اہل صحافت مزدوروں کی مانند وہ
معصوم قبیلہ ہے جو عمارت توبناسکتاہے لیکن اس میں رہ نہیں سکتا۔چھپرہوٹل کو
فورسیزن ریسٹورنٹ میں بدل سکتاہے مگر وہاں شیئر حاصل نہیں کرسکتا۔یہ وہ ستم
رسیدہ طبقہ ہے جو عوام کے حقوق کی حفاظت توکرتاہے لیکن عوام کے لوگ اس کے
خون سے پیاس بجھانے والے کو کیفرکردارتک پہنچانے میں کوئی خاص کرداراداکرنے
کی زحمت گوارانہیں کرتے۔
عجب بات ہے اہل صحافت جن افراد کے حقوق کیلئے جان ہتھیلی پر رکھ کر ‘موسم
کی جولانیوں سے بے نیاز ہوکرکام کرتے ہیں وہ انکی موت پرمگرمچھ کے آنسوبھی
نہیں بہاتے ۔دھرنانہیں دیتے‘احتجاج نہیں کرتے ‘جلوس نہیں نکالتے ؟؟؟ویتنام
کی جنگ ہو یا حساس معاملات فرض شناس صحافی جان دے دیتاہے مگر اپنے کام میں
کوتاہی نہیں کرتا‘لاپرواہی نہیں کرتا۔جبکہ صدیوں سے نام نہادبادشاہت
وجمہوریت کے بہیمانہ ظلم وستم سہتے سہتے بنی نوع انسان کے جسم کی کھال
ادھڑچکی ہے لیکن مجال ہے جو انکی طرف داری سے منہ موڑیں ۔ہاں
ایساضرورہوتاہے کہ اگر کوئی اینکرکڑواسچ بولتاچلاجائے تواسے ملک
کاغدار‘غیرملکی ایجنسیوں کاآلہ کارقراردے کرنفرت کی آگ بھڑکانے کی مساعی کی
جاتی ہے۔ایسانہیں کہ اہل صحافت کی صفوں میں میرجعفرومیرصادق نہیں مگرجب
میلی کچیلی سیاسی عباء کو دھونے کی خاطر بے جرم وخطاء کسی
پرکیچڑاچھالاجاتاہے تو قلم کاروں کو بھی صدمہ پہنچتاہے ۔گو کہ حق پرست
پھربھی حق گوئی سے باز نہیں آتے لیکن دل پکاراُٹھتاہے
جن کے لیئے مرے تھے وہ رہے وضوکرتے
صحافیوں کے تحفظ کیلئے نیویارک میں قائم تنظیم واچ ڈاگ نے سال دوہزارتیرہ
کی رپورٹ جاری کی ہے جس کے مطابق رواں سال باون اہل صحافت اپنے فرائض کی
انجام دہی کے دوران خالق حقیقی سے جاملے ۔رپورٹ میں کہاگیاہے کہ گزشتہ برس
کے برعکس ‘دوہزارتیرہ میں کم ہلاکتیں ہوئیں تاہم اعدادوشمار کے مطابق یہ
دوسرابدترین سال ہے۔اہل صحافت کا سب سے زیادہ نقصان چین ‘ایران اورترکی میں
ہوا۔مصراورویتنام سمیت مختلف ملکوں میں دوسوسے زائد سزائیں بھگتناپڑیں۔شام
کی خانہ جنگی کو سکرین اورکاغذپرلانے کی خاطر اکیس صحافی ہلاک اور تیس
لاپتہ ہوئے(آپ اگر لاپتہ لفظ کا حقیقی ترجمہ جانناچاہتے ہیں توبلوچستان سے
کراچی تک پیدل چل کے آنے والے قافلے کے سرکردہ رکن ماماقدیر سے
استفسارکیجئے جو اب خالی ہاتھ لوٹ رہے ہیں)۔رپورٹ میں مزید کہاگیاکہ رواں
برس مصرمیں چھ‘پاکستان میں پانچ ‘صومالیہ میں چار جبکہ برازیل میں تین
صحافی اپنی جان سے ہاتھ دھوبیٹھے۔
یہ اعدادوشماربتاتے ہیں کہ دنیامیں سچ کو برداشت کرنے کی سکت ابھی تک تکمیل
کر مراحل میں ہے۔الیکڑونک اورپرنٹ میڈیاکو ہرگزمادرپدرآزاد نہیں ہوناچاہیئے
کیونکہ ہرادار ے کی کامیابی کا رازاخلاقی حدود کی حفاظت سے ہی ممکن ہے‘لیکن
ایسے واقعات نہایت قلیل ہیں کہ ضابطہء اخلاق کی خلاف ورزی پر صحافی کو موت
کاپروانہ ملا ہو۔بلکہ نوے فیصدسے زائد کیسزمیں انہیں مذہبی‘سرحدی‘لبرل
اورجمہوری انتہاپسندی نے موت کے گھاٹ اُتارا۔
اب جبکہ 2013اختتامی مراحل طے کررہاہے مجھے یہ کہنے میں کوئی باک نہیں کہ
جب تک عوام صحافیوں کے سچ بولنے پر انکاساتھ نہیں دیں گے عوام پورے سچ سے
محروم رہیں گے کیونکہ یا تو سچ بولنے والے کی زبان گنگ کردی جائے گی یاہاتھ
منجمد کردیئے جائیں گے اگرایساکچھ نہ ہوسکاتو پھر سنسرکی وہ کاری ضرب لگائی
جائے گی جو تحریروبیان کی شہ رگ کو کاٹ ڈالتی ہے۔ حمودالرحمن رپورٹ پاکر
بھی لوگ تذبذب کا شکاررہیں گے کہ ممکن ہے اسکے صفحات بدل دیئے گئے ہوں۔
اہل صحافت مزدوروں کی مانند وہ معصوم قبیلہ ہے جو عمارت توبناسکتاہے لیکن
اس میں رہ نہیں سکتا۔چھپرہوٹل کو فورسیزن ریسٹورنٹ میں بدل سکتاہے مگر وہاں
شیئر حاصل نہیں کرسکتا۔یہ وہ ستم رسیدہ طبقہ ہے جو عوام کے حقوق کی حفاظت
توکرتاہے لیکن عوام کے لوگ اس کے خون سے پیاس بجھانے والے کو کیفرکردارتک
پہنچانے میں کوئی خاص کرداراداکرنے کی زحمت گوارانہیں کرتے۔ |