد کرو۔ اور
مسلمانوں کا وقف بورڈ صرف ’وقف‘ ہو کر رہ گیا ہے۔عموما سوتا رہتا ہے اور جب
کوئی مسجد شہید ہو جاتی ہے تو تھوڑی دیر کے لیے آنکھ کھولتا ہے پھر وہی چین
کی نیند سو جاتا ہے۔ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنی مسجدوں کو آباد رکھیں
اور اسکی طرف سے غافل نہ ہوں کہ دوسرے لوگ اس پر قبضہ کر سکیں۔ |