یہ حدیث ہر مسلمان نے پڑھی اور
سنی ہو گی۔ اکثر علما کرام اپنی تقاریر میں یہ حدیث بیان کرتے ہیں اور ماں
باپ اپنی اولاد کو، بڑے اپنے سے چھوٹوں کو، دوست اپنے دوست بھا یٔیوں
کوبتاتے اور سمجھاتے ہیں کہ اگر تم دنیا میں جنت کمانا چاہتے ہو توماں باپ
کی خدمت کر لو۔جو کہ بالکل سچ ہے اور ایک اٹل حقیقت ہے۔لیکن ہم ایک بہت اہم
پہلو کو نظرانداز کر دیتے ہیں وہ یہ کہ زبان رسالت ﷺ سے نکلنے والے الفاظ
جامع الکلم یعنی کوزے میں دریابند ہوتے ہیں۔
لہذا اس حدیث کا ایک معنی اور مفہوم تو واضح ہے اولاد کے لیے کہ اولاد کی
جنت ماں باپ کے قدموں کے نیچے ہے۔
اب دوسرا پہلو یہ کہ بچہ جب پیدا ہوتا ہے تو ماں تب بھی ماں ہوتی ہے اور
بچہ اولاد۔ لیکن بچے کو تو شعور ہی نہیں کہ جنت کیا اور جہنم کیا۔یہ تو اس
کے ماں باپ کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی اولاد کو اچھے اور برے کی تمیز
بتایٔیں۔ اس کی تا یٔید وہ حدیث ہے کہ ہر نومولود(پیدا ہونے والا بچہ) فطرت
اسلام پہ پیدا ہوتا ہے لیکن اسے اس کے ماں باپ یہودی، نصرانی یا مجوسی بنا
لیتے ہیں تو اس حدیث کی تایٔید سے یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ یہ حدیث پہلے
ماں باپ پر عایٔد ہوتی ہے کہ تمہاری اولاد کی جنت تمہارے قدموں کے نیچے ہے۔
چاہے تو اچھی تربیت کر کے ان کو جنتی بنا لو ۔ چاہے تو بری تربیت کر کے ان
کو جہنمی بنا لو۔
میں ان ماں باپ سے ملتمس ہوں جوپہلے اپنی اولاد کو غلط کام کرنے پر داد
تحسین دیتے ہیں اور پھر ان کی زبان پر شکو ے رقص کرتے ہیں کہ اولاد نیک
نہیں، فرمانبردار نہیں۔ ماں باپ پہلے تواولاد کی تربیت کا حق ادا نہیں
کرتے۔تو نتیجہ میں جب اولاد اپنا بر ا رویہ ظاہر کرتی ہے تو اپنی قسمت کو
کوستے ہیں۔
آخر میں میری تمام مسلمانوں سے گزارش ہے کہ جو اولاد ہے وہ اپنے ماں باپ کی
فرمانبرداری کریں اور ماں باپ اپنے بچوں کی اچھی تربیت کریں اور اس حدیث کے
دونوں پہلو ؤں پرصحیح معنوں میں عمل پیرا ہوں۔یہی میرا مقصد بیان ہے۔
میرا مقصد بیان یہ نہیں ہے کہ جو اولاد کو کہا جا تا ہے کہ ماں باپ کا ادب
کرو ان کی خدمت کرو وہ غلط ہے۔ ہر گز ایسا نہیں ہے۔بلکہ ماں باپ اپنی اولاد
کی اچھی تربیت کر کے اپناحق ادا کریں اور اولاد ماں باپ کی خدمت کر کے اپنا
حق ادا کرے۔ |