پاکستان کی تباہی کا ذمہ دار اگرکسی ایک نکتہ کو لیا جائے
تو وہ اس کے تعلیمی نظام کی تباہی ہے۔ اس پر تمام اہل دانش یکساں رائے
رکھتے ہیں ۔ لیکن ہما ری حکومت کے لئے یہ ترجیح نہیں ہے۔ ان کی ترجیحات میں
بلٹ پروف گاڑیاں ، سرکاری مراعات، غیر ملکی دورے، اور سب کچھ ہے، تعلیم کے
علاوہ۔ سندھ کے ایک سابق سیکریڑی تعلیم نے ایک واقعہ سنایا، ایک بار سندھ
کی سابق وزیر تعلیم حمیدہ کھوڑو اپنے محکمہ تعلیم کے افسروں سے پوچھ رہی
تھی کہ سندھ کے سرکاری اسکولوں کا کیا حال ہے۔ سب اچھا ، سب اچھا کی رپورٹ
آ رہی تھی۔ اتنے میں ایک افسر نے اٹھ کر کہا کہ گستاخی معاف سرکاری اسکولوں
کا یہ حال ہے کہ یہاں موجود سب افسران میں سے کسی کا بچہ ان پیلے اسکولوں
میں نہیں پڑھتا۔ یہ سن کر سب کو سانپ سونگھ گیا۔
عالمی ادارے کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں تقریباً دو کروڑ پچاس
لاکھ بچے اسکول نہیں جاتے جبکہ پرائمری سکول چھوڑ دینے والے بچوں کی شرح 30
فیصد ہے۔پاکستان کی نئی نسل میں تعلیم کا رجحان روز بہ روز کم ہو رہا ہے۔
صرف ایک سال پہلے، یعنی 2012کی بات کریں، تو اس سال تک ملک بھر میں صرف 21
فیصد افراد پڑھے لکھے اور 79 فیصد ان پڑھ تھے۔ ان دونوں ہندسوں کا درمیانی
فرق 21 ویں صدی کے جدید ترین دور میں حیران کن ہونے کے ساتھ ساتھ افسوسناک
بھی ہے۔اقوام متحدہ کے ادارے یونیسکو کا کہنا ہے کہ دنیا کے 221 ممالک میں
مذکورہ بالا شرح خواندگی کے ساتھ پاکستان 180 ویں نمبر پر ہے۔عمر کے لحاظ
سے دیکھیں تو جو لوگ زیادہ پڑھے لکھے ہیں ان کی عمریں 55سے 64سال کے درمیان
ہیں اور ان کی شرح خواندگی 57 فیصد بنتی ہے جبکہ 15سے 24 سال کی عمر کے
نوجوانوں کی شرح 72فیصد ہے یعنی تعلیم کا گراف گررہا ہے, جنہوں نے پہلے
پڑھا ، سو پڑھا، نئی نسل میں تعلیم کا رجحان ہی کم ہے۔حد تو یہ ہے کہ شرح
خواندگی میں پاکستان جنوبی ایشیا میں صرف افغانستان اور بنگلہ دیش سے اوپر
ہے جبکہ چین، ایران، سری لنکا، نیپال اور برما بھی پاکستان سے آگے ہیں۔۔
پاکستان کی نئی نسل میں تعلیم کا رجحان روز بہ روز کم ہو رہا ہے۔ سنہ 2012
میں 70 لاکھ طلبا اسکول اور کالج جارہے تھے جن میں سے 26 لاکھ پرائمری
اسکول، 29 لاکھ سیکنڈری اسکول اور 15 لاکھ کالج یا یونیورسٹی میں زیر تعلیم
تھے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ طلبا میں وقت کے ساتھ ساتھ اعلیٰ تعلیم کے حصول
کا رجحان بتدریج کم ہوتاجاتا ہے۔اسکولوں سے فارغ التحصیل ہوکر کالج جانے
والے طلباکی شرح صرف 3 فیصد رہ جاتی ہے، جبکہ جب یونیورسٹی کا مرحلہ آتا ہے
تو یہ شرح گھٹ کر صرف ایک فیصد رہ جاتی ہے۔پاکستان کے سرکاری خبر رساں
ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس آف پاکستان نے یونیسکو کی جاری کردہ اِسی رپورٹ کے
حوالے سے کچھ مزید اعداد و شمار بھی جاری کئے ہیں جن کی تفصیل کچھ اس طرح
ہے:۔ ملک بھر میں 75 فیصد لڑکے اور لڑکیاں میٹرک یعنی 10 ویں کلاس سے بھی
پہلے اسکول کو سدا کے لئے خیرباد کہہ دیتے ہیں۔۔ اکیاسی فیصد طالب علم
انگریزی کے الفاظ نہیں پڑھ سکتے۔۔ تین سے پانچ سال کی عمر کے سندھ سے تعلق
رکھنے والے 72 اور بلوچستان کے 78 فیصد طلبا اسکول نہیں جاتے۔۔ سروے کے
دوران پانچویں اور چھٹی کلاس کے طلباکو انگریزی کا ایک مضمون پڑھنے کے لئے
دیا گیا۔ ان میں سے چھٹی کلاس کے 94 اور 5 ویں کلاس کے 68 فیصد بچے یہ
مضمون نہیں پڑھ سکے۔ہمارا مذہب اسلام تمام عورتوں اور مردوں کو تعلیم حاصل
کرنے کا پابند بناتا ہے، لیکن یہاں 51لاکھ بچے بنیادی تعلیم سے بھی محروم
ہیں۔دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی ہر سال خواندگی کا عالمی دن منایا
منایا جاتا ہے۔ بلند بانگ دعوی کیئے جاتے ہیں۔ اس دن کی مناسبت سے وزیراعظم
نواز شریف نے اپنے پیغام میں کہا ہے کہ حکومت ملک سے جہالت اور ناخواندگی
کو ختم کرنے کے لیے بھرپور کردار ادا کرے گی۔ایک سرکاری بیان میں ان کا
کہنا کہ پاکستان میں خواندگی کی شرح کو 56 فیصد سے بڑھانے کے لیے بھی
اقدامات کیے جارہے ہیں۔ لیکن یہ بیان ہی جاری ہوتے ہیں صورتحال میں کوئی
تبدیلی نہیں آتی۔پاکستان میں تعلیمی شعبے کی صورتحال غیر تسلی بخش ہے اور
اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں تقریباً دو کروڑ پچاس
لاکھ بچے اسکول نہیں جاتے جب کہ پرائمری کی سطح پر ہی اسکول چھوڑ جانے والے
بچوں کی شرح 30 فیصد ہے۔حکومت نے صوبوں کے تعاون سے ایک مہم کے ذریعے ملک
بھر میں تقریباً پانچ لاکھ بچوں کو اسکول داخل کرانے کا اعلان کیا ہے۔
ہمارے یہاں اس وقت تعلیم پر سالانہ ملک کی مجموعی پیداوار کا دو فیصد سے
بھی کم خرچ کیا جا رہا ہے جب کہ اقوام متحدہ کے مطابق اسے کم ازکم چار فیصد
تک ہونا چاہیے۔پاکستان میں بچوں کے اسکول میں داخلے اور پھر اسکول چھوڑ
جانے کی تشویشناک شرح کی وجہ مبصرین کی نظر میں تعلیمی نظام میں سقم کے
علاوہ ایک قابل ذکر تعداد میں اسکولوں میں بنیادی سہولتوں اور تربیت یافتہ
اساتذہ کی کمی ہے۔ امریکہ کے ادارہ برائے بین الاقوامی ترقی ’یو ایس ایڈ‘
نے پاکستان میں تعلیمی شعبے میں بہتری کے لیے 16 کروڑ ڈالر کے ایک منصوبے
میں معاونت فراہم کی ہے۔ جس میں بین الاقوامی ریسکیو کمیٹی اور اس کی دس
شراکت دار تنظیموں کے ذریعے ’پاکستان ریڈنگ پراجیکٹ‘ نامی اس منصوبے کے لیے
تحت ملک بھر کے 38 ہزار اسکولوں میں تعلیمی سرگرمیوں کو بہتر اور 94 ہزار
اساتذہ کی استعداد کار کو بہتر بنایا جائے گا۔ اس منصوبے سے تقریباً 32
لاکھ بچے مستفید ہوسکیں گے۔ملک کے تعلیمی نظام میں تباہی کا ایک سبب گھوسٹ
اسکول ہیں۔ جن کا کوئی وجود نہیں ہے۔ لیکن کاغذوں پر یہ اسکول قائم ہیں۔
چھٹی کلاس کے مختلف شہروں میں ’گھوسٹ‘ اسکولوں کی موجودگی کا انکشاف ہوا ہے
جن کی تعداد 1200 سے زائد ہے۔ اس بات کا انکشاف پاکستان میں بیسک ایجوکیشن
کمیونٹی اسکولز کی تحقیقی رپورٹ میں کیا گیا یے۔رپورٹ کے مطابق، ملک بھر کے
مختلف شہروں میں گھوسٹ اسکولوں کی اتنی بڑی تعداد صرف کاغذی کاروائی تک
محدود ہے اور ان اسکولوں کے اساتذہ کو باقاعدگی سے تنخواہیں بھی دی جا رہی
ہیں۔ لیکن، حقیقی طور پر ان اسکولوں میں تعلیمی سرگرمیاں موجود نہیں۔یہ
تحقیقی رپورٹ بتاتی ہے کہ گھوسٹ اسکولوں کی سب سے زیادہ تعداد خیبرپختونخوا
میں ہے، جن کی تعداد 345 اور فاٹا کے قبائلی علاقوں میں 305 گھوسٹ اسکول
موجود ہیں۔
|
|
جبکہ ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں ان گھوسٹ اسکولوں کی تعداد 276 ،
سندھ میں 64، بلوچستان میں 69، کشمیر اور گلگت بلتستان میں 89 اسکول اور
اسلام آباد میں 57 گھوسٹ اسکول ہیں، جہاں کسی بھی قسم کی تعلیمی سرگرمیاں
نہ ہونے کے برابر ہیں۔ملک بھر سے اتنی بڑی تعداد میں گھوسٹ اسکولوں کا
سامنے آنا تعلیم کی صورتحال کا ایک تشویشناک پہلو ہے۔سپارک نامی تنظیم کی
بچوں کی صورتحال کی رپورٹ برائے سال 2012 کے مطابق پانچ سے نو سال تک کی
عمر کے تقریباً دو کروڑ بچوں میں سے ایک چوتھائی اسکول جانے سے محروم ہیں
اور یوں ملک میں ایسے بچوں کی کل تعداد تقریباً اڑھائی کروڑ بنتی ہے۔ان میں
سے تین سے پانچ سال تک کی عمر کے ستر لاکھ بچے بنیادی تعلیم سے بھی محروم
ہیں۔رپورٹ کے مطابق گزشتہ ایک دہائی میں پاکستان میں تعلیم کا بجٹ 2.6 فیصد
سے کم ہو کر 2.3 فیصد پر آیا اور ’’یوں دنیا کی تعلیمی انڈیکس میں 120
ممالک میں سے پاکستان 113 نمبر پر ہے‘‘۔رپورٹ کے مطابق آبادی کے اعتبار سے
ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں اسکول داخل نہ کروائے جانے والے بچوں کی
شرح سب سے زیاہ 61 فیصد ہے۔ سندھ میں یہ شرح 53 فیصد، خیبر پختونخواہ میں
51 فیصد اور بلوچستان میں 47 فیصد رہی۔نوجوانوں میں خواندگی کی شرح کے
اعتبار سے بھی پاکستان سب سے کم سطح پر ہے جو کہ 70.7 فیصد ہے۔ 15 سے 24
سال کے عمر کے صرف 79 فیصد لڑکے جب کہ 61 فیصد لڑکیاں خواندہ ہیں۔ حالیہ
انتخابات کے بعد مرکز اور صوبوں میں قائم ہونے والی حکومتوں نے اپنے بجٹ
میں تعلیم پر خصوصی توجہ دینے کا اعلان کیا ہے۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ نا
صرف اسکولوں سے باہر بچوں کو تعلیمی نظام میں شامل کیا جائے گا بلکہ نصاب
کو بھی جدید تقاضوں کے مطابق تبدیل کر کے معیار تعلیم کو بہتر بنایا جائے
گا۔ پاکستان میں تقریباً 75 فیصد بچے اور بچیاں دسویں جماعت تک پہنچنے سے
پہلے ہی اسکول چھوڑ دیتے ہیں جبکہ جماعت سوئم میں پڑھنے والے 81 فیصد طالب
علم دوسری جماعت کے انگریزی کے جملے نہیں پڑھ سکتے۔ حال ہی میں حکومتی
ادارے منصوبہ بندی کمیشن کی طرف سے جاری ہونے والی سالانہ تعلیمی صورتحال
2012ء نامی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ صوبہ سندھ اور بلوچستان میں بالترتیب
62 اور 78 فیصد 3 سے 5 سال کی عمر کے بچے اور بچیاں اسکول نہیں جاتے۔رپورٹ
کے مطابق سروے کے دوران، بلوچستان میں جماعت سوئم اور پنجم کے طالب علموں
کو جماعت دوئم کا ایک مضمون پڑھنے کو دیا گیا مگر ان میں سے بالترتیب 94
اور 68 فیصد ایسا نہ کرسکے۔ماہرین تعلیم کا کہنا ہے کہ ملک میں تعلیمی
معیار کی تنزلی کی وجہ اس شعبے میں بہتری لانے کے لیے حکومتوں کی عدم
دلچسپی ہے۔یہ اعداد و شمار تعلیمی محکموں اور وزرا کی کارکردگی کا منہ
چڑاتے ہیں ، اس لئے ضروری ہے کہ یہ اعداد وشمار ان کے دفاتر میں نمایاں طور
پر چسپاں کرنے چاہیئں اور انہیں کہا جائے یہ ہیں تمھارے دعوے اور یہ ہے
حقیقت۔ تعلیمی اداروں میں نا اہل اساتذہ کی بھرتیاں ایک مستقل روگ ہے۔ جبکہ
ان کی تربیت کے لیے بھی کوئی طریقہ کار موجود نہیں۔ یہ ماہرین یہ بھی کہتے
ہیں کہ ملک میں تعلیمی نصاب میں تبدیلی کی اشد ضرورت ہے۔ موجودہ حکومت
کیطرفدار کہتے ہیں کہ ملک کا تعلیمی نظام گزشتہ کئی سالوں کے دوران حکومتوں
کی عدم توجہ کے باعث تباہ ہوا ہے اس لیے اس میں بہتری کے لیے وقت درکار
ہوگا۔ حکومت کی جانب سے حال ہی میں تعلیم کے فروغ کے لیے بنیادی تعلیم کو
لازمی اور مفت قرار دیا گیا ہے جبکہ 30 لاکھ نادار بچوں کو تعلیم فراہم
کرنے کے لیے وسیلہ تعلیم نامی چار سالہ منصوبے کا اعلان کیا گیا ہے۔لیکن ان
منصوبوں پر سست روی سے پیش رفت کی جارہی ہے۔ اقوام متحدہ کے ملینیئم گولز
کے مطابق پاکستان کو شرح خواندگی 2015 تک 56 سے 88 فیصد تک لے جانی ہے۔لیکن
حکومتی عہدیدار پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ اس ہدف کو حاصل نہیں کیا جا سکتا۔
پنجاب کی صوبائی حکومت نے تعلیم کے شعبے میں تبدیلی لانے کیلئے صوبے میں
اسمارٹ اسکول سسٹم متعارف کرایا ہے۔ جو نچلے طبقے کو رسائی نہیں
دیتا۔اسمارٹ اسکول سسٹم میں' آٹھویں جماعت سے دسویں جماعت تک کے تمام
سرکاری اسکولوں کا تعلیمی کورس کتابوں کے بجائے الیکٹرانک 'آئی پیڈز' پر
منتقل کیا گیا ہے۔حکومت پنجاب کی جانب سے صوبے کے سرکاری اسکولوں میں
اسمارٹ اسکول سسٹم کے تحت 12 لاکھ طالبعلموں کو کمپیوٹر ٹیبلٹ فراہم کرنے
کا پروگرام ہے تاکہ وہ کورس کو ان ٹیبلٹ پر ڈاؤن لوڈ کرسکیں اور طالبعلموں
کو بھاری بھرکم بستوں سے نجات مل سکے‘۔ منصوبے میں صوبے کے ہر اسمارٹ اسکول
کے کمپیوٹروں کر ڈیجیٹل لائبریری سے منسلک کیا جانا بھی شامل ہے۔ یہ سب ایک
ایسے ملک میں کیا جارہا ہے جہاں بچوں کی بڑی تعداد کھلے میدانوں اور بوری
یا چٹائی پر بیٹھ کر تعلیم حاصل کرتی ہے۔ اسکولوں میں اساتذہ کی کمی اور
وہاں بچوں کی بے تحاشہ تعداد ، جس کی وجہ سے بچوں پر توجہ نہیں دی جاسکتی۔
ملک میں سیاسی عدم استحکام، سلامتی کے حالات اور قدرتی آفات کی وجہ سے
تعلیم کے فروغ کے لیے کی جانے والی کوششیں بھی شدید متاثر ہوئی ہیں۔ تعلی
کے لحاظ سے سب سے برا حال صوبہ سندھ کا ہے۔ جس کے بارے میں سرکاری اسکولوں
کے بارے میں جائزہ رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ صوبہ سندھ کے 27 اضلاع
میں قائم 6721 سرکاری اسکولوں میں سے 4540 اسکول غیر فعال ہیں، جبکہ 2181
اسکول محض کاغذوں پر موجود اسکول موجود ہیں۔ سندھ ہائی کورٹ کے سیشن ججز کی
جانب سے مرتب کردہ اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سندھ کے تعلیمی نظام کو
دہشتگردوں اور خودکش حملوں سے نہیں تعلیمی نظام میں رائج بدعنوانی،
جاگیرداروں اور وڈیروں سے خطرہ ہے۔رپورٹ کے مطابق، سندھ بھر میں48227
سرکاری اسکول قائم ہیں، جس میں کراچی کے پانچ اضلاع کے 4540 سرکاری اسکول
غیر فعال ہیں۔ سندھ کے 524 سرکاری اسکولوں میں غیر قانونی تجاوزات ہیں،
جبکہ 17 اسکولوں کی تعمیر التوا کا شکار ہے۔ رپورٹ میں 2181 گھوسٹ اسکولوں
کا انکشاف کیا گیا ہے۔بتایا گیا ہے کہ مختلف اسکولوں کو مقامی زمینداروں
اور جاگیرداروں کی جانب سے مویشی پالنے اور ’گیسٹ ہاوس‘ کیلئے استعمال کیا
جا رہا ہے۔ پیپلز پارٹی کی حکومت کا سندھ میں تسلسل ہے۔ سابق صدر آصف علی
زرداری کے اپنے ہی ضلع بینظیرآباد میں 112 اسکولوں میں بچے تعلیم سے محروم
ہیں جبکہ ان کی سخاوت کا یہ عالم تھا کہ اپنے عہد صدارت میں انھوں نے ملالہ
یوسف زئی کی اپیل پر دنیا بھر کی لڑکیوں کو اسکول بھیجنے کے پروگرام کے لیے
سخاوت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک کروڑ ڈالر دینے کا اعلان کیا تھا۔ جبکہ ان
کے اپنے ہی صوبے میں تعلیم کا نظام ابتر، اور تباہی سے دوچار رہا۔سپریم
کورٹ نے ایک سوموٹو ملک میں تعلیم کے سلسلے میں بھی لیا تھا۔
|
|
سپریم کورٹ آف پاکستان کے ازخود نوٹس پر ملک بھر میں تعلیمی نظام کی جانچ
پڑتال کیلئے 11 فروری 2012 کو بنائی گئی ججز پر مشتمل کمیٹیوں کو ملک بھر
میں تعلیم کے حوالے سے رپورٹ پیش کرنے کے لیے کہا گیا تھا۔اس حکم میں کہا
گیا تھا کہ ڈسٹرکٹ و سیشن ججز بذات خود جا کر اسکولوں کا جائزہ لیں اور
عدالت میں رپورٹ جمع کرائیں۔ جس کے بعد ہائی کورٹ کی تجزیاتی رپورٹ سامنے
آئی ہے، جس میں سندھ میں تعلیم کے نظام کی خستہ حالی سامنے آئی۔گذشتہ دور
حکومت کی سندھ کی مضبوط سیاسی جماعت نے اسمبلیوں میں مفت اور لازمی تعلیم
کے کئی آرڈیننس اور قراردادیں بھی منظور کرائیں، مگر عملی طور پر سندھ میں
تعلیم کے لیے اب بھی کوئی قابلِ قدر اقدامات ہوتے ہوئے دکھائی نہیں دیے۔
سندھ میں گذشتہ دور میں تعلیم کے شعبے میں لاکھوں روپے رشوت لے کر ملازمتیں
فروخت کرنے کے واقعات بھی ہوئے ہیں۔ لیکن اب تک اس بارے میں کوئی تحقیقات
ہیں نہ ہی اہل امیدواروں کی ملازمت کا کوئی فیصلہ ہوا ہے۔ اساتذہ اپنی
تنخواہوں سے بھی محروم ہیں۔ ان کے احتجاج بھی بے اثر ہیں۔ |