زمانہ بچپن میں اپنے والد کی
انگلی پکڑے جب بھی مسجد جاتا تو راستہ میں پھٹے پرانے لباس میں سردی ہو یا
گرمی ننگے پاؤں جسم پہ من من میل کچیل لئے ایک لڑکا ملا کرتا والد صاحب حسب
توفیق اس کی مالی مدد کرتے تو میں دل ہی دل میں سوچتا کہ ابا جی مجھے تو
کہتے ہیں کہ صاف ستھرے رہو گے اور مسجد جایا کرو گے تو پیسے ملیں گے ورنہ
نہیں اور اسے میلے کچیلے کو ہی دے دیتے ہیں، آخر کیو؟ایک دن نہ رہا گیا تو
پوچھا کہ ابا جی آپ ہر روز اس میلے کچیلے کو ہی کیوں پیسے دیتے ہیں دیکھو
میں کتنا صاف ستھرا رہتا ہوں اس کے حصے کے بھی مجھے دے دیاکرو نا ،ابا جی
بولے کہ بیٹا یہ یتیم ہے اور بھوکا رہتا ہے پیسے اس لئے اسے دیتا ہوں تا کہ
یہ کچھ کھا پی سکے ،پوچھا یتیم کیا ہوتا ہے جواب ملا کہ اس کا باپ اب اس
دنیا میں نہیں رہا ،خیر وقت گزرتا رہا ایک دن ہوا کہ والد صاحب مجھے سکول
چھوڑ آئے ،اس کے بعد مجھے لانے اورلے جانے کی ذمہ داری بھائی نے سنبھال لی
ایک دن بھائی گھر نہ تھے اس لئے مجھے ابا جی کو ساتھ لے جانا پڑا اس دن بھی
وہ لڑکا راستے میں ہی کھڑا تھا مگر میں سکول سے لیٹ ہو رہا تھا شاید اس لئے
ابا جی نہ رُکے ، جب اگلے دن وہاں سے گزرا تو وہ لڑکاوہاں موجود نہ پایا
اور نہ ہی اس کے بعد کبھی کہیں نظر آیا خیر وقت گزرتا گیا جب میں آٹھویں
جماعت میں داخل ہوا تو وہاں میں نے ٹیبل ٹینس گیم میں حصہ لینا شروع کر دیا
، یہ گیم کھیلنے کے تمام تر انتظامات سکول کی بلڈنگ کی چھت پر تھے ایک دن
ہم سکول لیول پرہونے والے مقابلہ جات کی تیاری کر رہے تھے کہ میں نے شارٹ
لگائی تو بال پھُدک کر چھت سے نیچے سکول کے پڑوس میں واقع ایک گھر میں
جاگری،ہم نے شرط رکھی تھی کہ جو بال پھینکے وہی اُٹھا کر لائے اس لئے یہ
بال مجھے ہی لاناپڑی میں اپنے گیم انچارج ٹیچر کو بتاکر اجازت لیتے ہوئے جب
اُس گھر میں گیا تو وہاں وہی لڑکا مذکور بھینسوں کا گوبر اُٹھا تا ہوا
دیکھا میں نے اس سے اپنی بال کا پوچھا تو کہنے لگا کہ چلو بھاگ جاؤیہاں
کوئی بال وال نہیں آئی یہ سنتے ہی مجھے غصہ تو بہت آیا مگر میں خاموشی سے
واپس آگیا اور اپنے انچارج کو بتایا تو اُس نے ہمیں ایک نئی بال دے دی خیر
وقت گزرتا گیا میں نے اپنی تعلیم مکمل کی اور ایک میڈیکل کالج جائن کر لیا
اورساتھ آگے پڑھنے کا سلسلہ بھی جاری رکھا اسی ہی دوران ایک مقامی اخبار
کیلئے میں نے رپورٹنگ کا بھی باقائدہ طور آغاز کر لیا یہ جنون تو شروع سے
ہی تھا مگر باقائدگی اسے اپنانے کا کبھی نہیں سوچا تھا خیر اس شعبے میں
ایسا انٹر ہوا کہ اس سے وابستگی کو آج دس سال ہونے کے قریب ہیں میرے اس
دوران بہت سے نشیب و فراز آئے یہاں تک کہ لوگوں کو اصل حقائق سے آگاہ کرنے
کی کوشش میں میں موت کے منہ تک چلا گیاوہاں سے بچا توجھیلیں بھی دیکھنا
پڑیں اس دوران دل برداشتہ ہو کر کئی بار یہ شعبہ چھوڑنے کا بھی سوچا مگر اس
کے باوجود چھوڑ نہ پایا سچ تو یہ ہے کہ اتنی عمر نہیں جتنا کچھ دیکھنا پڑا
اب کالم نگاری میں مجھے ابھی تین سال ہوئے یہاں بھی مجھے دوسرے کالمسٹوں کی
طرح گول مٹول باتیں لکھنا نہیں آتیں کیونکہ شروع سے ہی میری ایک عادت ہے کہ
جو کہنا ہے یا لکھنا ہے وہ سیدھا سیدھا کہہ ڈالویا لکھا ڈالو اسی ہی لئے
میرے اکثر کالم اشاعت سے رہ جاتے ہیں اور یہ وہ کالم ہوتے ہیں جن میں میرے
قارئین کے سوالات کے جوابات زیادہ ہوتے ہیں کیونکہ جوابات دیتے وقت جوابات
میں پہیلیاں ڈالنے کی بجائے اپنے قارئین کو با آسانی سمجھانے کیلئے سیدھے
سیدھے مگر اداروں کی نظر میں کافی سخت الفاظ استعمال کر بیٹھتا ہوں ،او
معذرت چاہوں گا کہ بات تو یتیم مذکور کی ہو رہی تھی مگر نکل میری ذات کی
طرف گئی خیر کل جب میں ایک ویران سے علاقہ سے گزر رہا تھا کہ میں نے دور سے
دیکھا تو ایک چوراہے پر کچھ پویس وردیوں میں ملبوس لوگ آگ جلائے سینک رہے
تھے جوں ہی میں قریب پہنچا تو ان میں سے ایک نوجوان بھاگ کر سامنے آیا رکنے
کا شارہ کیا ،رکتے ہی دیگر لوگ بھی قریب آگئے میری عادت ہے کہ جلد میں اپنا
تعارف نہیں کرواتایہاں بھی میں نے ایسا ہی کیا ، تعارف کروانے کی بجائے
کاغذات دکھائے اتنے میں ایک اور جوان ٹپک پڑا یہ وہی جوان (یتیم )تھا
جومیرے زمانہ بچپن میں مسجد جاتے وقت راستے میں آیا کرتا تھا اور جس نے
سکول لائف میں میری بال ہضم کی تھی خیر بڑے اخلاق سے ملا اوراپنے ساتھیوں
کو خیر باد کہتے ہوئے مجھے اپنے گھر لے جانے کی زد کرنے لگا جان چھڑانے
کوشش تو بہت کی مگر باز نہ آیا تو مجبوراً جانا ہی پڑاگھر پہنچے تو بڑا
خوبصورت آشیانہ تھاجسے دیکھ کچھ دیر تو میں نے زبان پر قابو رکھا مگر نہ
رہا گیاتو پوچھ ہی لیا کہ یہ سب کہاں سے اور کیسے آیا جواب میں ایک مختصر
سا جواب ملا کہ یہ سب پولیس ڈیپارٹمنٹ نے دیا ہے میں نے پوچھا کہ پولیس
ڈیپارٹمنٹ میں کیسے آئے جواب ملا کہ بھینسوں کا گوبر اٹھاتے اُٹھاتے ایک
مشکوک بھیس عنایت ہوئی جسے بیچ کر کانسٹیبل بھرتی ہونے کی رشوت دی کانسٹیبل
بھرتی ہو کر مال کمایا اور یہ سب بنایا ،میں نے پوچھا کہ بھائی کانسٹیبل کی
تنخواہ تو صرف 12سے 15ہزار کے لگ بھگ ہوتی ہے جس سے گھر کا چولہا بھی پوری
طرح نہیں جلتا لہذا میں کچھ سمجھا نہیں جواب ملا کہ خان صاحب اس دور میں
حکومت اگر پولیس ڈیپارٹمنٹ کو ایک روپیہ بھی تنخوا ہ نہ دے تو بھی اچھی
خاصی گُزر بسر ہو سکتی ہے یہ سُنتے ہی میرے ساتھ موجود رپورٹر نے آہ بھرتے
ہوئے کہا کہ کاش میں بھی کانسٹیبل ہوتا ،رپورٹر کی اس بات پر کانسٹیبل نے
پوچھا کہ پہلے آپ کیا کر رہے ہیں جواب ملا خان صاحب کی خدمت کر رہا ہوں
جواب میں سوال کا رخ میری طرف ہوا کہ خان صاحب آپ آج کل کیا کر رہے ہیں ؟میں
نے کہا کہ صحافی بننے کی کوشش کر رہا ہوں مشورہ ملا کہ یہ کونسا کوئی مشکل
کام ہے کسی بھی اخبار کے آفس جاؤ دس پندرہ ہزار روپیہ دو اور پریس کارڈ لے
آؤ ،پھر کہتا خیر چھوڑو اس بات کو اور سناؤ بابا جی اور بھابی بچے کیسے
ہیں؟میں نے کہا کہ جب بھابی والے بنو گے تب یہ پوچھنا ابھی تو سنگل ہوں اور
بابا جی بالکل فِٹ ہیں،اتنے میں چائے آگئی اور چائے پیتے ہی ہم چلتے بنے ،مگر
یہ سوال ابھی تک جہاں میرے ذہن میں کھٹک رہا ہے وہاں آپ کو بھی بے چین کر
رہا ہوگا کہ تنخواہ کے بغیر گزر بسر ہو سکتی ہے اور علاوہ اس کے اُن کا
ذریعہ آمدن کیا ہو سکتا ہے ؟ اس سوال سمیت بہت سے سوالات کے جوابات اگلے
کالم میں دوں گا کیونکہ تحریر پہلے ہی کافی لمبی ہو چکی ہے تب تک کیلئے
خُدا حافظ اپنا اور اپنے اہل و عیال کا بہت بہت خیال رکھیئے گا اور ساتھ
دعاؤ ں میں مجھے بھی یاد رکھئے گا (فی ایمان ِﷲ) ۔ |