سال دو ہزار تیرہ کے اہم واقعات
پر اگر ایک نظر ڈالی جائے تو ان میں کینیا کے ایک شاپنگ مال میں ہونے والا
حملہ، بوسٹن میراتھون کے دوران بم دھماکے، شام کا کیمیکل حملہ، مصر میں
مرسی جمہوری حکومت کا خاتمہ ، مصر میں اخون المسلمون پر حکومتی جبر اور
ہزاروں افراد کا قتل اور مظاہروں کا سلسلہ۔ یوکرین میں مظاہروں کے علاوہ
ٹائیفون ہیان اور جنوبی افریقہ کے سابق صدر نیلسن منڈیلا کی موت سمیت متعدد
واقعات شامل ہیں جو رواں سال پیش آئے ۔ایشیا میں سال 2013ء کے اہم واقعات
میں بنگلہ دیش میں ملا عبدالاقادر کی پھانسی ، حسینہ واجد کوداخلی سیاسی
بحران سامنا شامل ہے۔ بنگلہ دیش میں اس سال کے آغاز سے ہی سکیورٹی فورسز
اور مظاہرین کے درمیان پْر تشدد جھڑپوں کے واقعات تواتْر سے پیش آتے رہے،
جن میں دسمبر تک دو سو سے کہیں زیادہ افراد مارے گئے۔ بنگلہ دیش میں مجوزہ
نئے پارلیمانی انتخابات اور جماعت اسلامی کے کئی سابقہ ارکان کو سنائی جانے
والی موت کی سزاؤں کو ان احتجاجی مظاہروں میں مرکزی اہمیت حاصل رہی۔اس سال
پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ایک حکومت نے اپنی پانچ سالہ مدت پوری کی
اور نئے انتخابات کے نتیجے میں پاکستان مسلم لیگ برسرِ اقتدار آئی، شمالی
کوریا نے تیسرا ایٹمی تجربہ کیا ۔
بین الاقوامی اہمیت کے حامل واقعات و حالات کا جائزہ لیا جائے تو ان میں
میرے نزدیک سب سے اہم واقعہ 84 سال کی ان تھک جدوجہد کے نتیجے میں مصر میں
اخوان کا برسراقتدار اور اس حکومت کا یک سال کے عرصے میں خاتمہ ایسا واقعہ
ہے۔ جس نے نے مشرق وسطیٰ کی سیاست میں ایک بھونچال پیدا کر دیا ہے۔ اْدھر
کویت اور بحرین میں ملوکیت کے خلاف عوامی جدوجہد روز بروز زور پکڑتی جا رہی
ہے۔ کویت میں عوام نے امیر کے نئے انتخابی ضابطے کے خلاف پر امن احتجاج
جاری رکھا۔
لاطینی امریکہ کی تیل سے مالا مال ریاست وینز ویلا کے صدارتی انتخاب میں
بطل حریت استعمار شکن قائد ہیوگو شاویز Hugo Chavez نے ایک بار پھر امریکہ
کی حمایت یافتہ متحدہ حزب اختلاف کے صدارتی امید وار کو شکست فاش دے کر
امریکی استعمار پر ایک اور ضرب کاری لگائی۔ دوسری جانب امریکہ کی جانب سے
دہشت گردی کے خلاف نام نہاد مہم کے نام پر افغانستان، عراق، پاکستان، مالی،
یمن صومالیہ وغیرہ پر انتہا پسندی کا الزام عائد کر کے ان کی بستیوں پر
ڈرون حملے جاری رہے۔ جس میں معصوم شہری ہلاک ہو رہے ۔ اس سال کی خاص بات
امریکہ اور ایران کی صلح ہے۔ جس کے خطے پر دیر پا اثرات مرتب ہوں گے۔
پاکستان بھارت سے دوستی کے لیے جتنا مشتاق ہے، بھارت اس سے اتنا ہی بیزار
ہے۔ بھارت کو خوش کرنے کے لیے حکمرانوں اور منافع خور تاجروں نے کیا کیا
جتن نہ کیے۔ اسے پسندیدہ ترین ریاست قرار دینے کی پیشکش کے ساتھ تجارت اور
سرمایہ کاری کی دعوت عام دے ڈالی جبکہ ایک میڈیا نے پریم سبھا اور امن آشا
کے ذریعے بھارت کی جنتا کو رام کرنے کی بڑی کوشش کی لیکن اس کے جواب میں
بھارت کی حکومت سرکریک اور سیاچن جیسے فروعی تنازعات پر بھی کوئی لچک نہیں
دکھاتی اور الٹا پاکستان پر دہشت گردی کا الزام لگاتی ہے ۔پاکستان میں نئے
سال کا آغاز دہشت گردی کی ایک لہر سے ہوا، جس میں کوئیٹہ میں بم دھماکے
ہوئے ۔ اس دہشت گردی کے واقعات میں دو سو سے زائد افراد ہلاک ہوئے۔
پاکستانی سیاست کو ایک دھچکہ اس وقت لگا جب ملکی سیاست کے ایک اہم اور فعال
رہنما اور سابق امیر جماعت اسلامی پاکستان قاضی حسین احمد چھ جنوری کو
انتقال کر گئے۔ قاضی حسین احمد (پدائش:12 جنوری 1938ء ، وفات: 6 جنوری
2013ء ) ممتاز عالم اور سیاستدان تھے جنہوں نے جماعت اسلامی کے امیر کے طور
پر شہرت پائی۔ آپ کے دور میں جماعت سیاسی طور پر زیادہ عوامی مقبولیت کی
طرف مائل ہوئی۔ آپ کی زیر صدارتانیس اٹھاسی کے انتخابات میں جماعت کا یہ
نعرہ ظالمو ڈرو، قاضی آ رہا ہے مقبول ہوا۔ وہ جماعت اسلامی کے سابق امیر۔
مذہبی جماعتوں کے اتحادمتحدہ مجلس عمل کے آخری سربراہ تھے۔ قاضی حسین احمد
1938 ء میں ضلع نوشہرہ (صوبہ سرحد) کے گاؤں زیارت کاکا صاحب میں پیدا ہوئے۔
والد مولانا قاضی محمد عبدالرب صاحب ایک ممتازعالم دین تھے اوراپنے علمی
رسوخ اور سیا سی بصیرت کے باعث جمعیت علمائے ہند صوبہ سرحد کے صدرچْنے گئے
تھے۔قاضی صاحب نے اسلامیہ کالج پشاور سے گریجویشن کے بعد پشاور یونیورسٹی
سے جغرافیہ میں ایم ایس سی کی۔ بعد ازتعلیم جہانزیب کالج سیدو شریف میں
بحیثیت لیکچرارتعیناتی ہوئی اور وہاں تین برس تک پڑھاتے رہے۔ جماعتی
سرگرمیوں اور اپنے فطری رحجان کے باعث ملازمت جاری نہ رکھ سکے اور پشاور
میں اپنا کاروبار شروع کردیا۔ جہاں سرحد چیمبرآف کامرس اینڈ انڈسٹری کے
نائب صدر منتخب ہوئے۔دوران تعلیم اسلامی جمعیت طلبہ پاکستان میں شامل رہنے
کے بعد آپ 1970ء میں جماعت اسلامی کیرکن بنے،پھرجماعت اسلامی پشاورشہر اور
ضلع پشاورکے علاوہ صوبہ سرحد کی امارت کی ذمہ داری بھی ادا کی گئی۔ 1978ء
میں جماعت اسلامی پاکستان کے سیکرٹری جنرل بنے اور1987ء میں جماعت اسلامی
پاکستان امیر منتخب کر لیے گئے۔ تب سے اب تک چارمرتبہ (1999،1994، 1992،
2004) امیرمنتخب ہو ئے۔قاضی حسین احمد 1985ء میں چھ سال کے لیے سینیٹ آف
پاکستان کے ممبر منتخب ہوئے۔ 1992 ء میں وہ دوبارہ سینیٹرمنتخب ہوئے،تاہم
انہوں نے حکومتی پالیسیوں پر احتجاج کرتے ہوئے بعد ازاں سینٹ سے استعفٰی دے
دیا۔ 2002 ء کے عام انتخابات میں قاضی صاحب دو حلقوں سے قومی اسمبلی کیرکن
منتخب ہوئے۔ نورانی صاحب کی وفات کے بعد تمام مذہبی جماعتوں کے اتحاد ایم
ایم اے یعنی متحدہ مجلس عمل کے صدر منتخب ہوئے۔جولائی 2007ء میں لال مسجد
واقعے کے بعد اسمبلی سے استعفیٰ دینے کا اعلان کر دیا3 نومبر کے تاخت کے
بعد آپ کو اپنے گھر میں نظربند کر دیا گیا۔ 14 نومبر کو عمران خان کو پولیس
کے حوالے کرنے کا واقعہ ہؤا۔[2] دو ہی روز بعد حکومت نے قاضی صاحب اور
جماعت اسلامی کے بڑوں کی نظربندی ختم کر دی۔ قاضی حسین احمد 6 جنوری 2013ء
کو دل کے عارضہ سے اسلام آباد میں انتقال کر گئے اور یوں پاکستانی سیاست کا
ایک اہم باب بند ہوگیا۔اس سال کے آغاز میں لاہور میں توہین رسالت کے تنازع
پر ناخوشگوار واقعات پیش آئے جن میں مظاہرین نے توہین رسالت کے تنازع پر
نذر آتش پاکستانی عیسائیوں کے 100 سے زیادہ گھر جلا دیئے۔ مارچ میں پاکستان
میں انتخابات کا سلسلہ شروع ہوا۔
میر ہزار خان کھوسو کو 25 مارچ سے پاکستان کے نگران وزیر اعظم کے طور پر
مقرر کیا گیا ہے .جناب میر ہزار کھوسو نے مئی میں شیڈول کے مطابق عام
انتخابات کی نگرانی کی ۔ ملک کے عام انتخابات 11 مئی 2013 کو منعقد ہوئے۔
گیارہ مئی کے عام انتخابات اور خاص کر اس کے نتائج نے تقریباً تمام بڑی
سیاسی جماعتوں کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ کئی جماعتیں تو ایسی ہیں جن کا بالکل
ہی صفایا ہوگیا ہے۔ مثلاً، اے این پی۔ جبکہ، کچھ جماعتیں ایسی ہیں جنہیں
اپنے ہی سیاسی قلعوں میں سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا،مثلاً ایم کیو ایم
کو کراچی میں اور پیپلز پارٹی کو اندرون سندھ۔ ان انتخابات اور گزشتہ ادوار
کے انتخابات میں جو سب سے بڑا فرق نظر آیا وہ پاکستان تحریک انصاف کی دھواں
دار انٹری تھا ۔ جبکہ پنجاب اور خیبر پختونخوا میں گزشتہ کئی دہائیوں کے
روایتی نتائج پاش پاش ہو گئے۔ تحریک انصاف نے پنجاب کی دوسری اور خیبر
پختونخوا کی سب سے بڑی جماعت بن کر ایک جانب پیپلز پارٹی کو سندھ تک محدود
کردیا، تو وہیں مسلم لیگ ق اور عوامی نیشنل پارٹی بھی سیاسی نقشے سے دور
ہوگئی۔ گیارہ مئی کے انتخابات نے سب سے بڑے شہر کراچی کی منجمد سیاست کو
بھی جنجھوڑ کر رکھ دیا۔اگرچہ، شہر کے سیاسی پس منظر میں کوئی بڑی تبدیلی
نظر نہیں آئی، لیکن تین دہائیوں کے بعد بھرپور مقابلے کی فضا نظر آئی۔
جماعت اسلامی عین وقت پر انتخابات سے بائیکاٹ کر گئی۔ جس سے عوام کو مایوسی
ہوئی، جبکہ پی تی آئی کراچی میں یک نئی سیاسی قوت کے طور پر ابھر کر سامنے
آئی ۔ قومی اسمبلی کے حلقے این اے 245 نارتھ ناظم آباد سے پی ٹی آئی کے
امیدوار ریاض حیدر کو شکست کے باوجود 54 ہزار ووٹ ملے۔ این اے 246کی
صورتحال بھی اس سے مختلف نہیں تھی۔ یہاں پی ٹی آئی کے امیدوار امیر شرجیل
کو32ہزار اورین اے 243نارتھ کراچی اور نیوکراچی سے زاہد حسین کو تیس ہزار
ووٹ ملے۔اسی طرح، پی ٹی آئی کے راشد صدیقی نے لیاقت آباد میں قومی اسمبلی
کے حلقہ این اے-247 سے 35 ہزار سے زیادہ ووٹ حاصل کیے۔ جبکہ، محمود آباد کے
حلقہ این اے-251 سے پی ٹی آئی کے امیدوار راجہ اظہر کو تقریباً انتالیس
ہزار ووٹ پڑے۔کراچی کا حلقہ این اے 250 زیادہ تر پوش علاقوں پر مشتمل ہے۔
یہاں کے ووٹر کو چونکہ عام آدمی جیسے مسائل کا سامنا نہیں۔ لہذا، وہ ووٹ
ڈالنے کم ہی نکلتے ہیں۔ لیکن، اس بار کمال ہوگیا۔ اْن علاقوں میں بڑی تعداد
میں ووٹرز نہ صرف گھروں سے نکلے بلکہ انہوں نے کئی کئی گھنٹے لائنوں میں
کھڑے ہو کر اپنی باری کا انتظار کیا۔ اس کے باوجود، جو لوگ تاخیر سے پہنچنے
اور بے ضابطگی یا مبینہ طور پر دھاندلی کے سبب ووٹ کاسٹ نہ کر سکے، انہوں
نے اس کے خلاف سخت احتجاج کیا۔ اسی احتجاج کے سبب، الیکشن کمیشن نے 19مئی
کو یہاں دوبارہ پولنگ کے احکامات جاری کئے۔ جس کے نتیجے میں عارف علوی
تحریک انصاف کو کراچی سے ایک سیٹ دلانے میں کامیاب ہوگئے۔ تجزیہ نگاروں اور
سیاسی مبصرین کی رائے ہے کہ مسلم لیگ ن کے لئے انتخابات میں کامیابی کسی
بھی طرح پھولوں کی سیج ثابت نہیں ہوگی۔ حکومت کو لوڈ شیڈنگ، معاشی بدحالی،
مہنگائی اور بے روز گاری جیسے بہت سارے سنگین اور دیرینہ مسائل کا سامنا
ہے۔ پچیس مئی کو گجرات کے قصبہ کوٹ فتح کے قریب سکول وین میں آگ لگنے سے
خاتون ٹیچر اور 16 بچے زندہ جل گئے،تین زخمی بچوں کو سی ایم ایچ کھاریاں کے
برن یونٹ میں منتقل کر دیا گیا ہے، جاں بحق ہونے والے بچوں میں زندہ جل
جانے والی سکول ٹیچر کی تین بھتیجیاں اور ایک بھتیجا بھی شامل تھے۔ اِس
دردناک حادثے سے گجرات کے دیہات منگووال،راجیکی ، کنگ سیائی ، کنگ چنن اور
کنجاہ میں کہرام مچ گیا۔ وین بچوں کو لے کر منگووال کے ایک پرائیویٹ سکول
جا رہی تھی کہ گاڑی میں رکھا ہوا پٹرول لیک ہونے سے اِس میں اچانک آگ بھڑک
اٹھی ، بچے باہر نہ نکل سکے اور وین کے اندر ہی جل کر جاں بحق ہو گئے۔ صدر
وزیراعظم اور سیاسی رہنماوں کی طرف سے اِس واقعہ پر افسوس کا اظہار کیا گیا
ہے، نگران وزیراعلیٰ پنجاب نجم سیٹھی نے مرحوم بچوں کے لواحقین کے لئے پانچ
پانچ لاکھ روپے کی امداد کا اعلان کیا ہے۔ وین کا ڈرائیور موقع سے فرار
ہوگیا جسے بعد میں گرفتار کر لیا گیا۔ڈرائیورکے بیان کے مطابق وین نے آگ
اْس وقت پکڑی جب اْس نے انجن کو گیس سے پٹرول پر منتقل کرنے کے لئے سوئچ
لگایا۔ ایک اطلاع کے مطابق سکول سے تقریباً ڈیڑھ کلو میٹر کے فاصلے پربچوں
نے ڈرائیور سے کہا کہ انکل جلنے کی بو آ رہی ہے، لیکن ڈرائیور نے انہیں یہ
کہہ کر جھڑک دیا کہ چپ رہو ورنہ وین سے نیچے اْتار دوں گا۔ اِس افسوسناک
واقعہ کے بعدضلع گجرات کے تمام سکولوں میں سوگ میں تعطیل کر دی گئی۔ پنجاب
کے ڈائریکٹر ایجوکیشن نے تمام پرائیویٹ سکولوں کوہدا یات جاری کی ہیں کہ وہ
اپنے سکول سے بچوں کو لے جانے والی گاڑیوں کی فٹنس کو یقینی بنانے کے لئے
اقدامات کریں۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ ایسے واقعات اب بھی جاری ہیں۔ نواز
شریف 2013 کے عام انتخابات میں پاکستان مسلم لیگ (ن ) کی فتح کے بعد ،
پاکستان کے وزیر اعظم کے طور پر منتخب کیا جاتا ہے . شریف 5 جون کو وزیر
اعظم کے طور پر حلف لیا ۔ ممنون حسین 2013 کے صدارتی انتخابات میں صدر کے
طور پر منتخب کیا گیا تھا ، انہوں نے 9 ستمبر کو پاکستان کے 12th صدر کے
طور پر حلف اٹھا لیا ۔ پاکستان کے عوام نے 14 اگست کو اپنے ملک کی 67th یوم
آزادی منایا . مسلم رہنماؤں کی ایک بین الاقوامی کانفرینس 25-26 ستمبر کو
بین الاقوامی کانفرنس ، منصورہ لاہور میں ہوئی جس کی صدارات جماعت اسلامی
پاکستان کے امیر سید منور حسن نے کی۔اکتوبر کے آخر میں وزیر اعظم امریکی
صدر براک اوباما کے ساتھ ایک ملاقات کے لئے واشنگٹن ڈی سی کے لئے گئے۔ اس
دورے سے بہت سی توقعات تھی لیکن وہ پوری نہیں ہوسکیں۔ پاکستان میں طالبان
سے مزاکرات کی بیل بھی منڈھے نہ چڑھ سکی کیونکہ نومبر میں تحریک طالبان
پاکستان (ٹی ٹی پی ) کے حکیم اﷲ مسعود رہنما ایک ڈرون حملے میں موت سے
ہمکنار کر دیئے گئے۔ 2013 میں پاکستان کی سیاست میں دو ایم تبدیلیاں دو چیف
کی رٹائیرمنٹ تھی۔ جس میں چیف جسٹس پاکستان افتخار چوہدری اور چیف آف آرمی
اسٹاف جنرل پرویز اشفاق کیانی شامل ہیں۔ اس تبدیلی کے نتیجے میں جنرل راحیل
شریف نے پاک فوج کے 15ویں سربراہ کی حیثیت سے تقرری کے بعد گزشتہ روز جی
ایچ کیو راولپنڈی میں کمانڈ کی تبدیلی کی ایک پروقار تقریب میں پاک فوج کی
قیادت سنبھالی۔ ماضی میں فوجی سربراہوں کی ملکی معاملات میں عمل دخل کو مد
نظر رکھتے ہوئے جنرل اشفاق پرویز کیانی کی ریٹائر منٹ کی میعاد جوں جو ں
قریب آتی جا رہی تھی تو ں توں اس حوالے سے میڈیا کے ساتھ ساتھ عوامی حلقوں
میں بھی مختلف قیاس آرائیاں جاری تھیں۔ نئے آرمی چیف کے تقرر نے میاں نواز
شریف کے بر سر اقتدار آنے کے تناظر میں بھی نمایاں اہمیت اختیار کر لی تھی۔
لیکن یہ تبدیلی خوشگور انداز میں ہوئی۔ 12-12-13وہ تاریخ تھی۔جس کا بہت سے
لوگوں کو شدت سے انتظار تھا کیونکہ انہیں اندازہ ہے کہ اس تاریخ کو ملک کے
سب سے بڑے جج کی تبدیلی کے بعد معاملات میں تبدیلی آئے گی۔ یہ مرحلہ بھی
بحسن خوبی انجام پایا اور چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس تصدق حسین جیلانی نے ان
کے جانشین بن گئے۔ یہ سال کئی فنکاروں کی رخصتی کا سال بھی ہے۔ اْن فنکاروں
میں کی رخصت سے شوبزنس کی دنیا ہمیشہ ان کا خلا محسوس کرتی رہے گی۔ ان
فنکاروں میں مہناز بھی شامل ہیں۔مہناز پاکستان کی مایہ ناز پلے بیک سنگر
تھیں۔ رواں سال کے پہلے مہینے کے19ویں دن، جب مہناز علاج کی غرض سے امریکہ
جارہی تھیں، دورانِ سفر بحرین میں انتقال کر گئیں۔ اْن کی عمر 58سال تھی۔
انہوں نے 200 سے زائد فلمی اور تقریباً 1000 غیرفلمی گیتوں کو اپنی آواز سے
سجایا اور لوگوں کے دلوں میں اتارا مثلاً۔۔’’ مجھے دل سے نہ بھلانا‘‘،
’’میراپیار تیرے جیون کے سنگ رہے گا‘‘۔فلمی گلوکارہ زبیدہ خانم کسی تعارف
کی محتاج نہیں۔ انہوں نے 78برس کی عمر میں19اکتوبر کو وفات پائی۔ ان کا فنی
کیرئیر 1951ء میں فلم ’’بلو‘‘ سے شروع ہوا تھا۔ ان کے گیتوں کے بارے میں
اگر یہ کہا جائے کہ انہوں نے لاہور فلم انڈسٹری کو عروج بخشا تو قطعی غلط
نہ ہوگا۔ انہوں نے پنجابی اور اردو دونوں زبانوں میں گانے گائے۔ فلم ’’شہری
بابو‘‘، ’’باغی‘‘، ’’سولہ آنے‘‘ ،’’جٹی‘‘ اور ’’ شیخ چلی‘‘ کے گانے انہی کی
بدولت بام عروج تک پہنچے۔کلاسیکل سنگر ریشماں کو نئی نسل میں پذیرائی
بھارتی فلم ’’ہیرو‘‘ کے ایک گانے ’’لمبی جدائی‘‘ سے ملی۔ تاہم، اس میں کوئی
دو رائے نہیں کہ وہ شروع ہی سے ایک منفرد گائیکا کی حیثیت سے اپنی ایک الگ
پہچان رکھتی تھیں۔ انہیں ’’بلبل صحرا‘‘ کا لقب دیا گیا تھا۔ریشماں کے گائے
ہوئے گانوں میں سے کچھ گانوں کو تو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا مثلاً ’ہائے او
ربا نئیں لگدا دل میرا’، ’لمبی جدائی’، ’اکھیاں نوں رہن دے اکھیاں دے کول
کول‘ اور ’وے میں چوری چوری تیرے نال لائیاں اکھاں وے‘۔ حکومت پاکستان نے
انہیں ’ستارہ امیتاز‘ سے نوازا تھا۔ وہ کافی عرصے تک کینسر کے مرض میں
مبتلا رہیں اور 3نومبر2013ء کو 66سال کی عمر میں لاہور میں انتقال کر
گئیں۔ریاض الرحمن ساغر شاعر اور نغمہ نگار ہونے کے ساتھ ساتھ کہنہ مشق
صحافی بھی تھے۔انہوں نے یکم جون کو 72سال کی عمر میں لاہور انتقال کیا۔
فلمی دنیا اور گیت نگاری کے لیے ان کی خدمات کو کبھی فراموش نہیں کیا جا
سکے گا۔ وہ بھارتی پنجاب کے شہر بھٹنڈا میں 1941ء میں پیدا ہوئے۔ تاہم،
پاکستان بننے کے ساتھ ہی یہاں آبسے۔انہوں نے پاکستانی فلموں ’کبھی تو نظر
ملاو‘، ’چیف صاحب‘، ’سرگم‘، ’گھونگھٹ‘، ’انتہا‘، ’محبتاں سچیاں‘، ’سمجھوتہ
ایکسپریس‘ اور ’عشق خدا‘ ‘ کے لئے نغمے تراشے۔۔جبکہ’’ دوپٹہ تیرا ململ کا‘
اور ’’، یاد سجن دی آئی‘‘ جیسے نغمے بھی انہی کے ہیں۔ ان کے کئی گانوں کو
حدیقہ کیانی، عدنان سمیع، راحت فتح علی خان اور بھارتی پلے بیک سنگر آشا
بھوسلے نے اپنی آوازوں میں گایا ہے۔سنہ 80کی دہائی کا کون سا ایسا فرد ہوگا
جو قریش پور کے نام اور کام سے واقف نہ ہو۔ وہ پی ٹی وی کے شہرت آفاق شو
’کسوٹی‘ کے میزبان تھے۔ اس شو کی بدولت انہیں گھر گھر شہرت ملی۔ انہیں
5اگست کو موت کے فرشتے نے دیکھا اور اپنے ساتھ ہی اس جہاں سے لے جاکر
چھوڑا۔ مرحوم 1932ء میں پیدا ہوئے تھے۔وہ ذرائع ابلاغ کے ماہرتصور کئے جاتے
تھے۔ ٹیلی ویڑن کے ساتھ ساتھ انہوں نے ناول نگاری اور کالم نگاری میں بھی
اپنا لوہا منوایا۔انہوں نے 1972 ء میں پی ٹی وی سے باقاعدہ وابستگی اختیار
کی اور1992ء میں کنٹرولر پریزنٹیشن کی حیثیت سے ریٹائر ہوئے۔ پنجابی فلموں
کا ایک جانا پہچانا نام۔۔ آسیہ۔۔جنہوں نے اردو فلموں میں بھی اداکاری کے
جوہر دکھائے۔ وہ 9مارچ 2013 ء کو کینیڈا میں انتقال کرگئیں۔ وہ عمر کی
65بہاریں دیکھ چکی تھیں۔ خوب صورتی کے سبب انہیں فلم انڈسٹری میں ’پری
چہرہ‘ کہا جاتا تھا۔آسیہ کی کامیاب فلموں میں ہدایت کار شباب کیرانوی کی
انسان اور آدمی، دل اور دنیا، مولا جٹ، جیرا بلیڈ، یادیں، وعدہ، ایماندار،
غلام، میں بھی تو انسان ہوں، پازیب، پیار ہی پیار، سہرے کے پھول، جوگی، دل
اور دنیا، وحشی جٹ، خان اعظم، آخری میدان، جٹ دی کھڑاک، غنڈہ ایکٹ، جٹ دا
ویر، بھریا میلہ، چڑھدا سورج، نوکر وہٹی دا، حشر نشر، دو رنگیلے، شیر میدان
دا، شریف بدمعاش، لاہوری بدمعاش، تم سلامت رہو شامل ہیں۔اظہار ریڈیو، ٹی وی
اور اسٹیج کے معروف اداکار اور براڈ کاسٹر تھے۔وہ 30مارچ 2013 کو اس جہان
فانی سے رخصت ہوئے۔ منظور نیازی کا انتقال 9اپریل کو ہوا۔ وہ نعت، قوالی
اور صوفیانہ کلام گانے میں ملکہ رکھتے تھے۔ پاکستان کے ابتدائی دنوں میں
قائد اعظم محمد علی جناح نے انہوں ’بلبل دکن‘ کا خطاب دیا تھا۔ ’خواجہ کی
دیوانی‘ ان کی مشہور ترین قوالی ہے۔ انہوں نے اپنی خدمات کے عوض تمغہ
امتیاز بھی حاصل کیا۔ انتقال کے وقت ان کی عمر 93سال تھی۔صفیہ ریڈیو ، ٹی
وی اور اسٹیج پر اداکاری کا ایک معروف نام تھا۔ وہ رواں سال 25اپریل کواس
دنیا سے رخصت ہوئیں۔ انہوں نے 1976ء میں پاکستان ٹیلی ویڑن پشاور سینٹر سے
اپنے کیریئر کا آغاز کیا تھا۔ انہیں بھی کینسر کے مرض سے آگھیرا تھا اور
آخر کار وہ اس بیماری سے کبھی اپنا پیچھا نہ چھڑا سکی۔ریڈیو، ٹی وی، فلم
اور اسٹیج کے ہی ایک اور مزاحیہ اداکار نشیلا نے اسی سال 23جون کو دنیا سے
رخصت طلب کی۔ ان کا اصل نام شوکت علی تھا۔ انہیں پی ٹی وی کی معروف سیریل
’عینک والا جن‘ کے ایک کردار سے بے پناہ شہرت ملی۔اس کے علاوہ سال 2013ء
میں ہی 3اگست کو معروف صداکار حسن شہید مرزا، یکم ستمبر کو اداکار منظور
مگسی، 13ستمبر کو فلمی ہیرو انور حسین ،23ستمبر کو اداکار جہانگیر خان
اور28نومبر کو اداکار عابد بٹ کا انتقال ہوا۔
|