حضرت عبیداللہ بن مسعود رضی اللہ
تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہم سے ارشاد
فرمایا:”نوجوانوں! تم میں سے جو شخص نکاح کی ذمے داریاں ادا کرسکتا ہو، اسے
چاہیے کہ وہ شادی کرے، اس سے نگاہ قابو میں آجاتی ہے اور آدمی پاک دامن
ہوجاتا ہے۔ ہاں جو شخص (نکاح) کی ذمے داریوں کو ادا کرنے کی استطاعت نہ
رکھتا ہو، وہ روزے رکھے، کیوں کہ (روزہ) اس کے شہوانی جذبات کو کم کر دے گا۔
”بیوی کی ضروریات زندگی مثلاً لباس، خوراک، مکان اور روزمرہ کے دیگر
اخراجات کی کفالت شوہر کے ذمے ہے۔ جو شخص اس کی استطاعت رکھتا ہو، اسے
چاہیے کہ وہ لازمی طور پر شادی کرے۔ شادی کرنے سے نگاہیں ادھر ادھر بھٹکنے
سے بچ جاتی ہیں۔ جائز ذریعے سے تسکین انسان کو ہر طرح سے محفوظ کرلیتی ہے۔
غیر شادی شدہ آدمی ہر وقت شیطان کے نرغے میں رہتا ہے۔ جو شخص ازدواجی زندگی
کی ذمے داریوں سے عہدہ برا ہونے کی استطاعت نہ رکھتا ہو، وہ مسلسل روزے رکھ
کر اپنے شہوانی جذبات کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش کرے۔ روزہ رکھنے سے ایک فائدہ
تو اسے یہ ہوگا کہ اس کی روح مادی کثافتوں سے نجات حاصل کرتی رہے گی۔ دوسرے
یہ سب سے اللہ تبارک وتعالیٰ کی قربت حاصل کرنے کا زیادہ مؤثر طریقہ ہے۔ اس
سے انسان میں ضبط نفس کی صفت پیدا ہوجاتی ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت عثمان بن مظعون رضی اللہ تعالیٰ
عنہ کو بلا بھیجا۔ وہ حاضر ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے
فرمایا:”کیا تو میرے طریقے سے اعتراض کرتا ہے؟” انہوں نے عرض کیا:”( نہیں)
اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم گواہ ہے کہ میں آپ صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم کے طریقے سے اعتراض نہیں کرتا، بلکہ میں تو آپ صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم ہی کے طریقے کی تلاش میں ہوں۔” نبی رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
نے فرمایا:”(میرا طریقہ تو یہ ہے کہ میں رات کے ایک حصے میں سوتا ہوں اور
اس کے ایک حصے میں (نماز) پڑھتاہوں۔ میں روزے رکھتا ہوں اور نہیں بھی رکھتا۔
میں عورتوں سے نکاح کرتا ہوں۔ اے عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ! تو خدا سے ڈر
اور اپنے مہمان، اپنی بیوی اور پنے نفس کی حق تلفی نہ کر۔ تیرے بال بچوں کا
تجھ پر حق ہے۔ تیرے مہمان کا تجھ پر حق ہے اور تیرے جسم کا تجھ پر حق ہے۔
پس تو روزے رکھ اور افطار کر، رات کو نفل نماز پڑھ اور ابھی جا! ” دراصل
حضرت عثمان بن مظعون رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا تھا کہ میں بالکل عورتوں سے
واسطہ نہیں رکھوں گا۔ راتوں کو جاگ کر ساری رات نماز پڑھوں گا اور ہمیشہ
روزے رکھوں گا، ایک دن بھی افطار نہیں کروں گا۔ یہ بات جب سرور کائنات صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم کے علم میں آئی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے
عثمان بن مظعون کو بلوا کر ان سے یہ بات چیت کی تھی۔
استطاعت کے باوجود نکاح نہ کرنا نیکی نہیں ہے۔ یہ ٹھیک نہیں ہے کہ آدمی
دنیا کے بازار سے بھاگ کر رات دن نماز روزے میں مشغول ہوجائے اور ازدواجی
زندگی کے قریب بھی نہ پھٹکے۔ وہ شخص جاہل ہے جو تقویٰ کی ترنگ میں آ کر
شادی نہیں کرتا اور اگر شادی کر لیتا ہے تو بیوی کے حقوق ادا نہیں کرتا۔
رات دن تبلیغ اور عبادت میں منہمک رہتا ہے اور اہل وعیال کی خبر گیری سے
غافل ہے۔ اس روایت کی رو سے بال بچوں، مہمانوں اور اپنے جسم کے حقوق ادا
کرنے کا نام تقویٰ ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد
فرمایا:”عورت سے چار چیزوں کی بنیاد پر نکاح کیا جاتا ہے:
(1) اس کی جائیداد کی وجہ سے۔
(2) اس کی حندانی شرافت۔
(3) اس کے حسن وجمال کے سبب۔
(4) اس کی دین داری کی بنیاد پر۔
جو لوگ مال و دولت کے لالچی ہیں، وہ مال دار عورت سے نکاح کر کے اپنی معاشی
پوزیشن کو مضبوط اور مستحکم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ بات بھی ان کے پیش
نظر ہوتی ہے کہ ان کی اولاد اپنی ماں کی جائیداد اور دولت کی وارث قرار
پائے گی۔ بعض لوگ عزت وجاہ کے حصول کے لیے بے چین رہتے ہیں معاشرے میں
نمایاں ہونے اور امتیازی مقام پانے کے لیے وہ مختلف حربے استعمال کرتے ہیں۔
جو شخص اس ذہن کے ساتھ سوچتا ہے کہ وہ اپنی جاہ پسندی کی تسکین کے لیے ایسی
لڑکی سے نکاح کرے جو شریف خاندان سے تعلق رکھتی ہو، اس میں کوئی اور صفت
پائی جاتی ہو یا نہ پائی جاتی ہو اسے اس سے کوئی غرض نہیں ہوتی پس اسے
چاہیے کہ جس لڑکی سے شادی کر رہا ہے اس کی فیملی معاشرے میں احترام کی نگاہ
سے دیکھی جاتی ہو۔ خاندانی شرافت کو نظر انداز کر کے صرف دین اور تقویٰ کی
بنیاد پر شادی کرنے کی مثالیں دور نبوت میں ملتی ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ
علیہ وآلہ وسلم نے اپنی بہن زینب بنت بخش کا نکاح اپنے غلام زید بن حارث سے
کیا۔ زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بیٹے اسامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شادی
بنی فہر کی لڑکی فاطمہ بنت قیس سے کردی۔ حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ
تعالیٰ عنہ جیسے تاجر اور قریشی کی بہن سے سیدنا بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ
ریاح نے نکاح کیا۔ اس سے یہ بھی اخذ کیا جاسکتا ہے کہ انسان کو اپنے تعلقات
دین دار اور خدا ترس لوگوں سے قائم کرنے چاہییں۔ فاسق و فاجر آدمی کی ہم
نشیبی غیر شغوری طورپر آہستہ آہستہ اچھے خاصے پرہیز گار کو بھی اس کے راسے
سے ہٹا دیتی ہے۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد پاک ہے:”جب تمہارے پاس وہ آدمی
نکاح کا پیغام لائے جس کے دین اور اخلاق کو تم پسند کرتے ہو تو اس سے اپنی
لڑکی کا نکاح کردو۔”
معیار زندگی پر نظر نہیں رکھنی چاہیے۔ اگر کسی دیانت دار، مصالح اور محنتی
لڑکے کی طرف سے شادی کا پیغام ملے تو اسے قبول کرلینا چاہیے۔ نکاح کے سلسلے
میں سب سے زیادہ اہمیت دین اور اخلاق کو دینی چاہیے۔ اسلام دین فطرت ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اسوہ حسنہ ہمارے لیے مشعل راہ ہے اور
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات طیبہ ہمارے لیے ایک روشن دیے کی مانند
ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بتائے ہوئے احکامات اور فرمودات کی وجہ
سے آج بھی تہذیب وتمدن کی اساس قائم ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے دین پر قائم
رہنے اور اس کی تعلیمات کے مطابق چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین)
|