گزشتہ چند ہفتوں سے مضاربت و مشارکت اسکینڈل کو بڑے شدومد کے ساتھ
پیش کیاجارہا ہے ۔ اس قسم کے مالیاتی اسکینڈلز ماضی قریب میںبھی پیش آئے
ہیں تاہم اس دفعہ ہاجم طبقے نے ایک مختلف انداز میں غریبوں کو لوٹا
ہے۔طریقہ واردت کے لیے جن لوگوں کو استعمال کیا گیا ہے وہ مسجد و منبر سے
تعلق رکھتے ہیں تاہم یہ لوگ نیچلی سطح کے لوگ ہیں جو اس مکروہ دھندے میں
استعمال ہوئے ہیں۔اس حوالے سے میں نے کافی تحقیقی موادجمع کیا ہے جو وقت
آنے پر پیش کیا جائے گا ۔یہاں عام و خواص بالخصوص میڈیائی احباب مضاربت
اسکینڈل کی آڑ میں اکابر علماء اور مسجد ومحراب کے بزرگوں کو جس بری طریقے
سے طعن و تشنیع اور سب و شتم کا نشانہ بنارہے ہیں وہ بہت ہی ناعاقبت اندیشی
اور عدم معلومات پر مبنی ہے۔ اس حوالے سے حقائق سے صَرف نظر کرکے چند قسم
کے عامیانہ لوگوں کی آڑ میں اکابر علماء و بزرگان دین کو بدنام کرنا کسی
صورت مناسب نہیں۔آج کی نشست میں چند حقائق لیے آپ کی خدمت میں حاضر ہوں
تاکہ آپ پر یہ بات واضح ہوجائے کہ جس باتوں کا رونا آج رویا جارہا ہے انہی
باتوں کی نشاندہی پاکستان کے جید علماء کرام نے آج سے سال ڈیڑھ سال پہلے کی
تھی۔مضاربت کے اس مکروہ کاروبار کی نہ صرف نشاندہی کی تھی بلکہ طاقت کے
ساتھ اس کی مخالف بھی کی تھی اور سادہ لوح عوام سے اپیل کی تھی کہ حتی
الواسع ان سے احتراز کیا جائے۔دلائل اور حوالہ جات کا مختصر جائزہ لیتے ہیں۔
مجھے اکابر علماء کرام کی دوراندیشی اور دیدہ وری پر ایمان کی حد تک یقین
ہے۔ارباب اختیار اور دنیا کے لٹیرے اپنے ناجائز مقاصد کی تکمیل کے لیے ان
بوریہ نشیں علماء کو وقتا فوقتاکسی نہ کسی شکل میں استعما ل کرنے کے مختلف
اوچھے ہتھکنڈے اپناتے رہتے ہیں لیکن ان کے ہاتھ سواے سطحی قسم کے چند
مولویوں کے کو ئی نہیں آتا۔اکابر علماء بصیرت کی آنکھ سے ایسی چیزوں کو
سمجھتے ہیں اور'' اتقوامن موضع الشبہ'' کے مصداق نہ صرف اپنا دامن بچاتے
ہیں بلکہ طاقت اور دلیل کے ساتھ مخالفت بھی کرتے ہیں۔ مضاربت اسکینڈل میں
پورے ملک کی طرح گلگت بلتستان کے بھی غریب عوام بالخصوص دیندار طبقے کے
اربوں روپے ضائع ہوچکے ہیں۔ میری محتاط معلومات کے مطابق ضلع دیامر، ضلع
غذر اور ضلع گلگت کے ڈھائی ارب سے زیاد ہ رقم مضاربت اسکینڈل کے ذریعے ڈوب
گئی ہے۔
شیخ الحدیث مولانا سلیم اللہ خان صاحب صدر وفاق المدارس العربیہ پاکستان
اور جامعہ فاروقیہ کے بانی و وائس چانسلر اور شیخ الحدیث ہیں۔ حضرت نے ایک
سال قبل اس مکروہ دھندے کی سخت مخالف کی اور مختلف اخبارات و رسائل میں ایک
مکتوب شائع کروایا اور عوام الناس سے اپیل کی کہ وہ ان لٹیروں سے بچے۔ شیخ
الحدیث مولانا سلیم اللہ خان کے حکم پر علماء کرام کی ایک مجلس مذکراہ
بتاریخ 13-12-2012کومنعقد ہوئی جس میں مختلف کمپنیوں کے حوالے سے تفصیلی
جائزہ لیا گیا۔ جامعہ اشرفیہ لاہور،لاہور کا قدیم دینی ادارہ ہے جس میں
پانچ ہزار سے زائد طلبہ ہمہ وقت دینی علوم سے مستفیدہوتے ہیں۔جامعہ کے نائب
مہتمم جناب مولانا فضل الرحیم صاحب نے حضرت شیخ کے حکم کی تعمیل پرجامعہ
اشرفیہ لاہور میں، لاہور اور اس کے گرد و نواح کے تمام جید علماء کرام اور
مفتیان دین کو جمع کرکے ان مختلف کمپنیوں کے کاروبار کی اصلیت ، اصل مالیت
،طریقہ کار، شرعی حیثیت ، کارکردگی اور ان کمپنیوں کے حوالے سے حکومت
پاکستان کے بعض انویسٹی گیشن اداروں کی شائع کردہ رپورٹس کا باریک بینی سے
جائزہ لیا اور تمام تفصیلات جامعہ اشرفیہ لاہور کے ترجمان ماہنامہ الحسن
میں تفصیل سے شائع کیا۔ان تمام کمپنیوں کے فراڈ و دجل اور مکروفریب پر مبنی
کاروبار کی تفصیل اور ان کا اصلی چہرہ کھول کر بیان کیا ۔فروری 2013ء کے
شمارے میں صفحہ نمبر 51 سے63 تک یعنی بارہ صفحات پران تمام مضاربت و مشارکت
کے نام پر حرام کاروبار کرنے والی کمپنیوں کی تفصیلات شائع کردی۔آپ ملاحظہ
کرسکتے ہیں۔اور عوام الناس سے درمندانہ اپیل کی کہ جب تک یہ تمام کمپنیاں
مستند مفتیان کرام اور معتبر دارالافتائوں سے اپنے کاروبار کا مکمل شرعی
آڈٹ نہ کراوائے، ان سے بچیں۔اور مفتیان کرام نے ان کمپنیوں کے مالکان اور
کام کرنے والے ایجنٹوں سے طویل سوالات بھی پوچھے۔ ان کمپنی والوں نے اتنا
طویل عرصہ گزرنے تک ان سوالات کے جوابات بھی نہیں دیے۔
جامعہ دارالعلوم کراچی پاکستان کی معروف دینی جامعہ ہے۔جامعہ دارالعلوم
کراچی سے 17دسمبر 2012ء کو ایک تفصیلی فتویٰ ان کمپنیوں کے حوالے سے شائع
ہوا جس میں ان پر عدم اعتماد کا اظہار کیا گیا اور عوام الناس سے بچنے کی
تلقین بھی کی۔اس فتویٰ میں دارالعلوم کے تمام مفتیان کرام کے دستخط ثبت
ہیں۔جب مضاربہ ومشارکہ کمپنیوں نے جامعہ دارالعلوم کراچی کے شیخ الحدیث ،
جناب جسٹس مفتی محمد تقی عثمانی صاحب کا نام بطور نگران پیش کرنے کی کوشش
کی تو حضرت نے اخبارات میں ایک تفصیلی خبر دی جس سے ان کمپنیوں سے واضح
برأت کا اظہار کیااور سختی سے تردید کی۔ انہوں نے کہا کہ''بعض کمپنیاں ملک
کے مختلف حصوں میں مضاربت کی بنیاد پر لوگوں سے رقمیں لے کرا ور انہیں
کاروبار میں لگاکر نفع تقسیم کرنے کا دعویٰ کررہی ہیں اور لوگوں کی یہ
بتارہی ہے کہ یہ کاروبار میرے مشورے سے ہورہا ہے یا میں نے اس کے شرعی
کاروبار ہونے کا فتویٰ دیا ہے اس لیے میں یہ وضاحت کرتا ہوں کہ ان میں سے
کسی بھی کمپنی یا اس کے چلانے والوں کونہ میں جانتا ہوں نہ ان کے طریق کار
سے واقف ہوں اور نہ ہی میں نے ان کے شریعت کے مطابق ہونے کا فتویٰ دیا ہے،
لہذا جس کسی نے بھی میرا نام لیا ہے وہ غلط ہے ۔ میراان کمپنیوں کے کاروبار
سے کسی بھی قسم کا کوئی تعلق نہیں ہے۔(رونامہ اسلام20نومبر2012ئ) یہ وضاحت
کئی اخبارات اور دینی رسائل میں بھی شائع ہوئی ہے۔ حد تو یہ ہوئی کہ ایک
گروپ نے جامعہ دارالعلوم کراچی کی طرف منسوب کرکے باقاعدہ فتویٰ نمبر بھی
لگاکر ، دارالعلوم کے تمام مفتیوں کے دستخطوں سے مزین کرکے ایک کمپوٹرائزڈ
فتویٰ تیار کیا جو بالکل اصلی فتویٰ لگتا تھا کی فوٹوکاپیاں شائع کروائی
اور عوام میںتقسیم کی ۔جب دارالعلوم والوں کو پتہ چلا تو انہوں نے اخبارات
کے علاوہ اپنے ماہنا مہ البلاغ انٹرنیشنل میں بھی اس جعلی فتویٰ کا بھانڈا
پھوڑا اور مارچ 2013ء کو البلاغ میں اس کے برعکس فتویٰ جاری کیا اور ان
کمپنیوں والوں کو آگاہ کیاکہ اگر اس غلط بیانی اور دھوکہ دہی سے اجتناب نہ
کیا تو دارالعلوم کراچی کی انتظامیہ اور دارالافتاء ان کے خلاف قانونی چارہ
جوئی کا حق رکھتا ہے۔
جامعة الرشید کراچی ایک معروف دینی ادارہ ہے۔ اس میں بڑے مفتیاان کرام
تشریف رکھتے ہیں۔جامعہ کے دارالافتاء سے دوسال قبل 20ربیع الاول1432ء کو
ایک تفصیلی فتویٰ ان کمپنیوں کے حوالے سے شائع کیا گیا جس میں ان کمپنیوں
کے کاروبارپر عدم اعتماد کا اظہار کیا گیا اور عوام الناس سے بچنے کی تلقین
کی۔ معروف کالم نگار اور جامعة الرشید کے مفتی جناب الولبابہ صاحب تو روز
اول سے ان کمپنیوں کے کاروبار کے سخت مخالف تھے، انہوں نے ہر فورم میں اس
کی وضاحت کی۔
پاکستان کے اکثر جامعات کے شیخ الحدیثوں کے استاد حضرت مولانا سلیم اللہ
خان صاحب نے مختلف اخبارات و رسائل میں ایک تفصیلی مکتوب شائع کروایا جس
میں ان کمپنیوں کے کاروبار کو دجل و فریب پر مبنی کاروبار قرار دیا،۔ہفت
روزہ ختم نبوت میں حضرات والا کا مکتوب شائع ہوا اور پوری دنیا میں پہنچ
گیا ۔مختلف لوگوں کے استفسارات پر بھی حضرت شیخ نے سختی سے بچنے کی تلقین
کی۔حضرت نے تبلیغی مرکز رائیونڈ کے ذمہ داروں کے نام بھی تحریر فرمایا اور
پرزور انداز میں اس فتنے کے سد باب کی ہدایت فرمائی جس پر تبلیغی مرکز
رائیونڈ کی طرف سے بھی اخبارات میں اس کاروبار سے مکمل برأت کا اظہار کیا
گیا ۔ حضرت والا کے تمام تفصیلی احکامات وشائع شدہ خط دوسرے اخبارات و
جرائد کے علاوہ جامعہ اشرفیہ لاہو ر کے ماہنامہ الحسن نے بھی فروری 2013ء
کو تفصیل سے شائع کیا۔حضرت نے انتہائی سخت الفاظ استعمال کیے اور عوام
کواور خصوصی طور پر علماء کرام کو بچنے کی وصیت کی ۔
ان اکابر علماء کے علاوہ بھی دیگر معروف دارالافتاؤں نے وقتافوقتا ان
کمپنیوں کے کاربار پر عدم اعتماد کا اظہار کیا اور عوام سے دور رہنے اور
اپنا سرمایہ بچانے اور جنہوں نے لگایا ہے انہیں فوری واپس لینے کی تلقین
کی۔
ماہنامہ الحسن فروری 2013 ء میںعلماء کرام کی ایک مشترکہ التماس بھی عوام
الناس کے نام شائع ہوئی جو اس طرح ہے''تمام لوگوں سے کہ وہ مندرجہ ذیل
کمپنیز(کیپبل ایشاء الیگزر گروپ آف کمپنیز، آصف جاوید ٹریڈنگ کمپنی، پاک
ویز، الغفار ایسوسی ایشن، گرین سوئز کارپوریشن، حبیب کاروپوریشن،میزبان
ٹریڈنگ کمپنی، المسلم ٹریڈنگ کمپنی، شفیق کیبل مرچنٹ، ایم ایم قریشی
پرائیوٹ لمیٹڈ، مسیحاانٹر پرائز،شفیق انٹرپرائز،البرکہ مضاربہ کمپنی،
الحاشر مضاربہ کمپنی) کے کاروبار میں انویسٹ کرنے سے اجتناب کریں اور جن
لوگوں نے اپنی رقم لگا رکھی ہے وہ کی گئی انویست منٹ کی حد تک اپنی رقم
واپس لے لیں اور جب تک کسی معتبر دارالافتاء یا مستند علمائِ کرام سے یہ
لوگ اپنے کاربار کا مکمل شریعہ آڈٹ نہیں کروالیتے اس وقت تک ان سے معاملہ
کرنے سے احتیاط کیا جائے۔(الحسن فروری2013ء صفحہ نمبر 63)۔
قارئین اس تمام تر تفصیل کے بعد یہ بات عیاں ہوچکی ہے کہ مضاربہ و مشارکہ
اسکینڈل سے جید علماء کرام اور ملک کے بڑے دینی اداروں ، جامعات،
دارالافتاؤں اور شخصیات کا دور کا بھی تعلق نہیں بلکہ ان حضرات نے تو دلیل
اور قوت کے ساتھ ان مکروہ دھندوں کی مخالفت بروقت کی ہے۔ اب جن لوگوں نے
عامیانہ قسم کے لوگوں کے ذریعے اپنی رقم مضاربہ و مشارکہ کمپنیوں میں جمع
کروائی ہے اور اس سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں تو اس کا تعلق اکابر اور بزرگان
دین اور مسجد و محراب کے ساتھ جوڑنا نہایت ناانصافی ہے۔ میرے پاس ذکرکردہ
معلومات کے علاوہ بھی کافی معلومات موجود ہیں کہ علماء کرام کے ایک بڑے
طبقے نے شدت کے ساتھ اس کی نفی کی تھی۔گلگت بلتستان سے جن جن لوگوں کی رقوم
ضائع ہوئی ہے ان کی تمام تر معلومات بھی میرے پاس جمع ہیں اور کئی جمع
کنندگان کو ذاتی طور پر جانتا بھی ہوں ۔ان میں سے کسی کا بھی تعلق ان
بزرگوں سے نہیں ہے۔ یہی صورت پورے ملک کی ہے۔ ہاں چند ایک سادہ مفتیان کرام
اور علمائِ دین ان لٹیرووں کے دام میں پھنسے ہیں اور ان کے مکروہ دھندے میں
نادانستہ معاون بھی بنے ہیںلیکن اب کفِ افسوس مل رہے ہیں۔بہر صورت چند
لوگوں کی آڑمیں اکابر علماء کو قصوروار ٹھہرانے اور ان پر سب وشتم سے گریز
کیا جائے۔لوگوں کی رقوم ، تو مئی 2013سے دلدل میں پھنس گئی ہیں مگر علماء
نے تو ڈیڑھ سال قبل ہی اس کی نشاندھی کی تھی ۔ پھربھی یہ قصور وار
اورسزاوارکیوں؟۔۔۔یا للعجب!کیا پورے ملک میںکسی بھی دارالافتاء نے ان
کمپنیوں کے کاروبار کے جواز کا فتوی صادر کیا تھا ؟ یا کسی نے بھی ان اکابر
علماء سے اجازت لے کر اپنی رقوم بغیر کسی رسید ، اسٹام یا کسی معاہدے کے ان
کمپنیوں میں جمع کروائی تھی؟ یقینا نہیں۔ علماء کرام اور بزرگان دین کے
علاوہ صحافیوں ، قلم کاروں اور مختلف کاروباری شخصیات نے بھی عوام الناس کو
آگاہ کیا تھا کہ یہ سلسلہ ٹھیک نہیں مگر کسی کو عقل ہی نہیں آئی۔تو پھر
اپنی غلطیوں کا خمیازہ علماء کرام پر نہیںڈالنا چاہیے۔اللہ ہم سب کا حامی و
ناصر ہو۔ |