نیاسال: یہ جشن کی گھڑی نہیں بلکہ احتساب خودی کاوقت ہے

باسمہ تعالیٰ

لیجئے!کیلنڈرنے ایک صفحہ اورپلٹ دیا،۲۰۱۳ء ہم سے رخصت ہوااور۲۰۱۴ء کاسورج طلوع ہوااوراس کے ساتھ ہی ہماری زندگی سے ایک سال اورکم ہوگیا۔قدرت کانظام یہی ہے جوآیاہے اسے جاناہے چاہے وہ انسان ہویاوقت،اوریہ بھی حقیقت ہے کہ جس طرح وقت اپنی رفتارسے گذرتاچلاجارہاہے اسی وقت کے ساتھ ساتھ انسان کی زندگی سے اس کادن اورسال بھی کم ہوتاجارہاہے،لیکن حیف صدحیف!کہ بجائے اس کے کہ انسان اس وقت کے گذرنے پراپنے اعمال کامحاسبہ کرے وہ جشن اورمستی میں ڈوب جاتاہے،وہ اس طرح سے خوشیاں مناتاہے کہ گویااس کی زندگی سے وہ سال کم نہیں ہوابلکہ اس کی زندگی میں ایک سال کااضافہ ہوگیاہے۔حیرت ہے ایسے انسانوں پرجووقت کے گذرنے پراپنے اعمال کامحاسبہ کرنے کے بجائے جشن سال نوکااہتمام کرتاہے اورہزاروں لاکھوں روپے اس جشن میں بربادکردیتاہے،وہ جس سال نوکی آمدپرجشن کااہتمام کرتاہے درحقیقت وہ بیوقوف انسان اپنی زندگی سے ایک سال کم ہونے کاماتم کرتارہتاہے جسے وہ اپنی خوش فہمی کی وجہ سے جشن کانام دے دیتاہے۔

وقت جوگذرگیاوہ اب آنے والانہیں،وقت اﷲ کی بے شمارنعمتوں میں سے ایک عظیم ترین نعمت ہے،لیکن ہم نے اپنی غفلتوں کی وجہ سے اس نعمت کاصحیح اداراک نہیں کیا،وقت کی اسی اہمیت کے پیش نظراﷲ نے قرآن کریم میں مستقل ایک سورت نازل کی جسے ہم اورآپ سورۃ العصرکے نام سے جانتے ہیں،ہم اپنی نمازوں میں ہم اپنی تلاوتوں میں اس سورۃ کو بار بارپڑھتے ہیں لیکن کبھی ہم نے اس کے مفہوم کوسمجھنے کی کوشش نہیں کی،کبھی ہم نے اس کے مطالب پرغورکرنے کی کوشش نہیں کی کہ سورۃ العصراپنے اندرکتنی جامعیت اورمعنویت رکھتاہے۔ امام شافعیؒ نے اس سورۃ کی اہمیت بیان کرتے ہوئے فرمایاکہ: اگرلوگ صرف اسی سورت میں تدبرکرلیتے تویہی ان کے لیے کافی تھی۔(ابن کثیربحوالہ معارف القرآن)اسی طرح سورہ عصر کی فضیلت بیان کرتے ہوئے حضرت عبداﷲ بن حصن رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے صحابہ میں سے دوشخص ایسے تھے کہ جب وہ آپس میں ملتے تھے تواس وقت تک جدانہ ہوتے جب تک ان میں سے ایک دوسرے کے سامنے سورہ والعصرنہ پڑھ لے۔ (رواہ الطبرانی بحوالہ معارف القرآن۸؍۸۱۱)اس سورت میں اﷲ تبارک وتعالیٰ نے وقت کی اہمیت کو بیان کرتے ہوئے واضح کردیاہے کہ صرف وہی لوگ فائدے میں ہیں جنہوں نے اپنی زندگی میں کچھ نیک کام کرلیا،کچھ ایساکام جوآخرت میں ان کے لیے ذخیرہ بن جائے اس کے علاوہ سب کے سب خسارے میں ہیں،ذراغورکریں اپنی زندگیوں پرکہ ایک طرف توہم اپنی زندگی لہوولعب میں گذاردیتے ہیں،وقت جوکہ اﷲ کی جانب سے عطاکی ہوئی نعمتوں میں سے عظیم نعمت ہے اس کواپنے ہی ہاتھوں ضائع کرتے رہتے ہیں اوران سب کے باوجودجب ہماری زندگی سے ایک صفحہ کم ہوجاتاہے توہم بجائے اس کے کہ ہم اپنی زندگی کامحاسبہ کریں اوریہ جاننے کی کوشش کریں کہ یہ سال جوہم سے گذرگیااسے ہم نے کس طرح استعمال کیا،کیاان سالوں میں گذارے ہوئے وہ دن اورقیمتی لمحات جو ہماری زندگی سے روزبرف کی مانندکم ہوتے جارہے ہیں ہم نے کوئی ایساکام کیاجوہمارے لیے ذخیرۂ آخرت ثابت ہوسکے، اگرنہیں! توپھرہم نے اپنے آپ کوضائع کردیا،ملاحظہ فرمائیں مذکورہ سورت کی تشریح کرتے ہوئے مفسرقرآن علامہ شبیراحمدعثمانی نے کس طرح انسان کے نقصان میں ہونے کوکتنے اچھے اندازمیں بیان کیاہے کہ:اس سے بڑھ کر ٹوٹا کیا ہوگا کہ برف بیچنے والے دوکاندارکی طرح اس کی تجارت کاراس المال جسے عمرعزیزکہتے ہیں دم بدم کم ہوتاجارہاہے۔اگراس رواروی میں کوئی ایساکام نہ کرلیاجس سے یہ عمررفتہ ٹھکانے لگ جائے،بلکہ ایک ابدی اورغیرفانی متاع بن کرہمیشہ کے لیے کارآمدبن جائے تو پھرخسارہ کی کوئی انتہانہیں۔زمانہ کی تاریخ پڑھ جاؤاورخوداپنی زندگی کے واقعات پرغورکروتوادنیٰ غور و فکر سے ثابت ہوجائے گا کہ جن لوگوں نے انجام بینی سے کام نہ لیااورمستقبل سے بے پروا ہوکر محض خالی لذتوں میں وقت گذاردیاوہ آخرکس طرح ناکام ونامرادبلکہ تباہ وبربادہوکررہے۔

اوروقت کی اہمیت کیوں نہ ہو کیوں کہ انسان کی نیکیاں اور برائیاں اور ثواب عذاب سب کا تعلق وقت کے صحیح اور غلط استعمال سے ہے ، رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: کہ قیامت کے دن جب تک لوگ پانچ باتوں کا جواب نہیں دے دیں گے ان کو آگے قدم بڑھانے کی اجازت نہیں ہوگی ۔ ایک یہ کہ انہوں نے اپنی عمر کس کام میں بسر کی :’’عن عمرہ فیما افناہ ‘‘دوسرے اپنی جوانی کس کام میں صرف کی : ’’عن شبابہ فیما ابلاہ ‘‘ تیسرے مال کس ذریعہ سے کمایا ، اور چوتھے کس راہ میں خرچ کیا ،اور پانچویں یہ کہ اس نے جو کچھ سیکھا اس پر کتنا عمل کیا ؟ (ترمذی :۶۷/۲)اس سے معلوم ہوا کہ آخرت کا سودا اصل میں وقت ہی کے حساب وکتاب سے متعلق ہے ، اور دنیا میں تو ہر شخص دن ورات اس کا تجربہ کرتا ہے ، کہ وقت کی ناقدری انسان کو کس قدر نقصان پہنچاتی ہے ۔ اور وقت کی قدردانی اسے کس قدر نیک نام وبامراد کرتی ہے ، اسی لیے اردو کے ایک شاعر نے خوب کہا ہے :لمحہ گذر گیا تو سمجھئے صدی گئی ۔
وقت جوگذرگیاوہ ہمیں بہت کچھ سکھاکرگیا،وقت جس کاہم نے صحیح استعمال کرلیاوہ توہمارے کام آگیااورہم اس وقت کواستعمال کرنے میں کامیاب ہوگئے،لیکن جووقت ہمارے ہاتھوں سے خالی چلاگیااورہم نے اس وقت میں کچھ حاصل نہیں کیاوہ ہمیں بہت کچھ سکھاکرچلاگیااورمستقبل کے لیے ایک سبق دے گیا،ابھی ہم جس وقت میں کھڑے ہیں یہ ہمارے لیے اپنے گذرے ہوئے لمحات کی روشنی میں مستقبل کالائحۂ عمل طے کرنے کاوقت ہے،ہمیں اپنے گذرے ہوئے اوقات کوسامنے رکھ کراپنی زندگی کامحاسبہ کرنا چاہیے، اور پھراس کی روشنی میں مستقبل کالائحۂ عمل طے کرناچاہیے،ہمیں ماضی کااحتساب کرتے ہوئے آئندہ کاپروگرام طے کرناہوگا،یہ محاسبہ ہمیں ہرپہلوسے کرناہوگا،ہمیں اپنے دنیاوی امورکے بارے میں بھی محاسبہ کرناچاہیے کہ اگرہم تاجرہیں توہم نے ان سالوں میں کیاکھویاکیاپایا؟اگرہم نوکرپیشہ ہیں توہم نے اپنی نوکری میں کوئی ترقی کی یا نہیں؟ اگر ہمیں ان میں ناکامی کامنہ دیکھناپڑاتواس کے کیااسباب ہیں؟ان اسباب پرغوروفکرکرنے کے بعدہم اپناپروگرام تیارکریں کہ آئندہ ان پہلوؤں سے بچ کررہناہوگاجس کی وجہ سے ہم ناکام ہوئے۔انسان کا کسی چیز میں ناکام ہونا برانہیں ہے،بر ی بات یہ ہے کہ انسان بے حسی میں مبتلا ہوجائے۔ وہ ناکام ہو اور اپنی ناکامی کے اسباب پر غور نہ کرے اس کے قدم پیچھے ہٹیں ، اور فکر مندی کی کوئی چنگاری اس کے دل ودماغ میں سلگنے نہ پائے ، وہ ٹھوکر کھائے ، لیکن ٹھوکر اس کے لیے مہمیز نہ بنے ۔جو شخص اپنے نقصان کا جائزہ لیتا ہے ، اپنی کتاب زندگی پر نظرڈالتے ہوئے ، اپنی کمیوں اورکوتاہیوں کو محسوس کرتا ہے ، وہی گرکر اٹھتا اور اپنی منزل کی طرف رواں دواں ہوتا ہے ۔ جس میں اپنے احتساب اور اپنی کمزوریوں کے اعتراف کی صلاحیت ہی نہ ہو وہ کبھی اپنی منزل کو نہیں پاسکتا ۔

جس طرح دنیاوی امورمیں محاسبہ ـضروری ہے اس سے کہیں زیادہ ضروری ہے کہ انسان اپنے دینی امورکے بارے میں محاسبہ کرے،انسان یہ غورکرے کہ اس کے دین واخلاق،اعمال وکردارمیں کہیں کوئی کمی تونہیں آئی ہے،عبادات میں کوئی کوتاہی تونہیں رہ گئی،اپنے معاملات پرغورکرے کہ حلال وحرام اورمستحبات ومکروہات کے جواحکام شریعت نے دیے ہیں ان سب میں کہیں کوئی غفلت یالاپرواہی تونہیں برت رہاہے کہ اپنے کھانے اورکمانے میں حلال وحرام کی تمیزنہ کرپارہو،اپنے والدین اورقریبی رشتہ داروں کے حقوق میں کوئی کمی تونہیں کررہاہے،اپنی اولاداوربیوی کے جوفرائض وحقوق ہیں وہ سب برابرسے اداکررہاہے یانہیں؟اگرکہیں کوئی کمی یاکوتاہی ملے تواس کے اسباب پرغوروفکرکرتے ہوئے اس کمی کودورکرنے کی کوشش کرے۔غرض کہ انسان کوہرلحظہ اپنامحاسبہ کرناچاہیے۔، اسی لیے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اس سے پہلے کہ تمہارا حساب کیا جائے ، خود اپنا حساب کرو : ’’حاسبوا انفسکم قبل ان تحاسبوا ‘‘ ۔ (کنز العمال :۴۴۰۳)انسان کوغورکرناچاہیے کہ وقت کے ساتھ ساتھ اس کی عمرمثل برف پگھلتی جارہی ہے،ہردم اپنے اعمال کامحاسبہ کرتارہے اوراس کی روشنی میں اپنی آئندہ کی زندگی کالائحۂ عمل تیارکرے۔ ہورہی ہے عمر مثل برف کم…… دن بدن ، لمحہ بہ لمحہ دم بہ دم لوگ سال نوکی خوشیاں مناتے ہیں ، لیکن غور کیجئے تو یہ موقع خوشی سے زیادہ غم کا ہے ، یہ ساعتِ چشن ومسرت نہیں بلکہ لمحہ عبرت وموعظت ہے ،کیوں کہ سال کے گزرنے سے عمر بڑھتی نہیں ہے ، بل کہ عرصہ حیات تنگ ہوجاتا ہے ، اور مقررہ عمر میں کمی ہوجاتی ہے ، اس لیے سال نو کی آمد غفلت شعار طبیعتوں کے لیے صور انتباہ ہے ، اور سونے والوں کے لیے بیداری کا الارم ہے ، نہ کہ سر مستی وعیش کوشی کا پیغام یہ وقت ہے کہ ایک مومن کی پیشانی خدا کی چوکھٹ پر خم ہو ، کہ تونے میرے بہت سے ہم عمروں کو اٹھالیا ، مجھے اپنی مہلت سے سرفراز کیا ہے ۔ اس لیے تیرے دربار میں شکرو امتنان کے جذبات پیش کرتا ہوں ، یہ وقت ہے خدا کے حضور التجا والحاح کے ہاتھ اٹھائیں ، کہ خدایا ! میرے مستقبل کو میرے ماضی سے بہتر فرما میری نامرادیوں کو میری کامیابیوں سے اور میری پستیوں کو بلندیوں سے بدل دے ، خاص کر مسلمان اس وقت پورے عالم میں خدا سے غفلت شعاری اور دنیا اور متاع دنیا کی محبت کی جو سزا پارہے ہیں ، اس پس منظر میں پوری امت کو عالم اسلام اور مقامات مقدسہ کی حفاظت کی دعاکرنی چاہیے ۔قضیہ بابری مسجدکے تصفیہ کے لیے بھی دعا کریں جوکہ ہندی مسلمانوں کے لیے کسی تازیانۂ عبرت سے کم نہیں ہے۔اگرآپ کے دل کے کسی گوشہ میں بھی جشن سال نومنانے کاارادہ ہوتواس سے قبل کم ازکم ایک بار مظفرنگر فسادزدگان بے بس اورپریشان حال مسلمانوں کی حالت زارپرضرورغورکرلیں،پھراس کے بعدبھی اگرآپ کادل چاہے توآپ شوق سے جشن سال نومنائیں۔اﷲ ہم مسلمانوں کوجشن سال نوجیسی خرافات اورلہوولعب سے محفوظ رکھے۔آمین
Ghufran Sajid Qasmi
About the Author: Ghufran Sajid Qasmi Read More Articles by Ghufran Sajid Qasmi: 61 Articles with 50668 views I am Ghufran Sajid Qasmi from Madhubani Bihar, India and I am freelance Journalist, writing on various topic of Society, Culture and Politics... View More