الیکٹرانک میڈیا حکمرانوں کی باگ
اپنے ہاتھ میں پکڑے، عوام کو قابو میں کئے ہوئے ،عدالتوں پر اثر اندازی کا
اصول اپنائے ہوئے، معاشرتی اور ثقا فتی اقدار کی دھجیاں بکھیرتے ہوئے ایک
بے قابو جن بنتا جا رہا ہے۔ ہر چینل دوسرے سے بازی لے جانے کی کوشش میں ہر
بند سے آزاد ہوتا جا رہا ہے نہ اخلاقیات ،نہ مذہب ،کچھ بھی اہم نہیں رہا ہے۔
سیاست پہ بات کم لڑائی اور توہین زیادہ کروائی جاتی ہے جس پروگرام میں ایک
دوسرے کی زیادہ سبکی اور بے عزتی کی جائے وہ بار بار دکھا کر اپنی ریٹنگ
بڑھائی جاتی ہے اور عوام کو جس چسکے کا عادی بنا دیا گیا ہے وہ انہیں اکثر
اوقات فراہم کیا جاتا ہے۔ نجی چینلز کے ابتدائی زمانے کی بات ہے شاید
قارئین کو بھی یادہوگا کہ ایک لڑکی دکھائی گئی اور کہا گیا کہ لباس سے آزاد
یہ لڑکی اٹھارہ سال تک جنگل میں رہی یعنی ہمارے ایک چینل نے اسے دریافت کیا
اور شیرخوارگی میں گم ہونے والی اس بچی کو اس کے ماں باپ نے شناخت بھی کر
لیا، کیسے یہ ایک معمہ ہی ہے۔ ایسی دریافتیں اب بھی اس چینل کی طرف سے بھی
جاری ہیں اور دیگر بھی اس دوڑ میں پیچھے ہی سہی دوڑے جارہے ہیں ۔میڈیا کے
تعاون سے بچے برائے فروخت کا ایک دور چلا، خود کشی کرنے والوں کو ہیرو
ہیروئن بناکر پیش کرنے کا فیشن بھی میڈیا میں ’’اِن‘‘ رہا ،اُن غریبوں کی
غربت کا رونا رویا گیا جن کے گھر واشنگ مشین، ٹی وی، فریج اور موبائل موجود
تھے ایسا ہی ایک کیس لاہور کی صائمہ کا تھا اور پھر سلسلہ چلتا گیا ۔اخلاقی
طور پر جو حملہ خود ہمارا اپنا میڈیا کر رہا ہے اُس کا رونا روتے روتے تو
شریف خاندانوں کی آوازیں بیٹھ گئیں ہیں لیکن اس حملے کی شدت میں کمی کی
بجائے روز بہ روز اضافہ ہی ہو رہا ہے۔ پڑوسی ملک سے محبت کا ثبوت دیتے اور
امن کی آشا کی پتنگ اُڑاتے اُڑاتے اپنی اقدار کا جنازہ نکال دیا گیا ہے۔ کم
لباسی بھی کوئی عیب نہ رہا اور مرد و عورت کا آزادا نہ میل جول بھی بلکہ اب
تو پروگرام میں بلائے گئے مہمان گلے مل کر ملتے ہیں اور اس میں صنف کوئی
تمیز نہیں چاہے مرد ہے یا عورت مارننگ شوز ہماری اسی نئی ثقافت اور معاشرت
کی مثالیں ہیں۔ مذہب کو تو ہم کب کا بھول چکے ہیں کیونکہ مذہب کو سوچا تو
ریٹنگ کیسے بڑھے گی، مذہب میں تو رکھ رکھاؤ ہے، انسانیت کی اعلیٰ اقدار ہیں
اور معاشرے کی تباہی کے لیے پہلے ان کی تباہی ضروری ہے۔
اب ذراسیاسی، معاملات کی طرف آئیے جو نیوز چینلز کے لیے خوراک کا درجہ
رکھتے ہیں اور ہر روز رات کو بڑی باقاعدگی سے حالات حاضرہ کے نام پر یہ
سیاسی لڑائیاں دکھائی جاتی ہیں جن میں اینکرز خواتین و حضرات مکمل کوشش
کرکے شرکاء کو لڑوا دیتے ہیں۔ فردوس عاشق اعوان اور کشمالہ طارق کی لڑائی
ایسی ہی ایک ابتدائی مثال تھی جس کے بعد کئی مثالیں قائم ہوئیں اور ہو رہی
ہیں یعنی جتنا زیادہ گڑڈالا جاتا ہے اتنی ہی مٹھاس آتی ہے اور ریٹنگ اتنی
ہی بڑھتی جاتی ہے۔ کچھ ایسے پروگرام بھی پیش کیے جاتے ہیں جیسے پانی سے
چلنے والی گاڑی، ایک عام پاکستانی بھی کچھ دن خوش ہوجاتا ہے کہ اب لانگ
ڈرائیو پر نکلنا اس کے لیے بھی ممکن ہوگا اور چینل کی ریٹنگ خود بہ خود
آسمان کو چھو جاتی ہے۔ ریٹنگ کی اس دوڑ نے ہمارے میڈیا کو صحافت کے مروجہ
اصولوں اور اخلاقیات سے آزاد کر دیا ہے، معیار کی جگہ رنگینی اور چسکے نے
لے لی ہے اور ایسا ریٹنگ کی دوڑ کی وجہ سے ہے جس کے لیے ہر اخلاقی وغیر
اخلاقی طریقہ آزمایا جا رہا ہے۔ ریٹنگ کے لیے جو طریقہ کار استعمال کیا جا
رہا ہے وہ ہر گز کسی چینل کی مقبولیت کا معیار نہیں سمجھا جا سکتا اس طریقے
کے تحت صرف چند شہروں میں چند گھروں پر کچھ میٹر لگائے گئے ہیں جن سے دیکھے
جانے والے چینلز کو ما نیٹر کیا جاتا ہے اور رپورٹس کے مطابق ریٹنگ بڑھانے
کے لیے ان میٹرز کو خود بھی آگے پیچھے کر دیا جاتا ہے اور یوں اپنی ریٹنگ
بڑھاکر مزید اشتہارات حاصل کر لیے جاتے ہیں یعنی مالکان کی تجوریاں بھرتی
جاتی ہیں اور ان اینکرز کے بینک بھی ۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ
چند ایک بڑے شہر مثلاََ اسلام آباد، راولپنڈی ، لاہور ، کراچی وغیرہ اور
اُن میں بھی چند گھر پورے پاکستان یا پوری دنیا کی نمائندگی کے حق دار کیسے
ہو گئے۔ پیمرا کو بھی کچھ سوچ لینا چاہیے اور کسی چینل یا پروگرام کو نمبر
ایک قرار دینے سے پہلے اس کے بارے میں عوام کی رائے بھی جان لینا چاہیے اور
قومی سلامتی کے تقاضوں سے ہم آہنگی اور قومی سلامتی، قومی نظریے ، قومی
اداروں اور بین الاقوامی طور پر قومی عزت کے تحفظ کو بھی مدنظر رکھنا چاہیے
کیونکہ قومی سلامتی کو باقی تمام چیزوں پر مقدم ہونا چاہیے ۔ ریٹنگ کی
اہمیت نے ہمارے میڈیا کو تمام تر اخلاقی و قومی تقاضوں سے آزاد کر دیا ہے
اور ہر چینل اسی کے پیچھے دوڑ رہا ہے چاہے اس کے لیے کچھ بھی کرنا پڑے
حکومت اور اداروں کی کرپشن اور خرابیاں اُجاگر کرتا ہوا میڈیا اگر اپنے
گریبان میں جھانک کر دیکھے تو وہاں بھی بہت سے جرائم نظر آئیں گے لیکن ان
کو دکھانے کے لیے کوئی’’ شیڈو میڈیا‘‘ نہیں ہے کہ عوام اس کے بارے میں جان
سکیں۔
میڈیا کو معاشرے میں اچھی روایات کی بنیاد ڈالنے کے لیے کردار ادا کرنا
چاہیے قومی اتحاد کا پیا مبر ہونا چاہیے ، خرابیوں کی نشاندہی کرنا چاہیے
ناکہ اسے اُچھال اُچھال کر سیاسی جنگوں اور بین الاقوامی سبکی کا باعث
بنایا جائے۔ اسی میں ہماری بقا اور عزت ہے اور میڈیا کے لیے بھی عوام الناس
میں احترام کا ایک ایسا جذبہ پیدا ہوگا جو خود بہ خود اس کی ریٹنگ بڑھا دے
گا بغیر کسی نا جائز ذریعہ کے استعمال کے ۔ |