عالم انسانیت کو اسلام کی دعوت، ابدی امن اور سلامتی کا
پیغام ہے۔ چنانچہ امن میں خلل اندزی اور اسلام ، قطعی دو متضاد حقیقتیں
ہیں،جن کا آپس میں کوئی تعلق نہیں۔ اگر دنیا اسلام کو امن عالم کے لئے خطرہ
تصورکرنے لگی ہے توشرارت غیروں کی ہی نہیں، کچھ کوتاہی ہم اسلام کے نام
لیواؤں کی بھی ہے۔ یہ زمہ داری اسلام کے علمبرداروں، خصوصاً علمائے کرام کی
ہے کہ وہ اپنے قول و عمل سے دنیا کو یہ جتادیں کہ ہم اور ہمارادین امن و
سلامتی کے لئے ہے، جارحیت، بدامنی، ناانصافی اور حق تلفی کی اس میں کوئی
جگہ نہیں۔ اس مقصد کے لئے جدوجہد ہمارا دینی فریضہ ہے۔اس کے لئے قربانی
دینے سے بھی ہمیں گریز نہیں۔ یہی اسلامی جہاد کی اصل اسپرٹ ہے ۔ یہی وہ
جہاد ہے جوآخرت میں جنت کے دروازے کھولتا ہے اوردنیا کو گہوارہ امن و
سلامتی بناتا ہے۔
خوشی کی بات یہ ہے اس احساس کو بیدار کرنے اور اس کا پیغام دنیا تک پہنچانے
کے لئے جو پہل ہوئی ہے وہ سرزمین ہند سے ہوئی ہے۔شیخ الہند ایجوکیشنل
چیریٹیبل ٹرسٹ کی میزبانی میں 13 ؍اور14؍ دسمبر کو ـ’امن عالم کانفرنس‘ کے
عنوان سے دنیا بھر کے علماء کرام کا ایک عظیم الشان اجتماع دیوبند میں ہوا
اوراس کے فیصلوں کی توثیق کے لئے ایک دن کا جلسہ 15؍ دسمبر کو دہلی میں ہوا۔
اس کانفرنس میں جو موضوعات زیر غور آئے، ان کو کانفرنس کا ایجنڈا نہیں بلکہ
امت مسلمہ کا ایجنڈا کہنا چاہئے۔ اس لئے یہ مناسب ہوگا کہ ان نکات پر ایک
نظر ڈال لی جائے جو اس کانفرنس میں زیر غورآئے اور یہ تلاش کیا جائے کہ اس
عظیم مقصد کے حصول میں ہم خودکیا کردار اداکرسکتے ہیں؟
|
|
یہ کانفرنس کیونکہ یکے از بانیان جامعہ ملیہ اسلامیہ، تحریک تحفظ خلافت
اسلامیہ اور جہاد آزادی کے ممتاز رہنما مولانا محمود حسن دیوبندی کی تاریخی
ریشمی رومال تحریک کی صدسالہ تقریبات کے ضمن میں ہوئی ،اس لئے فطری طور سے
اس میں مسلمانان ہند کی ان قربانیوں کا ذکر آیا جو انہوں نے ملک کو برطانوی
سامراج کے پنجہ استبداد سے چھڑانے میں دی تھیں۔ ان قربانیوں کے ذکر کاایک
اہم مقصد یہ ہے کہ ملک میں برسرکار مخصوص فسطائی ذہن نے کیونکہ ایک سوچی
سمجھی حکمت عملی کے تحت دانستہ یہ کوشش کی ہے کہ ہماری آئندہ نسلیں مسلمان
ہند کی وطنی خدمات اور قربانیوں سے بے خبر ہوجائیں، اس لئے یہ ضروری ہے کہ
ہم ان قربانیوں کو اجاگر کریں۔ یہ ذکر ان قربانیوں کے تئیں خراج عقیدت ہی
نہیں بلکہ قومی اتحاد اور امن کے قیام واستحکام میں بھی معاون ہے۔ اس طرح
ضمناً یہ ذکر خیر بھی امن عالم کے لئے جدوجہد کا ایک اہم ایجنڈہ ہے۔ چنانچہ
کانفرنس کے ایجنڈے میں سرفہرست جگہ ’’ہندستان اور دیگر ممالک کی جدوجہد
آزادی میں علماء کا رول‘‘ نے پائی۔
بدقسمتی سے ہندستان کی جدوجہدآزادی ملک کی تقسیم کے سانحہ پر ختم ہوئی۔
شاطر سیاست دانوں نے اس کا سارادوش مسلمانوں کے سرمنڈ ھ دیا۔ تقسیم کے وقت
جن لوگوں نے اسی سرزمین کو اپنا وطن چنا اور اس خطہ میں موجود لاکھوں مساجد،
مدارس، مقابر، خانقاہوں ،بارگاہوں، زیارتوں، درگاہوں، امام باڑوں اور ملت
سے وابستہ دیگر یادگاروں اوراداروں کو اجڑنے سے بچایا، ان کے لئے اس سانحہ
کے حوالے سے مشکلات کھڑی کی گئیں۔ چنانچہ ملک اور قوم کو یہ بتانا ضروری ہے
کہ جب ملک کی دونوں بڑی سیاسی طاقتیں مذہب کے نام پر قومیت اور اس بنیاد پر
تقسیم وطن کے فارمولے کو تسلیم کررہی تھیں، صرف علمائے اسلام کا ہی ایک
طبقہ ایسا تھا ،جو اس وقت بھی اور آج بھی مذہب کی بنیاد پر قومیت اور اس کے
حوالے سے دیگر اقوام سے غیریت و مخاصمت کا سخت مخالف رہا ۔ اس نظریہ کے
سرخیل مولانا ابوالکلام آزاد اور دیگر علماء اسلام تھے۔اس کی تائید میں
مولانا حسین احمدمدنی ؒ کا رسالہ ’متحدہ قومیت‘ اس دور میں بڑا بحث کا
موضوع رہا، مگرعلامہ اقبال جیسے دانشور نے بھی ابتدائی اختلاف کے بعد اس کی
تصدیق کردی۔ اس میں اپنے وطن کے مختلف مذہبی فرقوں کے درمیان پرامن بقائے
باہم اور بھائی چارے کی اصولی تائیدکی گئی ہے اور میثاق مدینہ سے استدالال
کیا گیا۔موجودہ قومی حالات میں جب کہ مذہب کی بنیادپرارتکازی سیاست کو ہوا
دی جارہی ہے اور جس کے نتائج حالیہ اسمبلی انتخابات میں سامنے آئے ہیں،
متحدہ قومیت کے نظریہ کی تبلیغ و فروغ کی اہمیت اور بڑھ گئی ہے۔
اس کانفرنس میں علمائے کرام کویاد دلایا گیا کہ مقامی، علاقائی اور عالمی
سطح پر قیام امن میں ان کا رول نہایت اہم ہے اور ان پر اس رول کو حد امکان
تک اداکرنے کی زمہ داری عائد ہوتی ہے۔ ہرقسم کی جارحیت اور تشدد پسندی کی
نفسیات اور ہرطرح کی وہ عصبیت جو دوسروں کا حق دبانے یا ان کی آواز کے
کچلنے کے لئے ہو، روح اسلام کے منافی ہے۔ ان کا ازالہ علمائے اسلام پر فرض
ہے جو انبیا کے وارث ہیں۔ کچھ عملی تدابیر کی طرف اشارہ کیا گیا مثلاً
جارحیت کے اسباب کا تعین کرکے ،ان کے ازالے کے لئے مذاکراتی انداز میں
پرامن سعی و جہد کی جائے۔
فرقہ ورانہ ہم آہنگی کی ضرورت پر متوجہ کراتے ہوئے یاددلایا گیا کہ اسلامی
تعلیمات کی روشنی میں خوش ہمسائگی کی بڑی اہمیت ہے۔ دراصل یہ ایسا بلیغ
نکتہ ہے کہ اگر آدمی کے ذہن میں اترجائے تو انسانیت کی خیرخواہی اس کا
وطیرہ بن جائے اور جب دیگرا قوام کو یہ محسوس ہوگا کہ امت مسلمہ ذاتی اغراض
کی غلام نہیں بلکہ ہردین دکھی اور ضرورت مند کی خیرخواہ ہے، اس کی مدد گار
ہے، تو بہت سی غلط فہمیاں اور بہت سی برائیاں جو ہماری اجتماعی و انفرادی
زندگی میں درآئی ہیں ،خود بخود دور ہوجائیں گی۔ اچھا پڑوسی ہونے کا مطلب یہ
ہے کہ پڑوسی کو یہ بے فکری ہو کہ وہ آپ کے طرف سے محفوظ و مامون ہے۔ یہ
اطمینان قیام امن کی کلید ہے ۔اس کے برخلاف بے اطمینانی فساد فی الارض کی
جڑ ہے۔
کانفرنس میں دین ومسلک کے نام پر بعض خطوں میں جارحیت اور دہشت گردی کابھی
نوٹس لیاگیا اور اس طرح کی وارداتوں میں بے خطاافراد کی ہلاکت خیزی کے خلاف
علماء کو سخت اور متحدہ موقف اختیارکرنے کی دعوت دی گئی ہے۔ گمراہ افراد کی
اس جارحیت پسندی سے اسلام کا نام تشدد اور دہشت گردی سے جوڑدیاگیا۔حالانکہ
اسلام کے صحیح نظریہ کو سمجھنے کے لئے قرآن اور رسول صلعم کی تعلیمات پر
نظرکرنی چاہئے ،جو اسلام کی اصل بنیاد ہیں ۔ اسلام ہرقسم کی ناانصافی، ظلم
و زیادتی، خوف و ہراس پھیلانے کے لئے جارحیت پسندی اور قتل و غارت گری کی
سختی سے ممانعت کرتا ہے۔اس حوالے سے دارلعلوم دیوبند کے فتوے اور ملک بھر
میں کانفرنسوں، جلسوں وغیرہ کے انعقاد کا ذکر کیا گیا اورکہا گیا کہ یہ
پیغام دنیا کے کونے کونے تک پہنچانا وقت کی اہم ضرورت ہے۔
اسی طرح مسلکی انتہا پسندی اور جارحیت پسندی کا انتہائی افسوسناک اور قطعی
غیر اسلامی رویہ بھی زیر غورآیا۔ نظریاتی اختلاف فطری امر ہے، مگر اس کو
بنیاد بناکر ایک دوسرے کے خون کا پیاسا ہوجانا اور مسجدوں و قبرستانوں کے
راستے روکنا صریح زیادتی ہے۔ یہ آگ دراصل بعض کوتاہ نظر علماء کی لگائی
ہوئی ہے جو فروعی مسائل کو اساس دین سمجھتے ہیں اور برادران اسلام کو دائرہ
ایمان سے خارج کرنے پرتلے رہتے ہیں۔ اس رویہ کو بدلنے کی ضرورت ہے۔ ایک اہم
موضوع اسلام میں اقلیتوں کے حقوق کا بھی ہے۔اسلامی تعلیمات اور سنت نبوی سے
اس باب کی تابندہ مثالوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ دنیا بھر میں
لسانی، مذہبی ، نسلی اور مسلکی اقلیتوں کے تحفظ کے مسئلہ کو اسلامی تعلیمات
کی روشنی میں حل کیا جاسکتا ہے اوریہ کہ مسلمانوں کو اس کا نمونہ پیش کرنا
چاہئے۔
کانفرنس نے دبے کچلے طبقات اور طبقہ خواتین کے حقوق کی ادائیگی میں
لاپروائی پر خاص طور سے توجہ دلائی۔ آج یہ بے بنیاد تصورعام ہے کہ اسلام
خواتین کا استحصال سکھاتا ہے اوراسلامی نظریہ حقوق نسواں کے منافی ہے۔
کانفرنس کی توجہ اس پہلو پر دلائی گئی کہ امت مسلمہ کو اپنے قول وعمل سے اس
غلط فہمی کو دورکرنا چاہئے۔ معاشرتی ؒخرابیاں،جیسے نشہ خوری، سفلہ پن، جنس
زدگی اور نمودونمائش اور فضول خرچی وغیرہ کسی خاص مذہبی طبقہ تک محدود نہیں
ہیں۔ چنانچہ ان کے ازالے کے لئے دیگراقوام کی اصلاحی تنظیموں اور کارکنوں
کے ساتھ اشتراک عمل کی ضرورت ہے۔ کہا گیا: اسلام کا مطلب ہے ہمہ جہت و ہمہ
گیر رحم دلی۔ اس لئے یہ بات بہت ہی مناسب اور قرین قاعدہ ہے کہ ہم ان
برائیوں کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لئے ،جو انسانیت کی جڑوں کو کھوکھلا
کررہی ہیں، دیگر مذاہب کی اصلاحی تحریکوں ، تنظیموں اورکارکنوں کے ساتھ
تعاون کریں۔
اس کانفرنس کا اہتمام بڑے پیمانے پر کیا گیا، مگر ہمارا یہ احساس ہے کہ اس
کا پیغام صرف ایک طبقہ تک محدود رہ گیا۔ اردو کے علاوہ دیگرزبانوں کے
اخباروں اور الیکٹرانک میڈیا نے وہ اہمیت نہیں دی جو امن عالم اور قومی ہم
آہنگی و بھائی چارے کے فروغ کی اہمیت کے پیش نظر دینی چاہئے تھی۔ مناسب
ہوتا کہ اس پروگرام کی تشہیر کے لئے ٹی وی چینلز پر وقت خریدا جاتا۔
خاتون سفارتکارسے بیہودگی
امریکا میں ہندستان کی ایک سینیرخاتون سفارتکار دیویانی کھوبراگڑے
کونیویارک پولیس نے اس وقت گرفتارکرلیا جب وہ اپنے بیٹی کو اسکول چھوڑنے
جارہی تھیں۔ ان کو سرراہ ہتھکڑی لگادی گئی۔ تھانے لیجاکر منشیات اسمگلنگ کے
ملزمان کی طرح ان کو برہنہ کرکے پراؤیٹ پارٹس تک کی تلاشی لی گئی۔ جرائم
پیشہ ملزمان کے ساتھ کھڑا رکھا گیا اور اسی کوٹھری میں ڈال دیا گیا جس میں
نشہ خور اور جسم فروش قید تھے۔عدالت نے ان کو ڈھائی لاکھ ڈالر کی ضمامت پر
چھوڑا۔ ان پر الزام ہے کہ وہ اپنی جزوقتی ملازمہ کو، جسے وہ ساتھ لے گئی
تھیں،صرف 600ڈالر ماہانہ اجرت دے رہی تھیں جبکہ امیگریشن حکام کو ویزا کے
وقت 45سوڈالر بتائی تھی۔کہا گیا کہ اتنی کم اجرت نیویارک کی سرکاری شرح سے
بہت کم ہے اور یہی ان کا جرم ہے۔
دیویانی نے اگر کوئی قانون شکنی کی بھی ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ ان کے
ساتھ ایسا بیہودہ رویہ اختیار کیا جاتا۔یہ پہلا موقع نہیں کہ امریکہ میں
کسی ہندستانی خاتون سفارت کار کے ساتھ نازیبا سلوک ہوا ہو۔ ہندستان کے
احتجاج پرپہلے تو امریکا نے صاف کہہ دیا کہ پولیس نے قاعدے قانون کے مطابق
کاروائی کی۔مگراب جب نئی دہلی نے امریکی سفارت کاروں کو دی جانے والی
مراعات کو واپس لینا شروع کیا تو امریکا کا کچھ ہوش آیا ہے اور جانچ کا
وعدہ کیا ہے۔ یہ وعدہ ناکافی ہے ۔
امریکی پولیس کے اس رویہ سے ظاہرہوتا ہے دنیا بھر کو انسانی حقوق کا سبق
سکھانے والا ملک طاقت کے زعم غیرملکیوں کے ساتھ کس قدر وحشی رویہ
اختیارکرتا ہے اور عورت ذات کی اس میں کیا جگہ ہے؟ امریکا کے اس زعم ناروا
کے ردعمل کے طور پر حکومت ہندجو کاروائی کررہی ہے وہ حق بجانب ہے۔ سرکار کو
یشونت سنہا کے اس مشورے پر بھی عمل کرنا چاہئے کہ امریکی سفارتخانے کے ہم
جنس پرست عملے کے ساتھیوں کا ویزا منسوخ کرنا چاہئے کیونکہ سپریم کورٹ نے
ہم جنس پرستی کو قانوناً جرم قرار دے دیا ہے۔
اس واقعہ کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ اعلا سفارتی منصب پرفائز ہونے کے باوجود
اگر دیویانی نے قانون قانون شکنی کی ہے توکیوں کی؟ دراصل قانون کے بے
توقیری ہندستانی حکام کا مزاج بن چکی ہے۔ یہ مزاج جدید تعلیم یافتہ طبقہ کے
اخلاقی دیوالیہ پن کا مظہر ہے۔یہ تعلیم انسان کودولت کمانے کی مشین تو
بنادیتی ہے، مگرقانون کا احترام کرنا نہیں سکھاتی، اس کو صاحب کردار
اوربااخلاق نہیں بناتی۔ عجب اتفاق کہ یہ گرفتاری ایک ہندستانی نسل کے
عدالتی افسر (اٹارنی) پریت بھرارا کے حکم پر ہوئی۔ بھرارا پنجابی ہیں اور
دیویانی مراٹھی ہیں۔
گرفتار ملزموں ساتھ امریکا ہی نہیں تمام یورپی ممالک اور بعض عرب ممالک میں
جو درندگی برتی جاتی ہے اس کا سبب یہ ہے کہ یہ ممالک سمجھتے ہیں جرائم پر
قابوپانے کے لئے جرم کے شک میں گرفتارافراد کے ساتھ ہرطرح کا رویہ روا ہے
حالانکہ قوانین اس کی اجازت نہیں دیتے۔اسلامی تعلیمات انسان کا احترام کرنے
کی تلقین کرتی ہیں، چاہے وہ کیسا ہی شاطر مجرم کیوں ہو۔حتٰی کہ میدان جنگ
میں حریفوں کی لاشوں تک کی بے حرمتی منع ہے۔(ختم) |